ممکنہ عہدے اور امکانات

ممکنہ عہدے اور امکانات
محمد مبشر انوار( ریاض)
پاکستانی سیاست کے متعلق کچھ بھی یقینی طور پر کہنا کبھی بھی آسان نہیں رہا کہ یہاں معاملات کو آئین و قانون کے بجائے خواہشات اور انائوں کی بنیاد پر چلتے دیکھا ہے۔ قانون کچھ کہتا ہے اور ایک قانون پسند شہری کے مطابق یہ گمان ہوتا ہے کہ معاملات اس قانون کے تحت یوں بروئے کار آ سکتے ہیں لیکن الامان الحفیظ، قانون کی دھجیاں یوں اڑائی جاتی ہیں کہ حیرت کا اظہار بھی ممکن نہیں رہتا وگرنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل ہو، آئین ان پر 90 دن میں انتخابات کی ضمانت دے، عبوری حکومتیں 90 دن سے ایک دن زیادہ غیر آئینی و غیرقانونی ہوں، لیکن ان سب حقائق کے باوجود نہ صرف پوری قوم بلکہ ساری دنیا نے دیکھا کہ ارباب اختیار کے دست شفقت سے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ یہ غیرآئینی و قانونی فریضہ ہنوز جاری ہے۔ بڑے بڑے آئینی و قانونی ماہرین نے ببانگ دہل کہا کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ حتمی ہے اور کسی میں جرات نہیں کہ اس فیصلے کی خلاف ورزی کر سکے، تاہم عدالت عظمیٰ کے 14مئی کے فیصلے کی دھجیاں معاشرے میں بکھیری جاچکی اور عوام الناس کو یہ باور کرایا جا چکا کہ بااختیار ہوتے ہوئے، عدالت عظمیٰ کی حکم عدولی کی جاسکتی ہے اور اپنے عہدوں پر قائم بھی رہا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں! یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ اس ملک میں رہنا ہو تو پھر بنیادی انسانی حقوق، عدل و انصاف، آئین و قانون کی گردان نہیں کی جاسکتی کہ پاکستان میں آئین و قانون، عدل و انصاف وہی ہے جو طاقتور حکمرانوں کی منشا ہوگی، اس کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو بآسانی روندا جاسکتا ہے۔ لہٰذا! غریب قوم کو یہ انتباہ ہوکہ وہ صرف غریب قوم نہیں بلکہ محکوم و غلام ’’ریوڑ‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں، جس کا کام صرف اور صرف مراعات یافتہ طبقہ کیلئے اپنی ہڈیوں کا گودا تک نچھاور کرنا ہے، جو محکوموں، غلاموں کا وتیرہ رہا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ عدالت عظمیٰ بھی حکم عدولی پر ابھی تک خاموش ہے جبکہ اس ضمن میں سوشل میڈیا پر بھارتی سابق چیف جسٹس کا پروگرام دیکھا تھا، جس میں انہوں نے واضح طور پر پاکستان کے معزز چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال کو مشورہ دیا تھا کہ اگر عدالت عظمیٰ اپنے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرا سکتی تو عدالتوں کو تالے لگا دینے چاہئیں۔ درحقیقت اس کا مطلب اتنا ہی ہے کہ مہذب معاشروں میں، جہاں آئین و قانون کی بالادستی ہو، وہاں کسی بھی شخص، گروہ یا کسی مافیا کو اتنی جرات ہی نہیں ہوتی کہ وہ عدالت کے احکامات کی عدولی کر سکے، حکومت عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کی پابند ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمران بذات خود مقدمات میں لتھڑے ہوئے ہیں اور عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد سے ان کی حکومتیں لرزتی ہیں یا ان کو کہیں نہ کہیں سے معزز جج صاحبان کی غلیظ ویڈیوز مل جاتی ہیں یا پرانے احسانات کے بوجھ تلے دبے میسر ہوتے ہیں، لہٰذا راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔
آئینی طور پر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کی مدت اگست میں پوری ہونے جارہی ہے اور عام انتخابات اکتوبر/ نومبر میں متوقع ہیں، ان انتخابات میں کیا ہوگا، کون جیتے گا، کون ہارے گا، کون حکومت بنائے گا، یہ سب اسی صورت میں ہو گا اگر انتخابات اپنے وقت پر ہو جاتے ہیں، جن کے متعلق اس وقت حتمی طورپر کچھ بھی کہنا ممکن نہیں۔ مالی حالات کو مدنظر رکھیں تو آئی ایم ایف سے معاہدے اور قرض کے بعد یہ جواز تو ختم ہوتا نظر آتا ہے کہ حکومت کے پاس فنڈز نہیں، اس لئے انتخابات ملتوی کر دیئے جائیں جبکہ دوسری طرف حکومت نے قانون سازی کرکے انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں دیدیا ہے، اس عمل کو بے ڈھنگا ہی کہا جاسکتا ہے کہ گزشتہ موقع پر الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی تاریخ عدالت سے دائرہ کار سے متجاوز ٹھہرائی گئی تھی، لہٰذا الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار تفویض کرکے ایک قانونی رکاوٹ دور کی گئی ہے۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ کہ الیکشن کمیشن قبل از انتخابات اپنا ہوم ورک مکمل رکھتا ہے یا حیلے بہانوں سے حکمرانوں کے منشا کے مطابق اس میں تاخیر کرتا ہے، بہرکیف اس کے باوجود انتخابات کے انعقاد کیلئے دیگر وسائل بہرطور حکومت نے ہی مہیا کرنے ہیں، ایسا نہیں کہ انتخابی عمل کا اعلان ہوتے ہی تمام ادارے ازخود الیکشن کمیشن کے زیر اثر آ جائیں اور الیکشن کمیشن آزادانہ صاف و شفاف منصفانہ انتخابات کرا دے، ویسے خواہش یہی ہے کہ کبھی الیکشن کمیشن اتنا آزاد اور بااختیار ہو جائے کہ ایسے انتخابات کا انعقاد کرا دے۔
بہرکیف یہ تو خواب ہے جو کم از کم ہماری زندگی میں شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا کہ ’’سٹیٹس کو‘‘ کی قوتوں نے پورے نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے اور اس میں ایسی توقع کرنا عبث ہے۔ دوسری طرف ستمبر ایک بار پھر ستم گر بنتا نظر آ رہا ہے کہ اس مہینے میں نہ صرف صدر مملکت اپنی مدت پوری کر رہے ہیں اور یہ عہدہ جلیلہ فارغ ہورہا ہے بلکہ اس کیلئے کئی ایک امیدوار بھی سامنے نظر آ رہے ہیں، جن میں سب سے زیادہ خواہشمند فضل الرحمان ہیں کہ رجیم چینج آپریشن میں ان کا بہرطور ایک واضح کردار رہا ہے۔ اس واضح کردار کے باوجود انہیں خواہش سے کم نصیب ہوا ہے جبکہ ان اولین خواہش اب یہی ہے کہ کسی طرح وہ منصب صدارت پر براجمان ہو جائیں جبکہ صدارتی منصب کیلئے دوسرے اہم ترین امیدوار زرداری بھی ہیں کہ وہ اس عہدہ جلیلہ کی برکات سے بخوبی واقف ہیں اور اس سے مستفید ہو چکے ہیں۔ فضل الرحمان کو کسی زمانے میں نیب نے طلب کیا تھا جس کا نیب کو ایسا جواب ملا تھا کہ آج تک دوبارہ طلبی نہیں کی گئی اور اگر منصب صدارت پر براجمان ہو جائیں تو یقینی طور پر اگلے پانچ سال سکون سے گزر سکتے ہیں، کسی ادارے کی جرات نہیں ہوگی کہ انہیں طلب کرے، جو آج بھی نہیں ہے۔ دونوں سیاستدان اپنے طور پر دائو پیچ کھیل رہے ہیں کہ کسی طرح باقی احباب کو راضی کرکے منصب صدارت پر براجمان ہوا جاسکے لیکن ہنوز یہ واضح نہیں کہ صدر کی انتخابات کس طرح ممکن ہوں گے کہ اس کا حلقہ انتخاب ہی پورا نہیں۔ البتہ موجودہ صدر کو گھر بھیجنے کیلئے سب متفق ہیں اور اس کیلئے آئین کیا کہتا ہے، اس پر بھی قانون دانوں کی متضاد آراء ہیں، جس کی حکومت کو چنداں کوئی پرواہ نہیں۔ کچھ آئینی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں صدر عارف علوی کی بطور صدر خدمات کو طول دیا جاسکتا ہے جبکہ کچھ ماہرین کے خیال میں یہ غیرآئینی تصور ہوگا اور نئے صدر کے انتخاب تک چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر کے طور پر اس منصب پر سرفراز ہو جائیں گے۔ عجیب گورکھ دھندا ہے کہ مسلمہ اصولوں پر چلنے کے بجائے نت نئی اختراعات متعارف کرائی جارہی ہیں جبکہ دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہورہی ہے، عدالتیں آئین کی تشریح کر بھی دیں تو حکومت اس پر عمل درآمد سے انکاری ہے۔
حد تو یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے اندر بھی تقسیم انتہائی واضح نظر آتی ہے کہ متوقع چیف جسٹس آف پاکستان کا اپنا نقطہ نظر ہے، جس پر وہ کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں، اصولا اگر ان کا مؤقف درست ہے تو اس پر سمجھوتہ کرنا بھی نہیں چاہئے لیکن کیا انہیں نظام سے استثنیٰ حاصل ہے؟ اس کا جواب بھی ایک درخواست کی صورت سامنے آچکا ہے کہ عدالت عظمیٰ میں متوقع چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف توہین عدالت کی ایک درخواست دائر کی جاچکی ہے جس میں فوجی عدالتوں کے قیام پر ان کا بنچ سے الگ ہونا، توہین عدالت کے زمرے میں ٹھہرایا گیا ہے اور عدالت سے اس پر کارروائی کی درخواست کی گئی ہے۔ اب یہ درخواست ’’کس‘‘ جانب سے آئی ہے، اس کا عقدہ بھی جلد کھل جائیگا تاہم اس طرح کی چپقلش بہرصورت پاکستانی مفادات کے حق میں قطعی نہیں ہے اور بظاہر اس درخواست کے مقاصد بھی عیاں ہیں کہ یا تو اس پر سزا دلوا کر متوقع چیف جسٹس کے عہدے سے فارغ کیا جائے یا پھر انہیں سمجھوتے پر مجبور کیا جائے۔ میری نظر میں ممکنہ عہدوں کیلئے یہی امکانات ہیں، پردہ غیب سے کیا برآمد ہوتا ہے، وہ عالم الغیب ہی جانتا ہے۔







