سیاست دانوں کا نوحہ

سیاست دانوں کا نوحہ
امتیاز عاصی
سچی بات کہنا اور بر محل نہ کرنا سیاست دانوں کا وتیرہ ہے ۔ سیاست دانوں سے اقتدار میں ہوتے ہوئے کوئی ان سے بات کہتا ہے تو اس کا بروقت انکشاف کرنے سے گریزاں رہتے ہیں حالانکہ ہمارے مذہب میں سچ کو چھپانے کی ممانعت ہے۔ سیاست دان بروقت سچ بولنے سے کیوں گریز کرتے ہیں جس کی وجہ انہیں اقتدار سے جانے کے خطرات لاحق ہوتے ہیں لہذا وہ بروقت بات کرنے سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں۔ عمران خان ہوں یا مولانا فضل الرحمان یا کوئی سیاست دان ہو اس معاملے میں سب ایک ہی تھیلی کے چھٹے بٹے ہیں ۔ جی یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن نے صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے انہیں جنرل ( ر) فیض حمید نے چیئرمین سینٹ بنانے کی پیش کش کی تھی جسے انہوں نے ٹھکرا دیا تھا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے جنرل باجوہ کے سبکدوش ہونے کے بعد انکشاف کیا تھا انہیں جنرل باجوہ نے احتساب کرنے سے منع کر رکھا تھا وہ انہیں حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے کی تاکید کرتے تھے۔ چیئرمین تحریک انصاف اور جے یو آئی کے سربراہ دونوں فوجی افسران سے ہونے والی بات چیت کا انکشاف بروقت کرتے تو اس کی اہمیت اور زیادہ تھی لیکن جب کوئی منصب سے ہٹ جائے تو ان سے ہونے والی بات چیت کا اظہار اخلاقی طور پر مناسب نہیں۔ اگر سیاست دانوں میں اخلاقی جرات ہوتو کسی کے منصب پر رہتے ہوئے اس سے ہونے والی بات چیت سے عوام کو آگاہ کریں تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ تعجب ہے مولانا فضل الرحمن نے الزام لگایا ہے گزشتہ انتخابات میں عمران خان کو بھارتی خفیہ ایجنسی را اور موساد کی حمایت حاصل تھی جب کہ اس کے برعکس چند روز پہلے ممتاز کالم نگار ہارون رشید نے سوشل میڈیا پر انکشاف کیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنی کابینہ کے وزرا سے کہا تھا مولانا فضل الرحمان کو مالی طور پر بھارت سپورٹ کرتا ہے۔ سوال ہے عوام کس کی باتوں پر یقین کریں ؟۔ مولانا فضل الرحمان کی البتہ یہ بات سچی نکلی جو انہوں نے کے پی کے اور پنجاب کے ضمنی الیکشن کے نہ ہونے کا بروقت انکشاف کر دیا تھا۔ اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا وہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹانا نہیں چاہتے تھے بلکہ اپوزیشن جماعتوں کی وجہ سے انہیں ایسا کرنا پڑا حالانکہ ممتاز صحافی نواز رضا نے اپنی کتاب روداد سیاست میں تحریر کیا ہے عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی مولانا فضل الرحمان نے انہیں اقتدار سے ہٹانے کی کوشش شروع کر دی تھی لہذا عوام سیاست دانوں کی کس بات پر یقین کریں؟، اب بشمول حکومتی وزراء عام انتخابات کا انعقاد اکتوبر میں ہونے کی نوید دے رہے ہیں حالانکہ معاملات اس کے برعکس ہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق یا تو اسی حکومت کی مدت میں توسیع کر دی جائے گی یا پھر نگران سیٹ اپ لایا جائے گا جو کم از کم ایک سال تک جب تک پی ٹی آئی کا پوری طرح قلع قمع نہیں ہو جاتا انتخابات کے انعقاد کا کوئی امکان نہیں ہے حالانکہ آئی ایم ایف پروگرام قومی اتفاق رائے کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اسی لیے وہ انتخابات پر زور دیتے ہیں۔ ملک میں عدم استحکام کی صورت میں قرض لینے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے آئی ایم ایف کے وفد نے سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کی ہیں۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان لی ہیں جس کے بعد اگر آئی ایم ایف نے پیسے دیئے جس کا ابھی تک کوئی امکان نہیں ہے حکومت کو آئی ایم ایف کے مطالبے پر تمام درآمدات کھولنا پڑیں گی جس کے بعد جو ڈالر آئی ایف ایم سے ملیں گے وہ تمام کے تمام غیر ملکی درآمدت کی نذر ہو جائیں گے۔ ملک کی صورت حال یہ ہے اعلی عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آتی۔ جس ملک میں قانونی عمل داری اور انصاف ہوتا نظر نہ آئے ایسے ملک ترقی کر سکتے ہیں؟، حکومت غیر ضروری اخراجات میں کمی کرنے کو تیار نہیں حالیہ بجٹ میں عوام پر مزید مالی بوجھ میں اضافہ کرنے کی خاطر ریونیو فیسوں میں ہوشربا اضافہ اس امر کا غماز ہے حکومت اپنے اخراجات کم کرنے کی بجائے غریب عوام پر زیادہ سے زیادہ مالی بوجھ ڈالنے کی طرف گامزن ہے۔ ملک کے عوام جو دو جماعتوں سے پہلے ہی مایوس تھے پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر کرنے کے بعد عوام کا مستقبل انہی دو جماعتوں کے حوالے کرنے سے کیا ملک کے مسائل حل ہو جائیں گے؟، حقیقت تو یہ ہے ملک کو اس حال میں پہنچانے میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا اہم رول ہے ۔ اگرچہ مسلم لیگ نون کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہا ہے اس نے ملک میں تمام جماعتوں سے زیادہ ترقیاتی کام کرائے ہیں اس کے برعکس حقیقت تو یہ ہے ملک کا سرمایہ باہر لے جانے میں بھی اس جماعت کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ نے تو کہہ دیا ہے اب پی ڈی ایم کی ضرورت نہیں ہے جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے اب کھیل سب کا اپنا اپنا ہے۔ ملک کے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں جن جن سیاست دانوں نے ملک وقوم کا سرمایہ باہر منتقل کیا اور بڑی بڑی جائیدادیں بنائیں عوام کا مستقبل انہی جماعتوں کے حوالے کیا جائے گا یا پھر کوئی تبدیلی آئے گی؟، پاکستان دنیا کا شائد واحد ملک ہے جہاں قومی دولت لوٹنے والوں سے بازپرس نہیں ہوتی بلکہ انہیں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ اور ماتحت عدالتوں سی ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آتی۔ سیاست دانوں نے ملک کو عجیب تماشا بنا دیا ہے ہر سیاست دان نے اپنے اثاثوں میں اضافے کی ٹھان رکھی ہے عوام کو لولی پاپ دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم کپڑے بیچ کر آٹا سستا فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا جو اعلان تک محدود رہا۔ بدقسمی سے سیاست دانوں میں سچ بولنے کی عادت نہیں۔ ڈالر کی قیمت کم ہو یا زیادہ تاجر برادری روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کرنے کو تیار نہیں کیا جمہوریت اسی کو کہتے ہیں؟۔







