ColumnRoshan Lal

کشمیر، آرٹیکل 370اور بھارتی سپریم کورٹ

کشمیر، آرٹیکل 370اور بھارتی سپریم کورٹ

روشن لعل
پاکستان میں حکومت چاہے ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے والے سیاستدانوں نے کی ہو یا کسی فوجی آمر کی ،یہاں ہر حکمران مسئلہ کشمیر پر اپنا موقف پیش کرتے ہوئے ایک دوسرے کا ہمنوا نظر آتا ہے۔ کشمیر کی آزادی کے لیے پاکستانی حکمران ،گوکہ بہت بلند بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں مگر اس طرح کے دعووں کے باوجود کشمیریوں کی حالت یہ ہے کہ نہ تو پاکستان کے زیر انتظام آزاد سمجھے جانے والے کشمیر ی عوام کے مطلق آزاد ہونے کا کبھی احساس ہو ا ور نہ ہی بھارتی کنٹرول میں موجود کشمیر کے لوگوں کو کبھی مطلوبہ آزادی کے قریب سمجھا ۔ گزشتہ 75 برسوں میں اگر آزاد کشمیر کے کشمیریوں کی ادھوری آزادی جمود کا شکار ہے تو مقبوضہ کہے جانے والے کشمیر کے عوام بھی شہیدوں کے قبرستانوں میں اضافہ کرتے اور آ زادی کے خواب دیکھتے ہوئے وہ شکستہ خود مختاری بھی گنوا بیٹھے ہیں جو انہیں بھارتی آئین کے متروک کیے ہوئے آرٹیکل 370کے تحت مجبوراً دی گئی تھی۔
یاد رہے کہ کشمیر کا علاقہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ ہونے کے بعد آرٹیکل 370کو بھارتی آئین کا حصہ بنایا گیا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر قبضہ کی لیے لڑی جانے والی جنگ میں فائربندی کے بعد پاکستان نے اپنے زیر قبضہ کشمیر کے علاقہ کو آزاد کشمیر کا نام دے کر وہاں الگ پرچم اور الگ قومی ترانہ کے ساتھ الگ حکومت قائم کی ۔ اسی طرح بھارت نے بھی نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان طے پانے والے ’’ معاہدہ دہلی‘‘ کی تحت اپنے زیر انتظام کشمیر کو آئین کے آرٹیکل370کے تحت ایسے صوبے کا درجہ دیا جس کے ریاستی سربراہ کو دیگر صوبوں کے برعکس گورنر کی بجائے صدر اور حکومتی سربراہ کو وزیر اعلیٰ کی بجائے وزیر اعظم کہا گیا۔ اسی طرح کئی معاملات میں ریاست کشمیر کی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف اسے علیحدہ جھنڈا رکھنے بلکہ اپنا الگ آئین بنانے کا اختیار بھی دیا گیا۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت اس ریاست کی منتخب اسمبلی کو یہ حق بھی دیا گیا کہ جہاں بھارت کی لوک سبھا اور راجیہ سبھا اپنے ملک کے آئین کے کسی بھی حصہ کو دو تہائی اکثریت سے تبدیل یا ختم کر سکتی ہے وہاں کشمیر کو دیئے گئے خصوصی اختیار کی وجہ سے ریاستی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت سے منظوری کے بغیر نہ تو آرٹیکل370میں کوئی تبدیلی کی جاسکے گی اور ہی اسے ختم کیا جاسکے گا۔
بھارت نے اپنے زیر قبضہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ، پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ تسلیم کرتے ہوئے آئینی طور پر خصوصی حیثیت دی تھی۔ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر جیسے جیسے سرد خانے میں جاتا گیا ویسے ویسے بھارت کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت اور اختیارات سے دستبردار ہوتا گیا۔ نہرو، عبداللہ معاہدے کے تحت 1952میں شیخ عبداللہ کو کشمیر کا وزیر اعظم بنایا گیا مگر 1953میں ان کے لیے دہلی کی پالیسیاں تبدیل ہونا شروع گئیں۔ بھارت نے شیخ عبداللہ کے ساتھ جو وعدے اور معاہدے کیے ، حالات تبدیل ہونے کے ساتھ ان سے پیچھے ہٹنا شروع کردیا۔ پنڈت نہرو کے دور حکومت میں ہی بھارت نے کشمیریوں کی آزادی و خود مختاری کے خواب چکنا چور کرتے ہوئے نہ صرف شیخ عبداللہ کو غداری کے بے بنیاد مقدمہ میں گرفتار کیا بلکہ سازش کے تحت نیشنل کانفرنس میں بخشی غلام محمد اور غلام محمد صادق جیسے ان لوگوں کو ابھارا جنہیں کشمیری عوام کے حقوق ، خود مختاری اور آزادی کی بجائے اپنا ذاتی اقتدار زیادہ عزیز تھا۔ یہ روایت بعد ازاں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اتنی مضبوط ہوئی کہ جب دوبارہ شیخ عبداللہ، ان کی اولاد ، مفتی سعید اور محبوبہ مفتی کو اقتدار ملا تو یہ سب بھی بخشی غلام محمد اور غلام محمد صادق جیسے لوگوں کے رنگ میں رنگے ہوئے نظر آئے۔ یوں جس بھارت نے 1952میں ریاست کشمیر کی علیحدہ آئین ساز حیثیت ، الگ جھنڈے، اپنا صدر بنانے اور خود مختار وزیر اعظم منتخب کرنے کے حق کو تسلیم کیا تھا اس نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کو دیئے گئے آئینی حقوق سے دستبردار ہونا شروع کر دیا۔ کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت اور خصوصی حقوق سے دستبرداری کے تسلسل میں وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019میں بھارتی آئین سے آرٹیکل 370اور 35اے کو اس طرح ختم کیا کہ وہ کشمیر جسے بھارت کی آزادی کے فوراً بعد دیگر صوبوں کی نسبت خاص حقوق اور اختیار دیئے گئے تھے اسے عام صوبہ بھی نہ رہنے دیا گیا اور وفاق کے مرہون منت علاقہ ( یونین ٹیریٹری ) بنا کر رکھ دیا۔
جب نریندر مودی نے 2019میں آئین کے آرٹیکل 370کو ختم کیا اس وقت پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت تھی۔ بھارتی آئین سے آرٹیکل 370ختم ہونے پر پاکستان میں رسمی طور پر شور تو مچایا ہی گیا مگر اس شور سے قبل یہاں یہ تماشا ہوچکا تھا کہ جب اگست 2019میں نریندر مودی اپنے آئین سے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370کو ختم کرنے کی تیاریاں کر رہا تھے اس وقت عمران خان جولائی 2019میں امریکی دورے سے واپسی پر پاکستان میں یہ بیانات دے رہے تھے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے انہیں خاص طور پر بتایا ہے کہ مودی مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے تیار ہو چکا ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان جو قبل ازیں مسئلہ کشمیر حل ہونے کا اعلان کر رہے تھے انہوں نے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370ختم کیے جانے کے بعد صرف یہ کیا کہ سکولوں میں بروز جمعہ ،کشمیریوں کے لیے خصوصی دعائوں کا انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا نقشہ جاری کیا جس میں کشمیر کے تمام علاقوں کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ پاکستان میں تو عمران حکومت نے اسی کام پر اکتفا کیا مگر بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے نہ صرف نریندر مودی کے آئین سے آرٹیکل 370کے خاتمے کے لیے اختیار کیے گئے طریقہ کار کو غیر آئینی قرار دیا بلکہ لوک سبھا کے اندر اور باہر احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ مودی حکومت کے آرٹیکل 370ختم کرنے کے عمل کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کر دیا۔ بھارتی آئین سے آرٹیکل 370کے خاتمے کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ نے تین سال تک کوئی کاروائی نہیں کی مگر اب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ بھارت کی عدالت عظمیٰ دو اگست سے روزانہ کی بنیاد پر ان درخواستوں کو زیر سماعت لائے گی۔
آرٹیکل 370کے خاتمے کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہو سکتا ہے ابھی تک اس بارے میں کوئی پیش گوئی سامنے نہیں آئی مگر نریندر مودی کے حوالے سے نومبر 2021میں بھارتی میڈیا سے یہ خبر نشر ہوئی تھی کہ وہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370کو پھر سے آئین میں بحال کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ مودی اگر اپنے ہاتھوں سے ختم کیے گئے آرٹیکل 370کو خود ہی آئین میں بحال کرتے تو انہیں بہت زیادہ سیاسی نقصان ہوتا لیکن بھارتی سپریم کورٹ کے ایسا کرنے سے انہیں سیاسی نقصان ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ اب دیکھتے ہیں کہ بھارتی سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button