Column

آج بھی حالات ماضی سے مختلف نہیں

محمد اعجاز الحق
آج آپ سے ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے بات کرنے کا موقع پا رہا ہوں، وطن عزیز کی سیاسی تاریخ بہت سے نشیب و فراز سے گزری ہے اور ابھی تک ملک میں جمہوری استحکام کی منزل نہیں ملی ہے، یہ ملک واقعی بر صغیر کے مسلمانوں کی رائے سے بنا، یہ رائے عامہ مسلم لیگ نے ہموار کی تھی اور لیڈر شپ بھی ہمیں قائد اعظم محمد علی جناحؒ جیسی میسر تھی، جو قانون دان بھی تھے، سیاست دان اور مدبر بھی تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں ’ جب جب بھی سیاسی جدوجہد کی‘ نکتہ نگاہ پیش کیا اور اپنی رائے دی، کبھی ان کی گفتگو اور رائے اخلاقیات سے باہر نہیں ہوئی اور نہ ایسی سیاسی جدوجہد کی جس کے نتیجے میں معاشرے میں بے چینی پیدا ہوئی ہو، پر امن اور قانون کے دائرے میں رہ کر جدوجہد کرتے ہوئے دلیل کی بنیاد پر اپنی بات منواتے ہوئے انہوں نے پاکستان حاصل کیا، ان کی سیاسی جدوجہد اور ان کی زندگی ہمارے لیے ایک بہترین سیاسی رہنمائی ایک پیغام ہی نہیں بلکہ باعث افتخار بھی ہے، ملک کی ہر سیاسی جماعت کا یہ حق ہے کہ وہ عوام کو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے اور عوام کی آئین قانون کے تابع رہ کر رہنمائی کی جائے، جہاں بھی یہ صفت کسی بھی سیاسی جماعت کے گھر میں موجود نہیں ہوگی تو وہاں مسائل بھی پیدا ہوں گے اور ملک میں جمہوریت بھی مستحکم نہیں ہو پائے گی۔5جولائی1977ء کا فوجی اقدام ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ کا نہایت اہم باب ہے، آج چھیالیس سال گزر گئے چکے ہیں مگر یہ آج بھی ملکی سیاست کا ایک اہم موضوع بنا ہوا ہے، اس واقعہ کا آئین کی روشنی میں تجزیہ بہت ضروری ہے۔ آئین کہتا ہے کہ حکومت آئین کے مطابق ملک کے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے کی ذمہ دار ہے، جہاں بھی حکومت آئین کی اس بنیادی روح کو نہیں سمجھے گی اور اسے نظر انداز کرے گی تو پھر آئین کہتا ہے کہ ملک کا ہر شہری آئین کا وفادار ہوگا۔ یہ ہے کہ وہ ذمہ داری ہے جو پانچ جولائی جیسے واقعات کے ہر سوال جواب دیتی ہے، ہوسکتا ہے کہ کوئی اسے تعصب کی آنکھ سے دیکھ رہا ہو لیکن جب اسے حقائق کے عدسے سے دیکھا جائے گا تو اس فوجی اقدام کیلئے اس وقت کی حکومت کے مستقل اقتدار میں رہنے کے خاموش اقدامات اور خواہشات کا ایک انبار نظر آئیگا۔ 5جولائی1977ء کے فوجی اقدام سے متعلق بہت کچھ کہا اور لکھا بھی گیا،46سال گزرنے کے باوجود یہ موضوع پرانا نہیں ہوا، آج جب بھی کوئی اس واقعہ پر گفتگو کرے گا تو اسے حامی اور مخالف نکتہ نظر ملے گا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ملک میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کی سیاسی لیگسی نہ صرف موجود ہے بلکہ اس ملک کی ترقی، سلامتی، خوشحالی اور اس ملک کے دفاع کو مضبوط بنانے کے ناقابل تسخیر اقدامات کی وجہ سے ان کی سیاسی وراثت کا دائرہ وسیع ہے، یہی وجہ ہے کہ 17اگست کو ان کے یوم شہادت پر ہر سال ملک بھر سے لاکھوں عقیدت مند دعا کے لیے آتے ہیں۔ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی اس ملک کے دفاع کیلئے اور اللہ کی راہ میں شہادت کو تقریبا پینتیس برس ہونے کو ہیں، ان کی حکومت کے دوران بلکہ ان کی شہادت تک میرا سیاسی کارکن کی حیثیت سے کوئی تعارف نہیں تھا، سیاسی سفر ان کی شہادت کے بعد شروع کیا ہے، کئی بار سوچا کہ ملک کے شہری اور ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے اس پر اپنی رائے دوں، مگر یہ سمجھ کر خاموش رہا کہ ہوسکتا ہے اسے تعصب کی نگاہ سے دیکھا جائے، تاہم تعصب اور حقائق کی کشمکش ہی ہمیں بہتر فیصلہ کرنے، رائے دینے، نظریہ پاکستان، اسلام اور اس ملک کی مٹی کا ایک ایک ذرہ حقائق کا ساتھ دینے اور اس کا پرچار کرنے کی تلقین کرتا ہے، ایک سیاسی کارکن کے طور پر میری رائے میں ووٹ کا احترام نہ کرنے کا نتیجہ پانچ جولائی یا ان جیسے واقعات ہی ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے آئین اور کسی بھی جمہوری پارلیمانی نظام میں آئین سے ہٹ کر اور اس کے متعین کردہ دائرے سے باہر نکل کر ملک کا نظم و نسق سنبھالنا سیاسی جمہوری لحاظ سے کبھی پسندیدہ اور آئینی عمل نہیں سمجھا گیا، اور نہ سمجھا جائے گا، لیکن جہاں ملکی سلامتی کے تحفظ کی قسم کھائی گئی ہو اور ملکی دفاع اور اس کی سلامتی ہی متاع عزیز ہو تو پھر ملکی سلامتی کے تحفظ کو ترجیح دینا ہی ملکی سلامتی کے تحفظ کی قسم کا تقاضہ کرتا ہے۔ جمہوری اور سیاسی لحاظ سے ہمارا آئین مقدم ہے اور جب آئین ہی اس عمل کو جائز قرار دے دے اور آئینی تحفظ فراہم کر دے تو پھر بحث ہی ختم ہوجاتی ہے،1985کی منتخب قومی اسمبلی نے آئین کی آٹھویں ترمیم میں ان تمام اقدامات کو آئینی تحفظ دیا ہوا ہے، تاہم ایک طبقہ ہے جو فیشن کے طور پر اپنی بات کرتا رہتا ہے، پانچ جولائی 1977ء کے اقدام کی ایک ہلکی سی جھلک ہمیں تاریخ میں یہ ملتی ہے کہ ملک میں آئینی عمل داری نہیں تھی، ساری مراعات پر صرف حکمران جماعت کا حق سمجھا جاتا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کے پروگرام کو پسند کرنے والے عوام خوار ہو رہے تھے اور معاشی روزگار کے سارے در صرف پیپلز پارٹی سے وابستہ افراد کی لیے کھلے تھے، راشن ڈپو ان کے نام الاٹ تھے، حالت یہ ہوا کرتی تھی کہ اگر محلے میں کسی گھر میں شادی ہوتی تو وہ پوری گلی کے راشن کارڈ اکٹھے کرکے چینی لینے پر مجبور ہوتا، ملکی سیاست کا عالم یہ تھا کہ اس وقت بھٹو صاحب کی حکومت اور اپوزیشن اتحاد ایک دوسرے کو دیکھنے اور برداشت کرنے کے روادار نہیں تھے، ووٹ کا تقدس نہ تسلیم کرنے پر ملک کی انتظامی مشینری عوامی احتجاج کے نتیجے میں تقریباً مفلوج ہوچکی تھی، پانچ جولائی کے اقدام کے خلاف عدالت میں دائر کی گئی رٹ درخواست پر فیصلہ آج بھی محفوظ ہے اور اسے پڑھ کر پوری آگاہی مل جاتی ہے، سپریم کورٹ نے نصرت بھٹو کیس میں اپنے فیصلے میں اس وقت کے ملکی حالات کا تفصیلی ذکر کیا ہے،5جولائی کا مارشل لا تو بعد میں نافذ ہوا، اس سے پہلے خود بھٹو حکومت کے دور میں آئین میں دی گئی گنجائش کی آڑ لے کر ملک کے تین شہروں لاہور، کراچی اور حیدر آباد میں ضلعی انتظامیہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج سے مدد طلب کر چکی تھی اور باقاعدہ مارشل لانافذ کیا مگر اس کے باوجود عوام اس حکومت کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے رہے، یہ ساری صورتحال7مارچ1977کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی شکایات کے بعد عوام کے احتجاج کی صورت میں پیدا ہوئی تھی، جس سے ملک میں امن و مان کا شدید مسئلہ پیدا ہوا،7مارچ1977ء کے عام انتخابات سے پہلے ملک میں بھٹو صاحب کی حکومت تھی، اور ملک میں اس حکومت کو کوئی چیلنج نہیں تھا، آئین کے تحت قومی اسمبلی کی مدت14 اگست1977کو ختم ہونے والی تھی، بھٹو صاحب نے 1975میں ہی ایک سال قبل ملک میں عام انتخابات کرانے عندیہ دے دیا تھا، تاریخ شاہد ہے کہ وہ اس وقت بائیں بازو کے اپنے انقلابی حامیوں کے ہاتھوں ہی پریشان تھے، کسنجر کہانی بھی اسی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کرانے کا اعلان کرکے بھٹو صاحب نے انتخابی مہم بھی شروع کردی اور5جنوری 1977کو ملک میں مزید زرعی اصلاحات کرکے مالیہ ختم کر دیا اس کے علاوہ25ایکڑ نہری اور50ایکڑ بارانی اراضی کے مالکان کے لیے انکم ٹیکس بھی معاف کر دیا اگلے ہی روز سول اور فوجی ملازمین کی پنشن میں دگنا اضافہ کر دیا اور10جنوری1977 کو صدر فضل الٰہی چودھری نے قومی اسمبلی تحلیل کردی، اعلان کیا کہ عام انتخابات وقت سے پہلے 7مارچ کو ہوں گے اور 10مارچ کو صوبائی اسمبلی کے لیے پولنگ ہوگی، ملک میں عام انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ کاغذات نامزدگی17جنوری تک وصول کیے جائیں گے، انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ’’ سیاست دان بھی انتخابات سے اتنا ہی گریزاں ہوتے ہیں جتنا فوجی جرنیل جنگ سے، سیاسی لڑائی خواہی نخواہی لڑنا پڑتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ انتخابات شفاف ہوںگے‘‘، انتخابات کے اعلان کے بعد11جنوری کو اپوزیشن کی نو جماعتوں پر مشتمل ’’ پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی تشکیل کا اعلان کر دیا گیا، بھٹو صاحب کے انتہائی قریبی افراد جن میں رفیع رضا شامل ہیں، نے مکمل علم ہونے کے باوجود انہیں اپوزیشن کی خاموش انتخابی تیاری سے بے خبر رکھا۔ پیپلز پارٹی یہ سمجھ رہی تھی کہ کوئی سیاسی حریف اس کی دھول تک بھی نہیں پہنچ سکتا اس کے باوجود اس نے اپنی کامیابی کے لیے’’ فول پروف اقدامات کیے‘‘، انتخابات کے اعلان سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں11اپریل1976کو ایک ماڈل الیکشن پلان بنایا اس دستاویز پر بھٹو صاحب کے دستخط ہیں اور یہ سیاسی ریکارڈ کا حصہ ہے، اسی پلان کے تحت انتخابات سے پہلے وزراء کی نگرانی میں انتخابی حلقوں کی حلقہ بندیاں کی گئیں، بھٹو کابینہ کے رکن کی گواہی بھی تاریخ کے ریکارڈ میں ہے کہ ’’ امیدواروں نے اپنے’’ قیاس کے مطابق اپنے حلقوں، ضلعوں اور ڈویژنز کی از سر نو حد بندی کرلی ہے‘‘۔ عام انتخابات میں سرکاری گاڑیوں اور کارکنوں میں آتشیں اسلحہ کی تقسیم ہوئی اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کیلئے سرکاری اہل کاروں پر دبائو ڈالا گیا۔ بھٹو صاحب کی بلا مقابلہ کامیابی کے اعلان کے بعد ان کی کابینہ کے بیشتر وزراء بھی بلامقابلہ کامیاب قرار پائے، بہر حال عام انتخاب کیلئے بیالیس روزہ انتخابی مہم تلخ اور ہنگامہ خیز واقعات سے بھرپور تھی، انتخابی نتائج آئے تو پیپلز پارٹی نے 155نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور پاکستان قومی اتحاد کو صرف36نشستوں پر کامیابی ملی۔، کچھ آزاد امید وار کامیاب ہوئے اور متعدد نشستوں پر دیگر جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوئے، 155نشستوں پر پیپلز پارٹی کی کامیابی ہی اصل میں خطرے کی گھنٹی تھی، ملک میں رد عمل بہت شدید ہوا اور پاکستان قومی اتحاد نے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا، پاکستان قومی اتحاد نے الیکشن کمیشن توڑنے، فوج اور عدلیہ کی نگرانی میں از سر نو انتخابات کرانے کا مطالبہ کر دیا اور دھمکی دی کہ اگر14مارچ تک مطالبات تسلیم نہ کئے تو ملک گیر تحریک چلائی جائے گی،12 مارچ کو بھٹو صاحب نے مذاکرات کی پیش کش کی مگر پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ مولانا مفتی محمود نے اسے مسترد کر دیا اور بھٹو صاحب کو خط لکھا کہ نئے انتخابات کرائے جائیں، بھٹو صاحب نے19مارچ کو خط کا جواب دیا کہ از خود انہوں نے شکایات کا جائزہ لینے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اس وقت پاکستان قومی اتحاد میں شامل جماعتیں کوئی زیادہ منظم نہیں تھیں، ان کے پاس وسائل بھی نہیں تھی اور قیادت بھی کوئی کرشماتی نہیں تھی لیکن عوام کی بہت بڑی تعداد بھٹو صاحب کی حکومت سے تنگ تھی لہٰذا حکومت کے خلاف غصے اور نفرت میں عوام نے پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کا ساتھ دیا، پاکستان قومی اتحاد کی عوامی تحریک آگے بڑھی تو بھٹو حکومت بھی چاروں صوبائی اسمبلیاں توڑنے اور نئے انتخابات کیلئے تیار ہوگئی اور اعلان کیا کہ اگر پاکستان قومی اتحاد صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کر لے تو وہ قومی اسمبلی توڑ دیں گے تاکہ قومی اسمبلی کے بھی ازسر نو انتخابات ہوسکیں، لیکن پاکستان قومی اتحاد کی تحریک عوام کی شرکت کے باعث زور پکڑ چکی تھی لہٰذا وہ نءے انتخابات کے سوا کسی چیز پر راضی نہ ہوئے، یہی وہ موڑ ہے جہاں کہانی نے ایک نیا رخ اختیار کیا کہ10 اپریل کو بھٹو صاحب نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق سے ملاقات کی، اور کہا کہ’’ ان کی حکومت انصاف کے تقاضے پورے کرے گی اور انتخابی مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرے گی، تاہم فوج کسی بھی ناگہانی صورت حال کے مقابلے کے لئے خود کو تیار رکھے‘‘، یہ پہلی دعوت تھی جو بھٹو صاحب نے مداخلت کیلئے فوج کو دی تھی، اس ملاقات کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اپنے رفقاء کار کو اعتماد میں لیا تاہم وہ اس نکتہ پر اتفاق کر چکے تھے کہ حکومت کا اعتماد داغ دار ہوچکا ہے اور اسے عوام کی حمایت اور تائید حاصل نہیں رہی اور فیصلہ ہوا کہ وزیر اعظم کو بتا دیا جائے کہ عوام میں ان کی حکومت کے بارے میں بہت غصہ اور ردعمل ہے اور یہ بھی فیصلہ ہوا کہ فوج سیاست سے دور رہے گی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے بہت سے رفقاء بلکہ جنرل محمد شریف کی گواہی موجود ہے کہ بھٹو صاحب کی اس وقت کی فوجی قیادت نے مکمل حمایت کی اور انہیں حالات درست کرنے کیلئے ہر ممکن مدد بھی فراہم کی، بھٹو صاحب نے17اپریل کو جن اقدامات کا اعلان کیا اس کی بھی مکمل تائید کی گئی، مقصد یہ تھا کہ سیاسی بحران ٹل جائے، جنرل ضیاء الحق کا حکومت کیلئے یہ مشورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ملک میں حکومت کے ساتھ تھے اور چاہتے تھے کہ حالات درست ہوجائیں اور اس کیلئے حکومت کو موقع بھی دے رہے تھے، مگر پیپلز پارٹی کی غیر مقبولیت عروج پر تھی اور عوام میں غصہ اور رد عمل بھی شدید تھا، اس کا جواز بھی خود حکومت کے وزراء نے ہی فراہم کیا تھا، انتخابی دھاندلی کے خلاف ملک گیر تحریک در اصل بھٹو مخالف تحریک بن چکی تھی،20اپریل کو حکومت نے خود ایک فیصلہ کیا اور ملک کے دو اہم شہروں کراچی اور لاہور میں مارشل لا نافذ کرنے کا عندیہ دیا، فوجی قیادت نے حکومت کو مشورہ دیا کہ ایسا نہ کیا جائے کیونکہ یہ سلسلہ پھر آگے ہی بڑھے گا واپس نہیں آئے گا، بہر حال حکومت نے لاہور، کراچی اور حیدر آباد میں مارشل لانافذ کرنے کا فیصلہ کیا اور جنرل محمد شریف کو اس کی ہدایت کردی گئی۔ وزیر اعظم نی اٹارنی جنرل کو فرمان جاری کرنے کیلئے ڈرافٹ تیار کرنے کی ہدایت کی کہ صدر فضل الٰہی چودھری سے اس پر دستخط کرا لئے جائیں، اس کے باوجود اس وقت کے وزیر اعظم صاحب سے کہا گیا کہ وہ ایسا نہ کریں، اس سے حالات مزید خراب ہوجائیں گے، تو وزیر اعظم نے جواب دیا تو کیا پھر پورے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا جائے؟ تاہم یہاں1977کے مارشل لا کے کچھ حقائق بیان کرنا ضروری ہیں تاکہ سیاسی تاریخ کے طالب علم اس سے رہنمائی لے سکیں اور وہ اس وقت کے سیاسی حالات کے تناظر میں واقعات کو پرکھ اور سمجھ سکیں، جب ملک میں فوج نے نظم و نسق سنبھالا تو اس وقت کے صدر جناب فضل الٰہی چودھری نے بھی اطمینان کا سانس لیا اور مارشل لا حکومت کے ساتھ کام جاری رکھنے کی درخواست بھی قبول کرلی بلکہ انہوں نے متعدد مشورے بھی دئیے، بالکل آغاز پر جنرل محمد ضیاء الحق نے اس وقت کے وزیر اعظم بھٹو صاحب سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی اور انہیں فیصلے سے آگاہ کیا، بھٹو صاحب نے ان سے مری منتقلی کیلئے کچھ مہلت مانگی جو انہیں دی گئی اور بتایا گیا کہ وہاں آپ کا سٹاف آپ کے ساتھ ہوگا، یہ ایک نہایت مختصر سا پس منظر ہے جس کی یہاں نشاندہی کی گئی ہے اور اس وقت کے سیاسی حالات اور واقعات دیکھنے اور سمجھنے کیلئے بھٹو صاحب کے معتمد ساتھی پیپلز پارٹی کے رہنما رانا شوکت محمود کی کتاب ’’ رد انقلاب‘‘ کے علاوہ جنرل کے ایم عارف کی کتاب ’’ ورکنگ ود ضیائ‘‘ اور محترم چودھری ظہور الٰہی کی زندگی پر لکھی گئی کتاب سے بھی مدد لی گئی ہے، اس سارے پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہم آج اپنے سیاسی حالات کا بھی جائزہ لیں، سیاسی جماعتیں مل کر اس پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ آج بھی حالات ماضی سے مختلف نہیں، اگر مگر کی سیاست جاری رہی تو حالات ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔
محمد اعجاز الحق

جواب دیں

Back to top button