ColumnTajamul Hussain Hashmi

بیانیہ میں چھپا انتشار

تجمل حسین ہاشمی
سیاست سوچ بچار اور مسائل کے حل کا نام تھا، سیاست کو اصول پسندی اور خدمات کا درجہ دیا جاتا تھا، اب لیڈر وعدہ کرتے ہیں، پھر ڈھٹائی سے مکر جاتے ہیں، اس جھوٹ کو سیاسی نعرہ کہ کر مسکرا دیتے ہیں۔ سیاست بگڑتے حالات کو سدھارنے کی ایک تدبیر ہوتی ہے۔ اب قرضہ حاصل کر کے ملک بچانے کا کام ہے۔ اہل وطن کے لیے تعزیر کا درجہ اختیار کر گئی، سیاسی جماعتوں کا بیانیہ کی آڑ میں عوام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا طریقہ کار کوئی نیا نہیں ہے، لیکن دور حاضر میں بیانیہ کی تبدیلی عام ہو چکی ہے، قیام پاکستان کے فورا بعد ملک میں انتظامی امور اور اداروں کی تعمیر و ترقی کیلئے تعلیم یافتہ اور ٹیکنیکل افرادی قوت اور پیسوں کی اشد ضرورت تھی، ملک کو آئین کی ضرورت تھی، قائد اعظمؒ کے انتقال کے بعد محترمہ فاطمہ جناحؒ کو بھی ایسے جھوٹے بیانیہ کا سامنا رہا جو ابھی تک بد نما داغ ہے، سیاسی بیانیہ سے سیاسی جماعتیں اور آمریت والے وقتی مقاصد تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن معاشرتی قدریں ختم ہو جاتی ہیں، بیانیہ سے سیاسی جماعتیں نے عروج پایا لیکن بیانیہ کے نتائج موت اور جلا وطنی تک لے گے، بیرونی دشمن کیسے ریاست کو کمزور کرتے ہیں، اس حوالہ سے علامہ اقبالؒ نے اپنے اشعاروں میں مغربی دنیا کی سوچ کی عکاسی کی ہے ، امریکی مورخ سٹیلے وولپرٹ اپنی کتاب ’ جناح آف پاکستان‘ کی ابتدا ان الفاظ سے کی ہے ، بہت کم شخصیات تاریخ کے دھارے کو قابل ذکر انداز سے موڑتی ہیں، اس سے کم وہ افراد ہیں جو دنیا کا نقشہ بدلتے ہیں، ایسا شاید ہی کوئی ہو جسے ایک قومی ریاست تخلیق کرنے کا اعزاز حاصل ہو، یہ بالکل واضح ہے کہ لیڈر کا نظریہ ہی قوم کو سرخرو کرتا ہے ، محترم جناحؒ کے نظریے نے الگ ریاست ’ پاکستان ‘ کی بنیاد رکھی۔ آزاد ریاست مسلمانوں کا خواب تھا جو پورا ہوا ، لیکن سیاسی لیڈروں، مذہبی مولویوں اور آمریت والوں نے ذاتی مفادات اور بیانیہ کو پروان چڑھانے کے لیے لوگوں میں یگانگت اور اجتماعیت کو ختم کر دیا ہے، اسلام انفرادی نہیں اجتماعی بات کرتا ہے۔ کسی بڑی مصروف شاہراہ یا بازار میں کھڑے ہو کر پاکستان کے عوام کو چور، کرپٹ، ڈاکو کہنا شروع کر دیں، لوگ آپ کو ایک نظر دیکھیں گے اور اپنی منزل کی طرف چل پڑیں گے۔ کوئی آپ کی بات پر کان نہیں دھرے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک دو لوگ ہم آواز ہو جائیں، اب اگر اس جملے کو تھوڑا تبدیل کریں تو کسی کی مادری زبان والوں کو چور، کرپٹ کہیں گے تو یقینا لوگ آپ کو مارنے کے لیے دوڑیں گے، جیسے گزشتہ دنوں حافظ نعیم نے اوطاق کے الفاظ استعمال کیا تو سوشل میڈیا، میڈیا اور سیاسی جماعت کی طرف سے حافظ نعیم الرحمان کے خلاف بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا، یہی حال فرقوں کا ہے، یعنی کسی شخص کو ملک یا مذہب سے کوئی حب نہیں ہے، اپنی ذات، فرقے ، رشتہ دار کے ساتھ منسلک ہے، قومی تشخص سے کیا مراد ہے، کسی کو کوئی علم نہیں ہے، قومی تشخص کو پروان چڑھانے کے حوالے سے کسی سیاسی جماعت کا کوئی کردار نہیں۔ انفرادیت کو کم کرنے کے حوالے سے حکومت کی طرف سے کوئی کوشش نہیں گی، مجھے دسمبر یاد آ گیا جب استانی نے سکول کے بچوں کو تنہا چھوڑنے سے انکار کیا تو ظالموں نے بچوں کے سامنے زندہ جلا دیا۔ پرنسپل اپنی جان بچانے کے بجائے بچوں پر قربان ہو گی، ایسی وفا نئی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ صوبائی حکومتوں اپنے مفاد اور بیانیہ کو پروموٹ کر رہی ہیں۔ ملکی تشخص اور بھائی چارے کا کہیں درس نظر نہیں آ رہا ، حقیقت میں پروموٹ کے حقدار تو وہ ہیرو ہیں جو اپنے وطن کی سلامتی کے لیے شہید ہو جاتے ہیں۔ یہ جھوٹے بیانے عام افراد میں نفرت اور انفرادی سوچ کا سبب ہیں ، لوٹ مار کی ہوا چلی ہوئی ہے۔ مغربی طاقتیں لمبی پلاننگ کے ساتھ ہماری قومی یکجہتی اور قومی تشخص کو مجروح کر رہی ہیں، اداروں سے متعلق منفی سوچ کو جنم دیا گیا کہ اعلیٰ ادارے ہمارے ٹیکس سے چلتے ہیں، ایسے ہزاروں بیانے قوم یکجہتی کو کمزور کر رہے ہیں، یہ تو ایک بیانیہ کی طرف اشارہ دیا ہے، ایسے کئی بیانیے سیاست میں استعمال کئے جا رہے ہیں۔ اثر و رسوخ سیاسی جماعتوں کی طرف سے دیکھا گیا ہے، جو جلسوں میں نعرے لگا کر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے چکر میں تفریق کا سبب بن رہا ہے، قومی یکجہتی، قومی تشخص کو اجاگر نہیں کمزور کر رہا ہے، لوگوں کا تعلیم سے دوری، کم علمی سے ایسے بیانیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جذبات کو نفرت میں بدل لیتے ہیں۔ معاشی سرکل کی سمجھ رکھنے والے افراد ایسی سوچ اور بیانیہ کو بہتر نہیں سمجھتے ہیں۔ پرائیویٹ افراد سے زیادہ سرکاری ملازم ٹیکس دے رہا ہوتا ہے، سرکاری ملازم جو تنخواہ گھر لاتا ہے تو وہ گھریلو ضروریات کی خریداری کی مد میں بھی ٹیکس دیتا ہے، یہی معاشی سرکل ہے جس میں ہر فرد کی ضروریات دوسرے سے جوڑی ہوئی ہیں، معاشی نظام میں ہر فرد ٹیکس دیتا ہے، 500 خاندانوں کی دولت میں اضافہ حکومتی پالیسیوں کی ناکامی کا سبب ہے، جھوٹے بیانیے نظام کو کمزور کر رہے ہیں اور طاقتور کو مزید طاقتور بنا رہے ہیں، یہاں اہل علم خاموش ہو جائیں، جہاں سمجھ رکھنے کے بعد بھی ناسمجھی اختیار کر لی جائے، زبان سے خدمات کا اقرار اور عملا کچھ دکھائی نہ دے، بنیاد کلمہ ہو اور نظام سودی ہو تو پھر سوچ ، بیانات اور عوامی خدمات خوب بن جاتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button