پنجاب ، سرکاری ملازمین کالاہور میں دھرنا

پنجاب ، سرکاری ملازمین کالاہور میں دھرنا
یاور عباس
ایک بار پھر پنجاب بھر کے سرکاری ملازمین سول سیکرٹریٹ لاہور کے باہر تنخواہوں اور پنشن میں نامناسب اضافے کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، محکمہ تعلیم، محکمہ صحت، محکمہ بلدیات اور دیگر بے شمار اداروں کے سرکاری ملازمین نے دفاتر کی تالہ بندی کر رکھی ہے اور مرد، خواتین ، بچوں اور بوڑھوں کی بڑی تعداد نے لاہور میں ڈیرے ڈال لیے ہیں اور مطالبات تسلیم نہ ہونے تک دھرنا دے رکھا ہے۔ پاکستان میں آئے روز احتجاج شاید معمول بن گیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ہمارے ملک کا نام پاکستان نہیں بلکہ احتجاجستان ہے۔ احتجاج جمہوریت کا حسن ہے اور جمہوری معاشروں میں احتجاج کے ذریعے اپنے مطالبات منوانا ایک بہترین نسخہ ہے، دنیا بھر میں احتجاج ہوتے ہیں، ہر ملک ، ہر قوم کے احتجاج کے اپنے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے احتجاج عموماً پرامن ہی ہوتے ہیں زیادہ تر معاملات انتظامیہ کی جانب سے ہی خراب ہوتے ہیں جب مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا جاتا ہے جس کے جواب میں کئی دفعہ جلائو گھیرائو اور پتھرائو کے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سانحہ 9مئی کے احتجاج کا ذکر نہیں کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنی نوعیت کا الگ سانحہ ہے جس پر حکومت، فوج اور چیئرمین پی ٹی آئی اپنا الگ موقف رکھتے ہیں اور معاملات عدالتوں میں ہیں ۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، صوبائی دارالحکومت لاہور اور کراچی میں اکثر احتجاجی دھرنے دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ حکمران بھی عادی ہوگئے ہیں اور وہ ایسے مظاہروں کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ پنجاب کے سرکاری ادارے 2روز سے بند ہیں جس کی وجہ سے سرکاری کام بھی ٹھپ ہے اور لوگوں کے کام بھی رُکے ہوئے ہیں اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ لاہور کی سڑکوں پر موجود ہیں مگر 2روز گزرنے کے باوجود بھی حکومت کے کسی ذمہ دار نے مذاکرات کی کوئی کوشش کی ہے نہ ہی کوئی کمیٹی بنائی ہے اور نہ ہی میڈیا پر کوئی ردعمل دیا ہے لگتا یوں ہی ہے کہ احتجاج سے حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی کی لہر نے جہاں عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے وہی سرکاری ملازم بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے، گزشتہ ایک سال میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اشیائے خوردونوش کی قیمتیں 3گنا تک بڑھ گئیں ہیں مگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز کی پنشن میں اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے دینے کے مترادف ہے۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ تنخواہ سال میں ایک دفعہ بڑھنی ہوتی ہے مگر مہنگائی کا کوئی وقت مقرر نہیں کسی بھی چیز کا ریٹ صبح کچھ اور ہوتا ہے اور شام کو کچھ اور۔ پنجاب بھر کے سرکاری ملازمین کے احتجاج کی بنیادی وجہ یہ بنی ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے ملازمین کو ریلیف پیکیج میں زمین آسمان کا فرق ہے اور تمام یونین لیڈرز کا کہنا ہے کہ ایک ملک میں دو قانون الگ الگ نہیں ہونے چاہیے پنجاب کے ملازمین اور پنشنرز کو بھی وفاق کے مطابق بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ سب سے زیادہ متاثر پنشنرز ہوئے ہیں جن کو صرف پانچ فی صد اضافہ کیا گیا ہے ۔ پنجاب حکومت کا ایک کارنامہ یقینا قابل ستائش ہے کہ ریٹائرمنٹ سے پنشن کے دورانیہ میں ملازمین کو کچھ بھی نہیں ملتا تھا اور کوئی ایک سے ڈیڑھ سال یونہی وہ ریٹائرمنٹ اور پنشن کے حصول کے لیے مختلف برانچز کے دھکے کھاتے رہتے تھے اب انہیں تنخواہ کا 65فیصد پنشن لگنے تک ملتا رہے گا۔ یقینا یہ بہت بڑا ریلیف ہے ۔ مگر پنجاب حکومت جو صرف 4ماہ کے لیے بجٹ بنا رہی تھی اگر وہ اپنے بجٹ میں وفاق کے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کر دیتے تو آج ملازمین کو لاہور کی سڑکوں پر شدید گرمی کے موسم میں دما دم مست قلندر نہ کرنا پڑتا ۔
سرکاری ملازمین کا نگران حکومت کے سامنے مطالبات رکھنا اور ان سے مطالبات کے تسلیم ہونے کی توقع رکھنا دن میں خواب دیکھنے کے مترادف ہی ہوسکتا ہے کیونکہ آئین کے مطابق نگران حکومت کے پاس اختیارات انتہائی محدود ہوتے ہیں ، دوسرے نمبر پر یہ لوگ غیر سیاسی ہوتے ہیں انہیں الیکشن ہارنے کی فکر نہیں ہوتی لیکن یہاں چونکہ اب ساری گنگا ہی اُلٹی بہہ رہی ہے، نگران حکومت اپنی آئینی مدت سے تجاوز کر چکی ہے، الیکشن وقت پر نہیں ہوسکے ، نگران حکومت غیر معمولی انتظامی سرگرمیاں کر رہی ہے ، سیاسی پریس کانفرنسز ہورہی ہیں ، ترقیاتی بجٹ جاری ہورہے ہیں تو ملازمین کو بھی موقع مل گیا کہ جہاں نگران حکومت باقی منتخب لوگوں کی طرح کام کر رہی ہے تو ہمارے مطالبات بھی تسلیم ہو ہی جائیں گے۔ مہنگائی کے خاتمہ کے لیے مہنگائی مکائو مارچ کرنے والی سبھی لیڈر آج حکومت میں ہیں مگر انہیں مہنگائی سے متاثرہ ملازمین کی چیخیں شاید سنائی نہیں دے رہی ، وہی سیاسی جماعتیں اب مہنگائی مارچ نہیں کر سکتی تو کم از کم مہنگائی سے پسے ہوئے سرکاری ملازمین سے ہمدردی کرنے ہی لاہور کی سڑکوں پر آجائیں مگر شاید اس طبقہ کو مہنگائی سے کوئی مسئلہ نہیں تھا صرف حصول اقتدار کی جنگ تھی جس میں عوامی ہمدردی سمیٹنے کے لیے مہنگائی کا نعرہ لگایا گیا حقیقی لیڈر ہمیشہ مظلوم عوام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ، مطالبات تسلیم ہوں یا نہ ہوں اساتذہ سمیت تمام سرکاری اداروں کے ملازمین کو حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوںنے کم از کم احتجاج کی اجازت تو دے دی ہے آپ کو ورنہ ماضی میں ہم نے نابینا اور معذور لوگوں پر بھی لاٹھی چارج ہوتے دیکھا ہے۔ لاہور میں تمام سرکاری اداروں کے ملازمین کا مثالی اتحاد دیکھ کر بھی خوشی ہوئی اور اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تمام یونینز کے مشترکہ لیڈران اگر چاہے تو پنجاب بھر سے رشوت خوری ، کام چوری کا خاتمہ بھی کر سکتے ہیں کیونکہ سبھی ورکرز ان کی ایک کال پر احتجاج میں آچکے ہیں ماہانہ اخراجات پورے نہ ہونے پر بہت سارے یہی کلرک صاحبان رشوت لینے پر مجبور ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ یہ ان کی عادت بن جاتی ہے ، حکومت کو بھی چاہیے کہ اشرافیہ کی مراعات بند کر تمام سہولتیں چھوٹے طبقہ کو دے دے تاکہ یہ کرپشن سے پاک پاکستان قوم کو دے سکیں ۔ حکومت کو مزید امتحان نہیں لینا چاہیے فوری طور پر مذاکرات کر کے حل نکالنا ہوگا۔







