فرانس میں جاری فسادات کا پس منظر
روشن لعل
فرانس ان دنوں ایک مرتبہ پھر سے پرتشدد مظاہروں اور فسادات کی زد میں آیا ہوا ہے۔ نوآبادیاتی دور سے آج تک فرانس کا شمار دنیا کی بڑی معاشی اور عسکری طاقتوں میں ہوتا آرہا ہے۔ اقوام متحدہ میں ویٹو کی طاقت رکھنے والا فرانس اس وقت یورپ کی تیسری اور دنیا کی ساتویں بڑی معاشی طاقت ہے۔ کرونا وبا کے منفی اثرات کے باوجود فرانس کو مستحکم معیشت کا حامل صنعتی ملک مانا جاتا ہے۔ مستحکم معیشت رکھنے والے ملکوں کے لیے یہ تصور عام ہے کہ وہاں سماجی انتشار پیدا نہیں ہوتا مگر فرانس کے لیے ایسا نہیں کہا جاسکتا۔ مستحکم معیشت ہونے کے باوجود گزشتہ دس برسوں میں صرف چار برس ایسے گزرے جب فرانس میں فسادات دیکھنے میں نہیں آئے۔ سال 2013اور 2023کے درمیان جن برسوں میں فرانس میں قابل ذکر فساد نہیں ہوئے وہ2015، 2019،2020اور 2021تھے۔ رواں برس 2023کے پہلے سات ماہ کے دوران فرانس میں دو بڑے فسادات رونما ہو چکے ہیں۔ اس برس پہلے فسادات جنوری میں اس وقت رونما ہوئے جب فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کی حکومت نے پینشن ریفارمز کے نام پر ریٹائرمنٹ کی عمر 62سے بڑھا کر 64برس کرنے کا اعلان کیا۔ میکرون حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کا آغاز تو ٹریڈ یونینز اور ریٹائرمنٹ کی عمر کے قریب پہنچ چکے لوگوں نے کیا مگر نوجوانوں نے ان احتجاجی مظاہروں میں شرکت کر کے بہت جلد انہیں فسادات میں تبدیل کر دیا۔ جنوری میں شروع ہونے والے ان فسادات میں مارچ کے اختتام تک شدت کم ہونے بعد بھی احتجاجی مظاہرے کسی نہ کسی حد تک جاری رہے۔ میکرون کی پینشن ریفارمز کے خلاف ہونیوالے فسادات کے دوران اٹھنے والی دھول ابھی ہوا میں معلق تھی کہ پیرس کے نواح میں ایک پولیس افسر کے ہاتھوں الجزائر نعاد سترہ سالہ لڑکے ناہیل کا قتل ہو گیا ۔ اس قتل کے بعد حالیہ فسادات کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ پینشن ریفارمز کے خلاف مظاہرے اگر انسانی حقوق کے نام پر ہوئے تھے تو حالیہ فسادات کی وجہ فرانس میں موجود نسل پرستی کی لہر کو قرار دیا جارہا ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر کار چلانے والے سترہ سالہ ناہیل کے قتل کا پس منظر یہ بیان کیا جارہا ہے کہ جب پولیس کے روکنے پر اس نے گاڑی نہ روکی تو ایک پولیس افسر نے یہ احساس کیے بغیر اس پر گولی چلا دی کہ ایسا کرنے سے اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ سفید فام پولیس افسر کی اس بے حسی کی وجہ اس کی نسل پرستی کو قرار دیتے ہوئے فرانس میں آباد غیر مقامی نوجوانوں نے جو احتجاج شروع کیا وہ فوراً پرتشدد مظاہروں کی شکل اختیار کر گیا۔ فرانس میں جاری فسادات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لوگ یہ تو بتا دیتے ہیں کہ پولیس افسر نے نسلی تعصب کے تحت ناہیل پر گولی چلائی لیکن یہ نہیں بتاتی کہ آخر ایسا وہ کونسا قانونی جواز ہے جس کی وجہ سے اس میں انتہائی بے حسی سے قتل کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ ناہیل کے قتل کے ضمن میں جس بات کا ذکر جانے انجانے میں نہیں کیا جارہا اس کا تعلق اس خاص قانون سازی سے ہے جو عالمی سطح پر دہشت گردی اور خود کش حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کی گئی تھی۔ دہشت گردوں کے خود کش حملوں سے نمٹنے کے لیے فرانس میں یہ قانون بنایا گیا تھا کہ اگر کوئی پولیس کے روکنے پر بھی نہ رکے اور اس کے متعلق یہ خدشہ پیدا ہو کہ وہ پولیس یا عام شہریوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے تو اس پر گولی چلانے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ فرانسیسی حکومت کے بنائے ہوئے مذکورہ قانون کو جاننے کے بعد اگر کوئی یہ دلیل دے کہ پولیس افسر نے روکنے کے باوجود ناہیل کے نہ رکنے پر اسے گولی کا نشانہ بنا کر کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا تو اس دلیل کو غیر مناسب قرار دینا مناسب نہیں لگتا، مگر جب یہ بات سامنے آئے کہ پولیس نے دہشت گردی کی خلاف بنائے گئے قانون کا استعمال کرتے ہوئے 2017کے بعد جتنے لوگوں کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا ان کا تعلق عرب یا افریقی نسل کے فرانسیسی شہریوں سے تھا تو پھر ہر قانونی دلیل اپنا جواز کھو تی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اگر فرانسیسی پولیس آفیسر دہشت گردی کے خلاف بنائے گئے قانون کی آڑ میں صرف عرب اور افریقی نو جوانوں کو نشانہ بناتے ہیں تو نسل پرستی یا نسلی تعصب کے تحت ایسا کیے جانے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔
ناہیل کو قتل کرنے والے پولیس افسر کے نسل پرست رویے کے باوجود یہ بات تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ فرانسیسی معاشرہ بری طرح سے نسلی تعصب کا شکار ہو چکا ہے ۔ آج بھی فرانس میں قابل قدر کردار کے حامل ایسے سفید فام اکثریت میں موجود ہیں جو صرف فرانس ہی نہیں بلکہ بیرونی دنیا میں موجود ہر قسم کی نسل پرستی کو انسان دشمنی تصور کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے ایسے لوگوں کی اکثریت کے باوجود فرانس میں نسل پرستی کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں ہے۔ فرانس میں نسل پرستی کی لہر کس حد تک موجود ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ناہیل کے قتل کی مخالفت کرنے والوں نے جب اس کے خاندان کے لیے فنڈ جمع کرنے کی اپیل کی تو دائیں بازو کے نسل پرستوں نے اس کے قتل کے الزام میں گرفتار پولیس افسر کے لیے بھی فنڈ جمع کرنا شروع کر دیئے۔ جہاں مقتول ناہیل کے لیے بمشکل دو لاکھ ڈالر اکٹھے ہوئے وہاں نسل پرستوں نے قتل کے الزام میں گرفتار پولیس افسر کے لیے 10لاکھ ڈالر جمع کر لیے۔
فرانس دنیا میں روایت شکن لوگوں کی سرزمین کے طور پر مشہور ہے ،اسی سرزمین پر پیرس کمیون جیسا انقلاب برپا ہوا ، فرانس میں ہی نپولین جیسے پیچیدہ کردار کے حامل فوجی آمر نے حکومت کی، فرانس میں بادشاہتیں ختم ہونے کے بعد دوبارہ قائم ہوتی رہیں، فرانس خود تو کسی کی کالونی نہیں رہا مگر اس نے برطانیہ کی طرح ہر براعظم میں اپنی نوآبادیاں قائم کیں اور انہیں آزاد بھی کیا ا ، فرانس نے جرمنی کی نو آبادی بننے کا امکان ختم کر کے اس کی اتحادی فوجوں کے ہاتھوں شکست میں اہم کردار ادا کیا۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد فرانس نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر اور یورپین چارٹر آن ہیومن رائٹس کی تیاری اور منظوری میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنے آئین کے مطابق فرانس ایک ناقابل تقسیم ، سیکولر، جمہوری اور فلاحی ریاست ہے۔ فرانس کی بطور ریاست جو شناخت ہے اس کے مطابق وہاں اس طرح کا کوئی امکان موجود نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی پولیس والا قانون کی آڑ لے کر نسل پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی نادان نوجوان کو قتل کر دے ۔ اگر ایک خاص تاریخ اور خاص پس منظر رکھنے والے فرانس میں ناہیل جیسے نوجوانوں کے قتل کی مثالیں موجود ہیں تو سوچا جاسکتا ہے کہ وہاں قانون کا درست استعمال نہیں ہورہا ہے۔ فرانس کو دنیا میں جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی رکھوالی کرنے والے ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن فرانس کے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اگر نسل پرستوں کی موجودگی جیسے الزامات سامنے آئیں گے تو پھر کوئی کیسے اس ملک کو انسانی حقوق کا پاسدار ماننے کو تیار ہوگا۔





