کیا پی ٹی آئی پر پابندی لگنے جا رہی ہے؟

کیا پی ٹی آئی پر پابندی لگنے جا رہی ہے؟
رفیع صحرائی
اگر عمران خان کے مستقبل کے حوالے سے کوئی ابہام تھا تو الیکشن کمیشن نے اسے بھی دور کر دیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ’’بلے‘‘ کے نشان کو بیلٹ پیپر میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان تحریکِ انصاف آئندہ الیکشن میں شاید حصہ نہیں لے پائے گی۔ یہ فیصلہ پی ٹی آئی پر لگنے والی متوقع پابندی کا ابتدائیہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ گو ابھی تک کسی عدالت یا حکومت کی طرف سے پابندی کا ایسا کوئی فیصلہ نہیں آیا مگر پاکستان میں جب کوئی ارادہ کر لیا جاتا ہے تو پھر فیصلہ آنے میں دیر نہیں لگتی۔ اس فیصلے کا دوسرا پہلو بھی ہے۔ اگر پی ٹی آئی پر پابندی نہیں بھی لگتی اور اسے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت مل جاتی ہے تو ایسی صورت میں بھی اسے اپنا انتخابی نشان تبدیل کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ’’ بلا‘‘ اب الیکشن کمیشن کے نشانات کی فہرست میں موجود ہی نہیں ہے۔ یعنی پی ٹی آئی سمیت کوئی آزاد امیدوار بھی ’’ بلے‘‘ کو انتخابی نشان کے طور پر نہیں لے سکے گا۔ یہ بالکل ایسا ہی فیصلہ ہے جیسا فیصلہ 1985ء کے انتخابات میں کیا گیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے 1970ء کے انتخابات میں تلوار کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑا تھا۔ یہ نشان پیپلز پارٹی کے لئے خوش بختی کی علامت ثابت ہوا اور اس کی حکومت بن گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے تلوار کا نشان بہت سوچ سمجھ کر منتخب کیا تھا۔ پی پی پی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ شیرِ خدا حضرت علیؓ کی ایک تلوار کا نام بھی ’’ ذوالفقار‘‘ تھا جو انہی حضرت مُحَمَّدؐ کی طرف سے جنگِ اُحد کے موقع پر تحفے میں ملی تھی۔ ناموں کے اس امتزاج کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنا انتخابی نشان تلوار لیا تھا۔ پی پی پی کے بینروں، پوسٹروں اور بعض اوقات سبز، سیاہ اور سرخ رنگ پر مشتمل جھنڈے پر تلوار کا نشان بنایا جاتا تھا اور ساتھ یہ مصرع بھی لکھا جاتا تھا ’’ لا فتٰی اِلّا علی، لا سیف اِلّا ذوالفقار‘‘۔ پیپلز پارٹی نے 1970اور 1977کے انتخابات میں تلوار کے نشان سے ہی حصہ لیا تھا لیکن جب جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد 1985میں غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کیا تو انتخابی نشانات کی فہرست سے تلوار کا نشان ہی ہٹا دیا گیا۔
پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیاء الحق کی 17اگست1988کو فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے بے نظیر بھٹو کی قیادت میں تیر کے انتخابی نشان پر حصہ لیا اور یہ الیکشن جیت کر ملک میں اپنی حکومت بنا لی۔ اس انتخاب میں بھی تلوار کے نشان کو شامل نہیں کیا گیا تھا چنانچہ تلوار سے ملتے جلتے نشان ’’ تیر‘‘ کا انتخاب کیا گیا۔
اب پھر وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ سانحہ 9مئی کے بعد عمران خان کسی کے بھی ’’ ڈارلنگ‘‘ نہیں رہے۔ مستقبل بعید کا تو پتہ نہیں مگر آنے والے الیکشن میں عمران خان نظر نہیں آ رہے۔ اس بات کا ادراک خود عمران خان کو بھی ہے۔ وہ متعدد بار اپنی نااہلی اور گرفتاری کے خدشے کا اظہار کر چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ان کے اس خدشے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ بلے کا نشان الیکشن کمیشن کی فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی بھی الیکشن کی دوڑ سے خارج ہو گی یا صرف عمران خان کی نااہلی پر بات ٹل جائے گی۔ اگر پی ٹی آئی انتخابات میں حصہ لینے کی اہل قرار پا گئی تو اسے انتخابی نشان تبدیل کرنا ہو گا۔ بلے کے قریب ترین کسی نشان کا انتخاب کرنا ہو گا جو ممکنہ طور پر ’’ بلے باز‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ نشان فہرست میں موجود ہے۔
اسٹیبلشمنٹ نے سانحہ 9مئی کی تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔ وہ اس کے ذمہ داروں کا تعین بھی کر چکی ہے بلکہ اپنے اندر کی ذمہ داروں کو تو اس نے سزا بھی دے ڈالی ہے۔ اب سویلین کی باری ہے۔ 102لوگوں کو فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لئے منتخب کر لیا گیا ہے۔ فوج نے اس بیانیہ کو بہت دفعہ دہرایا ہے کہ جو کام دشمن فوج سات دہائیوں میں نہ کر سکی اسے ملک کے اندر سے ہمارے اپنوں نے کر دکھایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوج 9مئی کے تمام کرداروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہتی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اپنی تحقیقات اور شواہد کی روشنی میں فوج عمران خان کو اس سانحہ کا ماسٹر مائنڈ سمجھتی ہے اور ان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلانا چاہتی ہے۔ موجودہ حکومت بھی بغیر کسی ابہام کے 9مئی کے سانحہ کا ماسٹر مائنڈ عمران خان کو ہی قرار دیتی ہے مگر وہ خان کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلانے کے معاملے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ کیونکہ اس فیصلے کے بڑے دور رس نتائج نکلیں گے۔ مستقبل میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر بھی اسی طرح کے سوالات اٹھیں گے جس طرح کے سوالات کا آج عمران خان کو اپنے دور میں فوجی عدالتوں کی حمایت کرنے پر سامنا ہے۔ عمران خان تو فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والوں کو پشاور ہائیکورٹ سے ریلیف ملنے پر اس ریلیف کے خلاف باقاعدہ سپریم کورٹ میں چلے گئے تھے جس پر 2019ء میں سپریم کورٹ نے سٹے دے دیا اور وہ لوگ ابھی تک جیلوں میں بند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ مہینے جب عمران خان فوجی عدالتوں کے خلاف سپریم کورٹ گئے تو انہیں ہر جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
ان حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت عمران خان کا کیس فوجی عدالت میں جانے کے معاملے پر تذبذب کا شکار ہے۔ وہ اسی لئے انہیں گرفتار بھی نہیں کر رہی۔ پی ڈی ایم کی حکومت خصوصاً ن لیگ اور پیپلز پارٹی یہ وزن اٹھانے سے گریزاں ہیں۔ گو عمران خان کو ’’ قرار واقعی‘‘ سزا دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ انہیں ہر صورت گرفتار ہونا ہے، جیل جانا ہے، متوقع طور پر نااہل بھی ہونا ہے اور قید بھی کاٹنا ہے۔ حکومت یہ ’’ ڈس کریڈٹ‘‘ اپنے کھاتے میں نہیں ڈالنا چاہتی۔ اس کی خواہش اور کوشش ہے کہ دس اگست تک عمران خان کی گرفتاری ٹلی رہے۔ یہ کام آنے والی غیر منتخب نگران حکومت کرے۔ یا پھر ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ موجودہ حکومت عمران خان کا کیس سول عدالت میں چلانے پر اسٹیبلشمنٹ کو راضی کر لے۔ موجودہ حکومت کے پاس صرف آخری چار ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ دیکھتے ہیں کیا فیصلہ سامنے آتا ہے۔ سنا ہے عمران خان نے 9اور 10جولائی کی درمیانی رات ایک مشترکہ دوست کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کو ’’ غلط فہمیاں‘‘ دور کرنے کے لئے پیغام بھیجا تھا، مگر ادھر سے جواب ملا ہے کہ ’’ ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ ہر چیز صاف اور واضح ہے‘‘۔







