Column

خواتین کو پھنٹی لگانے کا قانون

خواتین کو پھنٹی لگانے کا قانون

سیدہ عنبرین
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ان ممالک میں ہر روز میں زیادہ ہوئیں جو مہذب اور ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔ امریکہ میں عرصہ دراز تک انسانوں کو غلام رکھنے اور ان غلاموں کو فروخت کرنے کیلئے منڈیاں لگتی تھیں۔ تقسیم ہند سے ذرا پہلے جب یہاں برطانوی راج مسلط تھا تو ایسے ایسے دل دہلا دینے والے واقعات منظر عام پر آئے کہ عقل انسانی حیران رہ گئی۔ ذرائع آمدورفت محدود تھے، ہر گورا صاحب کو اپنے استعمال کیلئے کار تو بہت دور کی بات گھوڑا گدھا بھی میسر نہ تھا، اس زمانے میں انگریز سرکاری افسر مقامی افراد کی پشت پر سوار ہو کر دور دراز علاقوں میں جایا کرتے تھے، کچھ تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انگریز افسر ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھا ہے، اس کرسی کو ایک مقامی مزدور نے اس طرح اٹھا رکھا ہے جیسے آج کل بچے اپنا سکول بیگ اپنی کمر پر لادتے ہیں۔ مزدور انگریز افسر کو راولپنڈی سے اپنے پشت پر بٹھاتا اس کی منزل مری ہوتی، موسم سرد ہوتا یا گرم افسر کے جسم پر اس کی مناسبت سے کوٹ پینٹ جبکہ مزدور کے جسم پر صرف گھسے پھٹے کپڑے کی ایک دھوتی ہوا کرتی تھی۔ افسر کے پائوں میں چمڑے کا اعلیٰ درجے کا جوتا جبکہ مزدور برہنہ پا ہوتا تھا۔ اندازہ فرمائیے آج کے ترقی یافتہ دور میں بہترین اور تیز رفتار گاڑیاں موجود ہیں، راستے کشادہ اور ہموار ہو چکے ہیں، پھر بھی یہ سفر کئی گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ ذرا تصور کیجئے اس وقت کا جب راستے ناہموار تھے اور کبھی بلندی تو کبھی تنگ سی پگڈنڈی، پھر کمر پر بھاری بھر کم انسان کے بوجھ کے علاوہ اس کا ذاتی سامان بھی رکھا ہوتا تھا۔ راولپنڈی سے صاحب بہادر کو کمر پر لادنے کیلئے علی الصبح اس کے دروازے پر حاضری دینا لازم تھی۔
تمام دن قدم بہ قدم چلنے کے بعد کبھی شام گئے، کبھی رات کے کسی پہر یہ سفر تمام ہوتا، راستے میں صاحب بہادر کی ضروریات کے پیش نظر کہیں سفر میں وقفہ آتا، صاحب بہادر اپنے لنچ باکس سے سینڈوچ اور تھرماس سے چائے کا مگ بھر کر کسی اونچے سے پتھر پر بیٹھ جاتے اور لنچ کے ساتھ ساتھ گرد و پیش سے بھی لطف اندوز ہوتے، اس اثنا میں مزدور اپنی پوٹلی سے خشک روٹی اور پیاز نکالتا اور پیٹ کا جہنم بھرتا، کسی قریبی جھرنے سے دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنا کر پانی پیتا اور اپنی اگلی منزل کیلئے تیار ہو جاتا، سفر شروع کرنے سے قبل وہ انگریز افسر کی طرف تشکرانہ نظر ڈالتا جیسے اسے خدا نے پیدا ہی اس انسان نما حیوان کی خدمت کیلئے کیا ہے۔ انگریز افسر کی نظروں میں بھی اس سے ملتا جلتا پیغام ہوتا بلکہ اس کے رویے سے ظاہر ہوتا جیسے وہ کئی انسان کی کمر پر سوار نہیں بلکہ کسی چوپائے کی سواری کر رہا ہے۔ حیوانیت کی انتہا یہ تھی کہ یہ کبھی چابک، کبھی اس کے سر پر تھپڑ بھی رسید کرتا اور اسے تیز چلنے کا حکم دیتا۔
راولپنڈی سے مری پہنچنے پر مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کی مزدوری ادا کر دی جاتی جو ایک روپیہ ہوا کرتی تھی۔ پیدا ہوتے ہی مزدوری کا خواب دیکھنے والا اپنے شباب کو پہنچا تو اس دن خوشی پھولا نہ سماتا جس روز اسے کسی ایسے لاٹ صاحب کو کمر پر لاد کر کسی دور دراز علاقے میں پہنچانا ہوتا۔ آج دنیا بھر میں اپنی تاریخ اور روایات کا امین ہونے کے لحاظ سے فخر کرنے والا انگریز اس بات پر فخر کرتا ہے کہ اس کے زمانہ عروج میں برطانوی سلطنت میں سورج غروب نہ ہوتا تھا، اس کی سلطنت یا انگریز کا دیگر ممالک پر قبضہ غاصبانہ ایسا تھا کہ اگر ایک ملک میں سورج غروب ہوتا تو ٹھیک اسی لمحے وہ تاج برطانیہ کے زیر تسلط کسی نہ کسی ملک میں طلوع ہو رہا ہوتا تھا۔
دنیا بھر کو آداب سکھانے والے انگریز نے خواتین سے بھی امتیازی سلوک کیا۔1400ء میں انگریزوں نے ایک قانون پاس کیا جس کے تحت مرد کو اختیار دے دیا گیا کہ اپنی ضرورت کے تحت جب چاہے اپنی بیگم کی پھینٹی لگا سکتا ہے، بیگم کو پھینٹی لگانا جب کلچر کا حصہ بن گیا او اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہو گیا تو کچھ خواتین نے اس پھینٹی پروگرام سے بچنے کیلئے طبقہ امراء کی ان خواتین سے رابطہ کیا جو بغیر قانونی تحفظ کے اپنے شوہروں کی پھینٹی لگایا کرتی تھیں، یہ عورتیں عموماً کم عمر اور ان کے شوہر نسبتاً عمر رسیدہ ہوا کرتے تھے، اس زمانے میں بھی بوڑھے متمول افراد اور نوجوان لڑکیوں کی شادی کا رواج تھا، عورتیں عموماً دولت کے لالچ میں یہ بیاہ رچایا کرتی تھیں۔ جبکہ مردوں میں کم عمر عورتوں سے شادی فیشن اور ماڈرن ہونے کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔ پھینٹی کھانے والی عورتوں نے پھینٹی لگانے والی عورتوں کی مدد سے اس قانون میں ترمیم کرا لی کہ مردوں کا خواتین کو پھینٹی لگانے کا حق تو برقرار رہے گا لیکن پھینٹی لگانے والی سٹک مرد کے انگوٹھے سے زیادہ موٹی نہیں ہو گی۔ اس قانون کے تسلسل کو ہم آج رول آف تھمب کہتے ہیں۔ انگریزوں کی غلام رہنے والی قوم اس لحاظ سے زیادہ باشعور ہے کہ ہمارے یہاں بھی عورتوں کو ان کے خاوندوں کے ہاتھوں پھینٹی لگانے کا رواج بہت پرانا ہے لیکن اسے باقاعدہ قانون کی شکل اور قانونی تحفظ نہیں دیا گیا۔ گزشتہ چار برس میں عورتوں کی مادر پدر آزادی کے بعد اب پاکستان میں بھی خواتین کو پھینٹی لگانے کے مسئلے پر قانونی تحفظ ملنا چاہیے۔ ہم کب تک گنوار اور غیر ترقی یافتہ ہونے کا طعنہ سہتے رہیں گے۔
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب جناب مصطفیٰ کھر اقتدار میں ہوتے تو یہ قانون جلد پاس ہو جاتا لیکن وزیر اعظم شہباز شریف بھی بھلے مانس اور باصلاحیت ہیں، وہ بھی اس سلسلے میں بہت کچھ کر سکتے ہیں، آغاز کار آرمی ایکٹ کے تحت فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے والی ملزم خواتین سے ہونا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button