نوٹس، رپورٹ، انکوائری اور ایکشن

تحریر : فیاض ملک
گزشتہ دنوں جہلم شہر کے جی ٹی روڈ پر میں ہوٹل کی عمارت میں سلنڈر دھماکے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں 7افراد ہلاک جبکہ 15زخمی ہوگئے تھے، سلنڈر پھٹنے کے ساتھ ہی عمارت زمین بوس ہوگئی اور ہر طرف دھواں ہی دھواں پھیل گیا تھا۔ تین منزلہ عمارت کی بالائی منزل پر پانچ رہائشی کمرے، جبکہ بلڈنگ کے گرائونڈ فلور پر فوٹو سٹوڈیو، دھوبی کی دکان اور ہوٹل کے ساتھ ساتھ بیسمنٹ میں ہوٹل کا سٹور اور سلنڈر بھرنے والے کی دکان تھی، ابھی اس افسوسناک واقعہ کی باز گشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ سرگودھا کی تحصیل بھلوال میں مسافر وین میں گیس سلنڈر، پھٹنے سے 7افراد جاں بحق اور 14زخمی ہوگئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وین میں21مسافر سوار تھے اور یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب وین مسافروں کو لے کر بھلوال سے کوٹ مومن جارہی تھی۔ یاد رہے کہ ماضی میں پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے استعمال ہونیوالی گاڑیوں اور سکولوں کی وین میں نصب گیس سلنڈروں کے پھٹنے کے اتنے زیادہ واقعات سامنے آ چکے ہیں کہ حکومت کو ایسی نجی پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں میں گیس سلنڈر استعمال کرنے پر پابندی لگانا پڑ گئی تھی۔ تاہم اس عمومی پابندی کی خلاف ورزی کے واقعات بھی عام ہیں، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ارباب اختیار کو بھی عملی اقدامات کرنے کی فرصت نہیں، یہی وجہ ہے کہ آج بھی ملک کی ستر فیصد سے زائد گاڑیاں سی این جی پر چلتی ہیں۔ لیکن کس طرح ؟، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، اب صورتحال یہ ہے کہ پولیس کی جانب سے ان دونوں افسوسناک واقعات کے مقدمات درج کرلئے گئے بلکہ دوسری جانب نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے ان دونوں واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹ بھی طلب کرلی ہے، اب متعلقہ حکام نگران وزیر اعلیٰ کو کیا رپورٹ دیتے ہیں اور ان واقعات میں غفلت و لاپروائی پر وہ ذمہ دار افسران کے خلاف کیا ایکشن لیتے ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا، جس کا شدت سے انتظار بھی رہے گا، قارئین کرام! اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر یہ گیس سلنڈر کیوں پھٹتے ہیں، اس کی وجوہات کیا ہیں، ایل پی جی (LPG)یعنی مائع پٹرولیم گیس سے مراد وہ گیس ہے جو معدنی تیل ( پٹرولیم) سے حاصل ہوتی ہے اور بطور ایندھن گاڑیوں اور چولہوں میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر پروپین ہوتی ہے جسے کیمیاء میںc3H8سے ظاہر کرتے ہیں۔ اس میں کچھ بیوٹین Cبھی موجود ہوتی ہے۔ سلنڈر کے اندر دبائو کے تحت یہ گیس مائع میں تبدیل ہو جاتی ہے، اس لیے اس کا نام LPGہے اور اس کا سلنڈر سیدھا رکھا جاتا ہے تا کہ مائع کے اوپر کی گیس استعمال ہو سکے۔ یہ مائع جب گیس بنتا ہے تو اس کے حجم میں لگ بھگ ڈھائی سو گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس سی این جی اپنے سلنڈر کے اندر بھی گیس ہی کی شکل میں رہتی ہے اور مائع میں تبدیل نہیں ہوتی ۔ اسی وجہ سے سی این جی کے سلنڈر کو استعمال کے وقت سیدھا رکھنا ضروری نہیں ہوتا۔ گیس سلنڈر دھماکوں کی خاص وجہ سلنڈر، کنکشن ، ریگولیٹر یا متعلقہ اشیاء سے گیس کا اخراج ہے۔ لیک سے نکلنے والی گیس ایک محدود جگہ میں جمع ہوتی ہے، ہوا کے ساتھ آتش گیر حد کی حدود میں مل جاتی ہے جس میں اگر چنگاری یا اگنیشن ماخذ شامل کیا جائے تو سیکنڈوں میں گیس سلنڈر دھماکہ ہوجاتا ہے۔ یہ دھماکے مختلف دھماکہ خیز گیس کی وجہ سے بھی ہو سکتے ہیں جس میں قدرتی گیس ( میتھین) ، ایل پی جی ( پروپین یا بیوٹین) ، سی این جی ( میتھین) اور ویلڈنگ گیس شامل ہیں۔ اگر یہ گیس لیک ہو تو آگ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں ایک تیز بو دار مرکب ethanethiolیا ایمائل مرکیپٹان ملا دیا جاتا ہے جس کی بو لیکیج کا پتہ دیتی ہے۔ سی این جی اور سوئی گیس جب لیک ہوتی ہے تو ہوا سے ہلکی ہونے کی وجہ سے آسمان کی طرف جاتی ہے اور اس طرح خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ لیکن ایل پی جی ہوا سے بھاری ہوتی ہے اور لیک شدہ ایل پی جی وہیں موجود رہتی ہے اور نظر بھی نہیں آتی جس سے آگ لگنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ہوا سے بھاری ہونے کی وجہ سے لیک ہونے والی ایل پی جی پانی کی طرح ڈھلان کی طرف بہتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اوپر کی منزل میں لیک ہونیوالی ایل پی جی کی وجہ سے نچلی منزل میں آگ لگ جائے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں گیس سلنڈر دھماکوں کی سب سے بڑی وجہ ناقص گیس سلنڈر ہیں کیونکہ وہ مینوفیکچرنگ اور حفاظت کی ضروریات کو پورا نہیں کرتے ہیں اور دیکھا جائے تو پاکستان میں اوگرا نے سلنڈر بنانے کیلئے جن کمپنیوں کو لائسنس جاری کئے ہوئے ہیں ان میں بیشتر کمپنیاں مستند عالمی معیارات اور ایس او پیز کو نظر انداز کرکے غیر معیاری سلنڈر بنا رہی ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز گیس سلنڈر پھٹنے کے واقعات معمول بن چکے ہیں، ماہرین کے مطابق معیاری سلنڈر دھوپ ، ٹھوکر اور بعض اوقات آگ سے بھی نہیں پھٹتا جبکہ غیر معیاری سلنڈر ذرا سی بے احتیاطی سے پھٹ سکتا ہے جس کی وجہ سے جانی و مالی نقصان معمول بن چکا ہیں، یہ بھی سچ ہے کہ حکومت کی جانب سے ہر واقعہ کے بعد اس کا نوٹس لیتے ہوئے صرف اس کی رپورٹ ہی طلب کرنا بھی کوئی نئی بات نہیں، یہاں سب جیسا ہے جہاں ہے کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بحیثیت قوم ہم سب لوگ ’دھکا سٹارٹ‘ ہیں۔ نہ ہم سی این جی سلنڈرز کو درست طریقے سے لگواتے ہیں اور نہ ہر پانچ سال بعد انہیں چیکنگ کرانے پر آمادہ ہوتے ہیں بس صرف ڈنگ ٹپائو پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ ایسے افسوسناک واقعات میں کمی اسی صورت میں آسکتی ہے جب ارباب اختیار سخت قانون بنائیں گے اور اس پر اسی سختی سے عمل درآمد بھی کروائیں گے۔





