سبز انقلاب کا خواب

یاور عباس
معاشی اور اقتصادی بحرانوں میں گھرا پاکستان آئی ایم ایف کے شکنجے میں اس وقت بری طرح جکڑا ہوا اور اب تو نوبت یہ آگئی ہے کہ محض ایک ارب ڈالر کے لیے بھی آئی ایم ایف ہماری حکومتوں کو تگنی کا ناچ نچاتا ہے ، اور اس کے بدلے ہماری حکومتوں سے نہ جانے کون کون سے خفیہ معاہدے کروا لیتا ہے، حکومت نے کن شرائط پر قرضے حاصل کیے اس کی تفصیل پارلیمنٹرینز کے پاس بھی نہیں اسی لیے نور عالم نے قومی اسمبلی میں تفصیلات سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت نے روایتی طور پر ایسی صورتحال کی ذمہ داری ماضی کی حکومت پی ٹی آئی پر ڈال دی ہے ،یہ کوئی نیا بیانیہ نہیں بلکہ ہر حکومت ایسے ہی معاشی تباہی کی ذمہ داری سابقہ حکومت پر ڈال دیتی ہے اور نوٹ کر لیں کہ جس کسی کی حکومت بھی آئی وہ شہباز شریف کو ذمہ دار ٹھہرائے گی کہ اس حکومت کی غلط پالیسیوں نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا اور ہم مزید قرضے لینے پر مجبور ہیں یونہی ڈنگ ٹپائو پالیسی چلتی رہے گی، عوام حکومتوں کے مشکل فیصلوں کی بھینٹ چڑھتی رہے گی ، غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری میں اضافہ ہوتا رہے گا اور لوگ خوشحالی کی تلاش میں کشتیوں میں جان کی بازی لگانے پر مجبور ہوںگے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ڈیڑھ سال میں سیاست نہیں ریاست بچائی اور عوام کو مہنگائی سے ریلیف دیا ہے ، صرف لفظوں سے کھیل کر عوام کو مطمئن کرنے کا وقت اب گزر چکا ہے جو لوگ مہنگائی کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہیں ، آٹے کی لائنوں میں لگ کے کتنے لوگوںنے جان کی بازی ہار دی مہنگائی کی شرح 14فیصد سے 38فیصد تک چلی گئی اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پی ڈی ایم حکومت کے دور میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر چلی گئی ، سیاست نہ بچانے والوں نے اپنے کیس سارے عدالتوں سے نہیں قانون سازی کر کے ٹھپ کروالیے ،اربوں روپے کے فنڈز پارلیمنٹیرینز کو دے دئیے تاکہ وہ حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے ذریعے الیکشن کا خرچہ بنالیں ۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازیاں غریب کی خوشحالی کے لیے نہیں تھیں بلکہ حکومت کی سہولت کاری اور مضبوطی کے لیے کی گئیں اور اس کا اعتراف حکومتی بینچوں سے بھی شاہد خاقان عباسی نے کیا۔
پی ڈی ایم کی حکومت نے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر اپنی مدت ختم ہونے سے ایک ماہ قبل آئی ایم ایف سے 3ارب ڈالرز کی اسٹینڈ بائی امداد حاصل کرلی ہے جس سے ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا اگرچہ اس سے عوام کو کوئی خاطر خواہ ریلیف نہیں مل سکے گا اور 415ارب کے نئے ٹیکسز کے نفاذ سے مہنگائی میں مزید اضافہ کا امکان ہے ، وزیراعظم کی خواہش ہے کہ یہ قرضہ آخری ثابت ہواور ہمیں دوبارہ قرض نہ لینا پڑے، یہ خواہش تو پوری قوم کی ہے مگر شاید فی الفور پوری نہ ہوسکے ۔معاشی بحالی کے لیے حکومت کے ساتھ فوج بھی شانہ بشانہ کام کررہی ہے ،ملکی خوشحالی کے لیے ریاستی اداروں کا ایک پیج پر ہونا ازحد ضروری ہے مگر اپنی آئینی حدود میں رہ کر ایک دوسرے کو مضبوط کرنا چاہیے اور ملکی ترقی میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز بتایا کہ آئی ایم ایف سے قرض کے حصول میں بھی آرمی چیف کی کوششیں شامل ہیں ۔ملک کو درپیش معاشی گرداب سے نکالنے کے لیے حکومت اور فوج نے مل کر گرین پاکستان انیشی ایٹو پروگرام ترتیب دیا ہے ۔ 10جولائی کو آرمی چیف سید عاصم منیر نے گرین پاکستان کا چارٹر وزیر اعظم شہباز شریف کو ایک تقریب میں پیش کیا ۔ حکومتی اعدادو شمار کے مطابق اس پروگرام کے ذریعے 40ارب ڈالرز تک سرمایہ کاری متوقع ہے اور 40لاکھ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، 60ء کی دہائی میں پاکستان نے زراعت میں ریکارڈ ترقی کی تھی ، وسیع زرعی رقبہ کے ساتھ ساتھ قدرتی موسموں کی دستیابی بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہے ، یہاں گندم ، چاول ، کپاس، گنا، دالیں ، سبزیاں اور ہر قسم کی اجناس پیدا ہوتیں ہیں ۔ زراعت پر ہر حکومت کام کے دعوے کرتی ہے مگر عملی طور پر کسان آئے روز دھرنوں پر مجبور ہیں ، پیداواری لاگت کو کم کرنے کی کوئی حکمت عملی نہیں بنائی جاتی، کھاد اور بیج سستے داموں تو دور کی بات ہے کنٹرول ریٹ پر بھی دستیاب نہیں ہوتے اور کسان بلیک میں خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں ، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے بھی زراعت کا شعبہ متاثر ہوا ، لینڈ مافیا نے زرعی رقبوں پر ہائوسنگ سکیمیں بناکر بھی زراعت کو نقصان پہنچایا ہے، زرعی پیداوار کے لحاظ سے اپنی اجناس کی ایکسپورٹ کرنے والا ملک آج گندم ،چینی اور دالیں تک امپورٹ کرنے پر مجبور ہے ۔
زرعی شعبے میں انقلابی اقدامات اُٹھانے سے یقینا ملکی معیشت میں بہتری آسکتی ہے ، غربت اور بے روزگاری میں کمی واقع ہوسکتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ نظام انصاف اور کرپشن سے پاک پاکستان کے بغیر ہم جتنی بھی محنت کر لیں کبھی اس کے ثمرات حاصل نہیں کرسکتے ، کرپشن فری معاشروں میں محنت کرنے والی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں وگرنہ ایسی بالٹی میں پانی ڈالتے رہنا اور خواہش کرنا کہ یہ بھر جائے گی جس میں چھید ہوئے ہوں تو ممکن نہیں ۔ زرعی شعبے میں ریفارمز کرنا وقت کی ضرورت ہے، پاکستان میں 60فیصد سے زائد لوگ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں ، زرعی شعبے میں انقلابی اقدامات اور جدید طریقہ ہائے کاشت کے ذریعے فصلوں کی پیداوار میں اضافے کو یقینی بناکر خوشحالی لائی جاسکتی ہے، گرین پاکستان مہم ایک بہترین منصوبہ ہے مگر ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہر آنے والی حکومت سابقہ حکومت کے منصوبوں کو ٹھپ کر دیتی ہے اور اپنے نئے پروگرام نئے ناموں سی پیش کر دیتی ہے۔ ملک بھر میں اربوں روپے کے بے شمار ترقیاتی منصوبے محض حکومتوں کی تبدیلی کی وجہ سے بند پڑے ہوئے ہیں اور کئی دہائیوں سے بند ہونے کی وجہ سے کروڑوں روپے کا نقصان بھی ہوجاتا ہے۔ ہر حکومت کو چاہیے کہ وہ اچھے منصوبوں کو تسلسل سے جاری رکھیں اور انہیں منصوبوں میں بہتری کے لیے اقدامات کریں تو اس کے ثمرات عوام تک پہنچ سکتے ہیں۔







