ColumnTajamul Hussain Hashmi

با کردار وہ بھی غیر مسلم

تجمل حسین ہاشمی
ہم کیسی طبیعت کے مالک ہیں، کسی حال میں خوش نہیں رہتے، آفس میں زیادہ کام ملے جائے تو پھر ناراض، اس کے اثرات سے گھر میں بھی خفا رہتے ہیں۔ بیگم بچوں کے ساتھ خفگی۔ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے عید پر چھٹیوں کم ہو تو بہانہ بنا کر دو، چار اور بڑھا لیتے ہیں، کوئی بھی تہوار ہو ایک، دو چھٹیوں سے دل نہیں بھرتا، سالانہ سرکار کی طرف 4دن چھٹیوں کی اجازت ہے۔ لیکن پھر بھی دل نہیں بھرتا۔ بارش ہو جائے تو سرکاری اور غیر سرکاری کام نہیں ہوتا، عید سے پہلے ہی دفتری کام بند کر کے گھروں کو جانے کی تیاری پکڑتے ہیں۔ ماہ رمضان میں آفس ٹائمنگ کم کر دی جاتی ہے لیکن پھر بھی کام نظر نہیں ہوتا، جمعہ عبادت کا دن سمجھ کر آدھا دن کام کرتے ہیں، ہمارے ہاں چھٹیوں کی مختلف روایات برقرار رکھی گئی ہیں۔ یہ روایت 75سال سے جاری ہے۔ کبھی فائل اٹھانے والا نہیں ہوتا تو کبھی کمپیوٹر ٹائپنگ والا نہیں ہوتا۔ مہینے میں دس دن بھی کام ٹھیک سے نہیں کرتے ہیں۔ دوسرے ممالک جو غیر مسلم ہیں، ان کی بات کریں تو وہاں ہر صورت کام پر جانا ہے، وہاں تہواروں پر ہفتہ، ہفتہ چھٹیاں نہیں، کوئی بہانہ نہیں چلتا، جھوٹ کا تصور نہیں۔ ایک واقعہ یاد آ گیا، دوست کینیڈا میں تھا، سیب خرید کر گھر آیا تو ایک سیب پر چھوٹا سا داغ تھا، کئی دن گزارنے کے بعد اس کا دوبارہ اسی دکان پر جانا ہوا اس نے نارمل انداز میں بتایا تو دکان دار نے کہا سیب کہاں ہیں؟، دوست نے کہا کھا لئے، دکان دار نے اس کو اتنی مقدار میں سیب دئیے اور ساتھ میں شکریہ ادا کیا کہ آپ میری دکان پر دوبارہ تشریف لائے ہیں، دوست سوچ کر حیران ہو گیا یہ غیر مسلم اتنے با کردار ہیں، پاکستان میں موجود رویوں کا سوچ کر پریشان تھا۔ یہ غیر مسلم اپنے کام کاج اور ملک کے شہریوں کے ساتھ اتنے وفادار ہوتے ہیں، اپنے فرض کو پورا کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کو دیکھ لو، پاکستان سے اپنی ساری شرائط تسلیم، ان کی عمل داری کروانے کے بعد رقم دی ہے، پاکستانی سیاست دان، تاجر کو بینک سے قرض نہ ملے، بینک اس پر اپنے تحفظات کا خدشہ ظاہر کر دے تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ بینک انتظامیہ کو ایسی جگہ سے فون آئیں گے جس کا تصور نہیں۔ وہاں کوئی فون نہیں چلتا، وہ قانون پر چلتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔ وہ ویک اینڈ پر بچوں کے ساتھ خوش رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں گھر کے سارے کام اتوار کے دن مکمل کرنے ہوتے ہیں۔ ٹوٹی سے لے جوسر تک ٹھیک کروانے پڑتے ہیں، شادی، برات کا دن بھی چھٹی کو رکھا جاتا ہے، لمبی رات کو انجوئے کرتے ہیں اور سارا دن سوتے ہیں۔ ہمارے ہاں چھٹیوں کی روایات بھی بہت دلچسپ ہیں۔ جمعہ کے دن کو چاند رات کہتے ہیں۔ عید کی چھٹیوں کے بعد پہلے ورکنگ ڈے کو سرکاری آفس میں جانا ہوا، تین بجے ہی دفتر کو تالہ لگا دیا گیا، معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ عید کے بعد پہلا روز تھا اور کوئی کام کاج نہیں تھا اور بڑے صاحب بھی نہیں آئے، جس کی وجہ سے سٹاف چلا گیا، گزشتہ روز میرا نیشنل بینک جانا ہوا، پتہ چلا کہ ڈیڑھ بجے سے لے کر ڈھائی بجے تک کھانے کا وقفہ ہے، تھوڑی دیر انتظار کے بعد دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ ابھی آپریشن منیجر نہیں پہنچے، منیجر صاحب آئے تو پتہ چلا سسٹم کام نہیں کر رہا، منیجر صاحب نے تھوڑا خیال کیا اور میرا ٹیکس کسی اور برانچ سے جمع کروا دیا۔ ٹیکس کی ادائیگی میں چار گھنٹے لگے۔ کیا ملک اس طرح ترقی کر سکیں گے، جس طرز پر ملک کو چلایا جا رہا ہے۔ معاشرے کو اپنی روایات کو تبدیل کرنا ہو گا، شادی بیاہ میں شمولیت کے چکر میں اپنا ماہانہ بجٹ خراب کر لیتے ہیں، میت پر حاضری اور پورے خاندان کا جانا ضروری، ورنہ برداری پوری زندگی جینے نہیں دے گی، موقع محل پر ایک فرد نہیں، پوری فیملی کا جانا لازم ہے، حکومت کی تمام نااہلیاں، کرپشن، لوٹ مار اپنی جگہ ہے معاشرتی کمزوروں سے معاشرہ ٹوٹ چکا ہے، کسی سرکاری اور غیر سرکاری شعبہ میں انتظامی وہ معاملات بہتر نہیں ہیں، ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے کوئی نظام نہیں، افسر کے عزیز کے انتقال پر دفتر بند ہو جاتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ یہ تمام کمزوریاں حکومتوں کی اپنی پیدا کردہ ہیں، اپنے ووٹ کے حصول میں سرکاری ادارہ اور معاشرہ بے راہ روی پر چل پڑا ہے۔ یہاں جلسوں میں سرکاری ملازمین اور گاڑیاں سیاسی مقصد کے لیے استعمال ہو جاتی ہیں۔ جن ممالک کے ہم مقروض ہیں، جن کی مثالیں جلسوں میں دی جاتی ہیں، وہاں کام ایمانداری سے انجام دئیے جاتے ہیں۔ یہاں سرکاری ملازم عوامی خدمات کی جگہ جناب کے گھر کے خدام ہیں۔ کئی ایسے افراد ہیں جن کی ڈیوٹی کسی اور دفتر میں ہے اور فرائض کسی اور جگہ ادا کر رہے ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں عورت ہو یا مرد حقوق اور تحفظ برابر ہیں۔ قانون سب کے لیے برابر ہے اور ملازمت میں سب کے حقوق برابر ہیں، وہاں کسی ڈومیسائل کا تصور نہیں، کوئی کوٹہ سسٹم نہیں ہے، کوئی غیر مقامی اور مقامی کی آوازیں نہیں۔ 9مئی کو جو کچھ ہوا، اس پر حکومت کا سخت ایکشن نظر آ رہا ہے۔ 9مئی کے فورا بعد کراچی میں بیٹھے صحافی نے اس واقعہ کو ڈومیسائل کے فرق سے جوڑ دیا، اس طرح کی سوچ اور تفریق آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔ وہاں افسر کے انتقال پر سرکاری اور غیر سرکاری کام نہیں روکتے۔ غیر مسلم ملک اپنی نا اہلی کو اپنے خدا کے سپرد نہیں کرتے، لکھا کہ پیسے کے ساتھ صحت اور سکون کی بھی دعا کر لیا کریں لیکن جب پیسہ آجاتا ہے تو سکون اور صحت ساتھ نہیں رہتی، میرے عزیز نے میسج کیا کہ ہم حلال کماتے ہیں، ہمیں کچھ نہیں ہو گا۔ اللّہ مالک ہے، دوست موٹر سائیکل پر ڈیوٹی جاتا ہے، میں نے کہا ہیلمٹ پہن لیا کرو، کہنے لگا اللّہ مالک ہے، آفس ٹائمنگ صبح 9بجے ہے اور جناب 9بجے ہی گھر سے نکلے، دفتر پہنچنے کے بعد افسر کی جھاڑ سے منہ بنا لیا اور سارا دن افسر کو برا بھلا کہتے رہے، ذمہ داری پوری نہیں کرتے، سیفٹی کو اختیار نہیں کرتے اور حادثہ سے خود کو محفوظ سمجھ لیتے ہیں۔ ایسا ہی حال ہمارے وزیر اعظم صاحب اور ان کی کابینہ کا ہے، چیئرمین سینیٹ کی مراعات کا بل پاس کیا، ریٹائر ہونے کے بعد بھی صدر کے باہر مراعات لینے کی کوشش کو سوشل میڈیا نے ناکام بنا دیا۔ ویسے بل پیش کرنے والے کو دس باجوں کی سلامی دینی چاہئے۔ سلامی دینے والے نے بھی خاموشی اختیار کئے رکھی۔ کام کچھ نہیں اور خزانے پر ڈاکے کے پکے پلان، کیا اس طرح ملک ترقی کرتے ہیں؟ سیاسی چال بازیوں، سیاسی مکاریوں سے قرضے ختم نہیں ہوتے، من چاہے قانون کا استعمال کرو، صبح، دوپہر ٹی وی پر خود کو ’’سوپر‘‘ ثابت کرو، عدل کو کمزور کرو، اداروں پر چڑھ دوڑو، کیا یہ سب آزاد قومیں کرتی ہیں، جس ملک کی بنیاد کلمہ طیبہ ہو ، جس قوم نے لاکھوں قربانیاں دے کر وطن لیا ہو، اپنے گھر بار چھوڑ کر وطن حاصل کیا۔ آج وطن کے باسی مہنگائی سے خوفزدہ ہیں، حقیقت میں اس کا ذمہ دار معاشرہ خود ہے، مہنگائی میں معاشرے کو اپنا بجٹ پلان دوبارہ مرتب کرنا چاہئے اور ہمارے ہاں کوئی گھریلو بجٹ پلاننگ نہیں۔ مہنگائی کو سیاسی تصور کیا جاتا ہے، اپوزیشن عوام کے جذبات ابھرا کر سڑکوں پر لے آتی ہے اور حکومت کو گھر بھج دیتی ہے۔ اداروں پر چڑھ دوڑتے ہیں، جس چیز کے مارکیٹ میں کمی کا خدشہ ہو، دکانوں پر رش لگ جاتاہے، ایسے رویوں کو سدھارنا انتہائی مشکل ہے۔

جواب دیں

Back to top button