CM RizwanColumn

سبز انقلاب، اب یہی کمپنی چلے گی

سبز انقلاب، اب یہی کمپنی چلے گی

سی ایم رضوان
ایک طرف پراجیکٹ عمران کا سازوسامان سمیٹ کر نہ صرف علیحدہ رکھ دیا گیا ہے بلکہ اس کی باقیات کو بھی سختی سے ختم کیا جارہا ہے تو دوسری طرف گریٹ ری سیٹ ڈاکٹرائن پر عملدرآمد بھی جاری ہے۔ یہ تو ہوا ماضی کے مزار متروک کرنے کا مرحلہ۔ اب اس سے آگے مستقبل کے پھول بھی تو کھلانا ہیں۔ اس ملک اور اس کی معیشت کو آگے بھی تو بڑھانا ہے۔ بے شک ملکی وسائل اور اس کی استعداد کار کے دائرے میں رہ کر ہی سہی کام میں توسیع اور جدت تو لانا ہوگی۔ اس کے لئے جہاں ایک طرف وفاقی حکومت غوروخوض اور دن رات کام کر رہی ہے وہیں دوسری طرف فوجی قیادت خاص طور پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی خاموش نہیں بیٹھے ہوئے۔ ان کی شخصیت اور ویژن کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ آرمی چیف نے ان سے کہا کہ ملکی زراعت کو وسیع اور جدید بنیادوں پر ترقی دی جائے۔ جس پر وزیراعظم کہتے ہیں کہ میں نے متعلقہ اداروں کو کام پر لگا دیا تو ایک بڑا منصوبہ تجویزی شکل میں وجود میں آ گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ دوست ممالک کے تعاون سے ملکی زراعت کو اس طرح توسیع اور جدت دی جائے کہ ایک طرف ملک کی غیر کاشتہ زرعی زمین زیر کاشت آ جائے تو دوسری طرف یہ زرعی پیداوار اتنی زیادہ ہوکہ پاکستان کے ساتھ ساتھ قریبی اور دوست ممالک کو بھی زرعی اجناس فروخت کر کے سرمایہ حاصل کیا جاسکے۔ پاکستان میں زراعت اور سبز انقلاب یا زرعی انقلاب کا ایک بنیادی ماضی اور کام پہلے سے ہی موجود ہے۔ یہاں زراعت سے منسلک تحقیقی ٹیکنالوجی کی منتقل کی ابتدا 1950ء میں ہوئی تھی جو 1960ء کے آخر تک جاری رہی، جس کی وجہ سے نہ صرف مقامی بلکہ عالمی زرعی پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا، بالخصوص ترقی پذیر دنیا میں اعلیٰ پیداواری اقسام کی دالیں متعارف اور کاشت ہوئیں۔ اس کے ساتھ آبی سہولیات میں نمایاں تبدیلی، مشینوں کا استعمال، کیمیائی کھاد کا استعمال بھی شروع ہوا۔ اس سلسلے میں ایشیا میں فوڈ باسکٹ کے نام سے مشہور پنجاب کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ پنجاب کا مکمل علاقہ جو کہ 5036ہزار ایکڑ (50362مربع کلو میٹر) پر مشتمل ہے۔ اس میں فصلیں اگانے کا علاقہ 2013ئ۔2014ء کے ایک سروے کے مطابق 4145ہزار ایکڑ تھا۔ اس طرح پنجاب کا 82%علاقہ زراعت کے دائرے میں آتا ہے۔ اس پر زراعت شروع کی گئی اور خاصی ترقی بھی ہوئی مگر 1960ء کے بعد حکومتوں اور حکمرانوں کی ترجیحات بدل گئیں اور پاکستان جیسے زرعی ملک کی زراعت تنزلی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ حالانکہ اس کا بیشتر علاقہ یعنی 3703ہزار ایکڑ اب بھی ایک بار سے زائد زراعت کے کام میں آ سکتا ہے۔ خاص طور پر موجودہ سائنسی دور میں تو یہ سونا اگلنے والی دھرتی ہے۔ 1960ء کے بعد اگر 2013ئ۔2014ء کا سروے دیکھا جائے تو اس کے مطابق زرعی زمین 7848ایکڑ بنتی تھی۔ زمین کے تناسب سے پیداوار کی گہرائی 189%فیصد تھی۔ مگر بات وہی کہ ترجیحات کچھ اور ہو گئیں۔ ورنہ سبز انقلاب کی وجہ سے زیادہ آب گیرندہ فصلوں کے لئے کاشتیدہ رقبے میں اضافہ ہوگیا تھا ( دھان کی کاشت کا رقبہ جو 1960۔61میں 227000تھا، 1990۔91میں بڑھ کر 2015000ایکڑ ہو گیا۔ یہ رقبہ 2012۔13میں بڑھ کر 2845000ہو گیا)۔ اس کے لئے کم آب گیرندہ فصلیں جیسے کہ تِلْہن، باجرا، جوار، مکئی اور دالوں کی کاشت کم ہو گئی۔ کاشت کاری کے لئے 97فیصد رقبے کو سطح زمین اور زیر زمین پانی فراہم کیا جانے لگا تھا۔ یہ عدم توازن عدم توجہی کے باعث پیدا ہوا اور ہوتا چلا گیا۔ اب ملک بھر میں کوئی ملک گیر زرعی پالیسی کام نہیں کر رہی اور سالانہ کروڑوں روپے کی زرعی اجناس دالیں وغیرہ باہر سے منگوانا پڑتی ہیں۔ تاہم اب آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تجویز پر دوست ممالک کے تعاون سے ملک میں زرعی انقلاب لانے کی نوید سنائی گئی ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز غذائی تحفظ کے موضوع پر اسلام آباد میں ایک قومی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ 1960ء کے بعد دوسرا سبز انقلاب لایا جارہا ہے۔ اس سے ملک خوشحالی کی راہ پر آ جائے گا۔
بلاشبہ ملک میں زرعی پیداوار کی صلاحیت اور اس کے مثبت نتائج کے حوالے سے وزیر اعظم کے فکر سے اختلاف کی گنجائش نہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ زرعی شعبہ پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ یہ اکیلا شعبہ کل افرادی قوت کے قریب 40فیصد کو کام مہیا کرتا ہے جبکہ 25کروڑ کے قریب آبادی کی خوراک کی ضروریات کے لئے بھی اسی شعبہ پر انحصار ہے جبکہ ٹیکسٹائل جیسے سب سے بڑے برآمدی شعبے کے خام مال کا دارومدار بھی زراعت پر ہے اور زراعت ہی کی بدولت ملکِ عزیز کو دنیا میں چوتھے سب سے بڑے چاول برآمد کنندہ ملک کا مرتبہ حاصل ہے۔ اس طرح گوشت اور دودھ کی پیداوار بھی زراعت سے متعلق ہے۔ ان حقائق سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زراعت ہماری معیشت اور قومی زندگی میں کس قدر اہمیت کی حامل ہے مگر اس کے مقابلے میں اس شعبے کو حاصل تعاون اور سرپرستی اب تک مایوس کن ہے حالانکہ عصرِ حاضر میں زراعت سمیت کسی بھی پیداواری شعبے کی ترقی اور کامیابی دستیاب سائنسی سہولیات سے استفادہ کیے بغیر ناممکن ہے مگر آج بھی ہمارا کسان سینکڑوں سال پرانے طریقہ کاشت کے مطابق کاشت کاری کر رہا ہے اور قدیم آلات پر انحصار کئے ہوئے ہے۔ جدید زرعی مشینری تک رسائی یا اسے خریدنے کی استطاعت ان ہی کاشتکاروں کو حاصل ہے جو بڑی بڑی زرعی زمینوں کے مالک ہیں۔ اکثریت کو یہ سہولتیں کرائے پر حاصل کرنا پڑتی ہیں جن کے معاوضے ادا کرنے کے بعد عام کاشتکاری کا منافع وہی رہ جاتا ہے جو ایک مزدور کا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح کمرشل اور زرعی بینکوں کی جانب سے زرعی شعبے کے لئے قرضہ جات تو دستیاب ہیں مگر مارکیٹ ریٹ پر اور سٹیٹ بینک کی نافذ کردہ بلند ترین شرحِ سود کے ساتھ۔ پس ان قرضوں کا کاشتکاری مقاصد کے لئے قابلِ عمل ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ موجودہ موسمیاتی تبدیلیوں کے عذاب سے دوچار دور میں ہمارے ملک کی زراعت کو موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت میں بھی غیر معمولی چیلنجز درپیش ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ برس کے سیلابوں کو دیکھ لیجئے۔ ان سیلابوں سے ہونے والے کل نقصان کا نصف کے قریب زرعی شعبے کا تھا۔ جو کاشتکار قرض لے کر فصل کاشت کرتا ہے اور خدانخواستہ وہ فصل بارشوں، ژالہ باری یا دوسری انتہائی صورت میں خشک سالی کا نشانہ بن کر برباد ہو جائے تو اس متاثرہ کاشتکار کے لئے عمر بھر معاشی طور پہ کمر سیدھی کرنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ دوسری جانب ہمارے کاشتکار کو جدید کاشتکاری کے علمی اور تربیتی مواقع بھی میسر نہیں۔ لہٰذا پیداواری صلاحیتوں میں ترقی یافتہ ممالک سے مقابلہ محض خواب ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہم دیگر ممالک تو دور کی بات زرعی پیداوار کے حوالے سے اپنے ہمسائے ملک بھارت کے ہم پلہ بھی نہیں رہے۔ حالانکہ ہمارے ملک میں جو نہری نظام ہے اسے دنیا کا بہترین نظام مانا جاتا ہے۔ زیر زمین پانی بھی حسبِ ضرورت دستیاب رہتا ہے اور سال کے چار موسم بھی ہر طرح کی فصلیں کاشت کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں مگر ان وسائل سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت تشویشناک حد تک کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہماری خوراک کی درآمدات توانائی کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔ ایک زرعی ملک جسے قدرت نے ہر طرح کے پیداواری وسائل عطا کر رکھے ہوں اگر سال میں آٹھ، دس ارب ڈالر صرف خوراک کی درآمد پر خرچ کرتا ہو تو تشویش جائز ہے۔
اس سلسلے میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کی زراعت کے شعبہ میں خصوصی دلچسپی قابلِ صد تحسین اور باعثِ اطمینان ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 50ء کی دہائی میں پاکستان ترجیحات میں شامل کرنے کے بعد اپنی زراعت کو دنیا کی جدید اور ترقی یافتہ زراعت کے طور پر منوا چکا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ اندرونی سر پھٹول اور سیاسی معرکہ آرائیوں کے باعث یہ اپنی زراعت کو تباہ کرنے کا کریڈٹ بھی رکھتا ہے۔ سیاسی مخالفین کے طعنے اور تنقید بھی قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ اب تو سیاسی مخالفین برسراقتدار لوگوں کو ناکام کرنے کے لئے ملک کا نقصان کرنے سے بھی باز نہیں آتے اب تو تازہ مثال یہ ہے کہ آئی ایم ایف سٹینڈ بائی معاہدے کے تحت ادائیگی کرنے پر رضامند ہوتا ہے تو حکومت مخالف سیاسی طاقتیں اسے روک کر مزید شرائط عائد کروانے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ اس مخالفت میں ملک بے شک ڈیفالٹ کر جائے انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
موجودہ زیر غور فوڈ سکیورٹی پراجیکٹ بھی زیر بحث اور زیر تنقید آنے کا شدید خدشہ ہے۔ اسے وفاقی حکومت کی بجائے فوج کا پراجیکٹ قرار دے کر اس پر تنقید کی جا رہی ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہاں زراعت کی تباہی سول اداروں کی عدم توجہی کے باعث ہی ہوئی ہے۔ یہاں عام سرکاری ملازم کام کرنا اپنی موت تصور کر بیٹھا ہے اور کوئی بھی بڑا پراجیکٹ یہاں بغیر رشوت کے قابل عمل ہی قرار نہیں پاتا۔ یہاں ان تحفظات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ زراعت کا شعبہ بھی اگر فوج کے پاس چلا گیا تو پیچھے کیا رہ جائے گا۔ جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہاں جو بھی حکومت ہو اس میں سیاسی بھرتیاں اور سیاسی رشوتیں اس قدر وسیع تر اور لازمی نوعیت کی ہوتی ہیں کہ پورے کے پورے پراجیکٹ ہی لوگوں کی تجوریوں میں چلے جاتے ہیں اور منصوبے خاک میں مل جاتے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جو حکومت ایک سیاسی مخالف پر صرف اس لئے ہاتھ نہیں ڈال رہی کہ خود فوج ہی یہ گند سمیٹے تو اس حکومت کو یہ بھی کر لینے دیا جائے کہ زراعت جیسے بنیادی شعبے کو بھی فوج ہی اپنی سرپرستی میں چلائے اور توسیع دے اور فوج بھی پاکستان کی ہے اس میں کون سا خطرہ ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ فوج کی نگرانی سے کم از کم یہ یقین تو میسر آئے گا کہ یہ فوڈ سکیورٹی کا منصوبہ اور یہ کمپنی دونوں چلتے رہیں گے اور ساتھ ہی یہ تسلی بھی کہ اپنی ہی فوج پر حملے کرنے والے تو کم از کم ناکام ہوں گے۔ آگے اللّٰہ وارث ہے۔

جواب دیں

Back to top button