Column

الیکشن ہوں گے۔۔۔۔؟

الیکشن ہوں گے۔۔۔۔؟

رفیع صحرائی
آج کل یہ یہ ملین ڈالر کا سوال بنا ہوا ہے کہ کیا عام انتخابات وقت پر ہوں گے؟ اس سوال کے مختلف حلقوں کی جانب سے مختلف جوابات آ رہے ہیں۔ کسی کے نزدیک الیکشن کا انعقاد بہت مشکل ہے جبکہ کوئی انتخابات کو وقت پر ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ بعض کے نزدیک الیکشن اگلے سال اپریل یا اکتوبر تک جا سکتے ہیں تو ایک حلقے کا خیال یا کوشش ہے کہ عام انتخابات کو دو سال کے لئے ٹال دیا جائے۔ اقتدار بہت ظالم چیز ہے۔ راج سنگھاسن پر جسے بھی بیٹھنے کا موقع مل جائے وہ اپنی حکومت کے لئے عمر بھر کا دوام چاہتا ہے۔ گو عمر جتنی ناقابلِ بھروسہ دوسری کوئی چیز نہیں ہے۔ کبھی راج گدی کانٹوں کا تاج ہوا کرتی ہو گی مگر اب تو یہ حقیقی طور پر پھولوں کی سیج بن گئی ہے۔ جتنی سہولتیں اور تعیّشات آج ہمارے ہاں حکمرانوں کو حاصل ہیں اتنی سہولیات تو ماضی میں بادشاہوں کو بھی حاصل نہ تھیں۔ عوام کھلی آنکھوں سے دیکھ اور محسوس کر رہے ہیں کہ موجودہ حکومت انتخابات نہیں کروانا چاہتی۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو عمران خان کی کھڑکی توڑ مقبولیت ہے۔ ایک سو سے زائد مقدمات، آئے روز عدالتوں کے چکر، اقتدار کے دنوں کے قریبی ساتھیوں کی بہت بڑی تعداد میں بے وفائی، سانحہ 9مئی اور الیکٹرانک میڈیا پر عمران خان کا مکمل بلیک آئوٹ بھی ان کی مقبولیت میں کمی نہیں کر سکا۔ اس بے پناہ مقبولیت کی وجہ کیا ہے اس پر زیادہ ریسرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عمران خان کی صلاحیتوں سے زیادہ ان کے مخالفین کی کمزوریوں نے عمران خان کو مقبولیت کے ساتویں آسمان پر پہنچا رکھا ہے۔ انتخابات سے بچنے کی دوسری بڑی وجہ پی ڈی ایم کی حکومت کی کارکردگی ہے۔ اپنے پندرہ ماہ کے اقتدار میں یہ حکومت عوام کو کوئی ایک بڑا ریلیف دینے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ وزارتِ خارجہ کی مسند پر براجمان بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ حکومت کے آخری دنوں میں کراچی تا اسلام آباد مہنگائی مارچ کیا تھا۔ آج ان کی حکومت میں مہنگائی میں مزید پچاس فیصد اضافہ ہو چکا ہے مگر بلاول بھٹو منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ آج انہیں مہنگائی نظر آ رہی ہے نہ عوام کی حالتِ زار کا پتا ہے۔ تاریخ کی سب سے بڑی وفاقی کابینہ بتا رہی ہے کہ حکومت کے زیرِ سایہ عوام کو ریلیف دینے سے زیادہ اپنی انجمن امدادِ باہمی بنا کر نوازنے کا عمل جاری ہے۔ ایسے میں الیکشن کا رزلٹ دیوار پر لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اسی لئے کبھی موجودہ اسمبلی کی مدت ایک سال بڑھانے کی بات کی جاتی ہے۔ تو کبھی اگلے سال اپریل میں الیکشن کے انعقاد کے شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔ مقصد ایک ہی ہے کہ اپنی مرضی کی پِچ تیار کی جا سکے۔ مرضی کی پِچ کی تیاری کی ایک کڑی نگران وزیرِ اعظم اور کابینہ کے انتخاب کے لئے دبئی میں لگاتار مشاورت کا سلسلہ بھی ہے۔ اس کے لئے ہر گزرتے دن کے ساتھ نئے نام سامنے آ رہے ہیں۔ پہلے پہل محسن بیگ صاحب کو ہاٹ فیورٹ کہا جا رہا تھا۔ اس کے بعد گوہر اعجاز صاحب مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔ دعویٰ یہ تھا کہ وہ سرمایہ کاری لا سکتے ہیں اور معیشت کو بھی سمجھتے ہیں۔ پھر نجم سیٹھی بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے۔ وہ میاں نوازشریف کے لئے بہت زیادہ قابلِ قبول ہیں۔ فواد حسن فواد کا نام بھی اس دوڑ میں شامل ہو گیا اور عارف حبیب بھی متوقع وزیرِ اعظم کے طور سامنے آئے۔ اس دوڑ میں ایک اور حیرت انگیز نام جگنو محسن کا سامنے آیا، جو نجم سیٹھی کی بیگم ہیں۔ دیکھا جائے تو مذکورہ بالا تمام نام میاں نواز شریف کے لئے قابلِ قبول ہیں۔ بالواسطہ طور پر مسلم لیگ ن کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو بھی ان پر اعتماد ہے کہ ن لیگ اور پی پی ایک صفحے پر ہیں اور انتخابی معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ یاد رہے کہ نگران وزیرِ اعظم کا انتخاب منتخب وزیرِ اعظم اور اپوزیشن لیڈر باہمی مشاورت سے کرتے ہیں۔ یہاں اپوزیشن لیڈر راجا ریاض ہیں جو متوقع طور پر اگلا الیکشن ن لیگ کی طرف سے لڑیں گے۔ گویا راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ اس چین میں خلل ڈالنے کے لئے آئی ایم ایف درمیان میں کود پڑا ہے۔ اس نے پاکستان کو تین بلین ڈالر کا تازہ تازہ پیکیج دیا ہے۔ جن میں سے 1.1بلین ڈالر چند روز میں مل جائیں گے۔ سعودی عرب اور یو اے ای سے بھی 3بلین ڈالر ملنے والے ہیں۔ 2بلین ڈالر ایک اور دوست سے چند روز میں مل جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب یہ حکومت اگلے مہینے گھر جائے گی تو ملکی ریزرو آٹھ بلین یعنی آٹھ ارب ڈالر ہو چکے ہوں گے۔ نگران حکومت کو خزانہ بھرا ہوا ملے گا۔ ایسے میں اگر ن لیگ، پیپلز پارٹی یا کسی اور کا فیورٹ وزیرِ اعظم بیٹھا ہو گا تو الیکشن کے دنوں میں مختلف منصوبہ جات کی منظوری سے خزانہ خالی ہونے کے امکانات بھی موجود ہیں جو اگلی حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کر کے آئی ایم ایف ڈیل کی تکمیل میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف ناراض ہو گیا تو پاکستان شاید ڈیفالٹ سے نہ بچ سکے۔ اس صورتِ حال نے نگران وزارتِ عظمیٰ کے درج بالا تمام ناموں پر کراس لگا دیا ہے۔ اب ٹیکنو کریٹ ناموں پر غور شروع ہو گیا ہے جو سیاسی ہمدردی کی بجائے آئی ایم ایف کے مفادات اور ڈائریکشن کا خیال رکھ سکیں۔ ملکی خزانے میں کمی کی بجائے اضافہ کریں۔ عوام کو بلاتخصیص امیر و غریب نچوڑ کر رکھ دیں۔ نگران کابینہ نے کون سا ووٹ لینا ہوتا ہے جو عوام کی پروا کریں۔ سنا ہے سابق وزیرِ خزانہ جناب حفیظ شیخ نگران وزیرِ اعظم کے طور پر تقریباً فائنل ہو چکے ہیں۔ متوقع طور پر سابق گورنر سٹیٹ بنک جناب رضا باقر ان کے وزیرِ خزانہ ہوں گے۔ گویا آئی ایم ایف کی فیورٹ ٹیم آنے والی ہے۔ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر نومبر میں ہوں گے۔ موجودہ اسمبلی کی مدت 12اگست کو ختم ہو رہی ہے۔ مدت پوری ہونے کے بعد 60روز میں الیکشن ہونے ضروری ہیں۔ یعنی 11اکتوبر تک الیکشن ہو جانے چاہئیں۔ لگتا ہے کہ جنابِ وزیرِ اعظم 10اگست کو خود ہی قومی اسمبلی توڑ دیں گے۔ ایسی صورت میں الیکشن کرانے کی مدت 90روز ہو جائے گی یعنی 10نومبر تک الیکشن کرانے کی مدت بڑھ سکتی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ موجودہ چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد انتخابی مہم شروع ہو۔ ایک اور تجویز بھی زیرِ غور ہے کہ دو سال کے لئے حکومت ٹیکنو کریٹس کے حوالے کر دی جائے جو بگڑے ہوئے معاشی حالات کو اس عرصے میں ٹریک پر لے آئے۔ بڑے بڑے ٹیکس نادہندگان سے ٹیکس پوری طرح نچوڑا جائے۔ اشرافیہ کی مراعات ختم کی جائیں اور آگے بڑھنے کی سمت درست کر کے دو سال بعد انتخابات کروا دیئے جائیں۔ اس سے ڈالر، تیل اور گیس کی قیمتیں بھی بڑھیں گی اور مہنگائی بھی ہو گی لیکن اس کا مثبت پہلو یہ ہو گا کہ مراعات یافتہ طبقے کی سہولتیں بھی ختم ہو جائیں گی۔ شنید ہے کہ پنجاب کے نگران سیٹ اپ کی مکمل تبدیلی پر بھی غور ہو رہا ہے۔ جو بھی ہو گا 15جولائی سے 10اگست کے درمیان ہی ہو گا۔

جواب دیں

Back to top button