
گزشتہ ہفتے عید الاضحیٰ کے موقعے پر ایک عراقی کرسچئین تارکِ وطن نے سٹاک ہوم کی ایک مسجد کے باہر قرآن کو نذرِ آتش کر دیا اور کہا کہ اس نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
قرآن کو نذرِ آتش کرنے کے اس واقعے کی مسلم دنیا میں شدید مذمت کی گئی۔ اسی طرح کا احتجاج انتہائی دائیں بازو کے ایک سرگرم کارکن نے بھی کیا جس سے سویڈن میں آزادئ اظہارکی حدود کی بحث شروع ہو گئی ہے۔
اب سویڈن کی پولیس کا کہنا ہے کہ اسے بعض لوگوں کی طرف سے مظاہروں کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو قرآن کے ساتھ ساتھ تورات اور انجیل کو بھی نذرِ آتش کرنا چاہتے ہیں۔
پولیس نے کہا کہ ایک شخص کی درخواست قرآن کو ایک مسجد کے باہر نذرِ آتش کرنے سے متعلق ہے اور دوسری کسی ایسے شخص کی جانب سے ہے جو اسرائیل کے سفارتخانے کے سامنے تورات اور انجیل کو جلانا چاہتا ہے۔
مسلم ملکوں نے سویڈن پر زور دیا ہے کہ وہ پابندیوں پر عملدرآمد کروائے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے جمعے کو قرآن کے تقدس کے دفاع کا دن منانے کا اعلان کیا ہے جبکہ قرآن نذرِ آتش کرنے کے واقعے پر پاکستان کی پارلیمنٹ میں گفتگو کی جائے گی۔
سویڈن میں بعض آزاد خیال تبصرہ نگار بھی یہ رائے دے رہے ہیں کہ مظاہروں کو نفرت پر مبنی گفتگو یا Hate Speech” کے زمرے میں آنا چاہئیے جو اس وقت غیر قانونی ہو جاتی ہے جب کسی کو نسل یا ثقافت کی بنا پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
لیکن سویڈن میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مذہب پر تنقید کی اجازت ہونی چاہئیے خواہ اس مذہب کے پیروکار اس تنقید کو جارحانہ ہی تصور کیوں نہ کریں اور یہ کہ سویڈن کو توہینِ مذہب کے قوانین دوبارہ نافذ کرنے کے دباؤ کی مزاحمت کرنی چاہئیے۔ کرسچئین اکثریت والے مگر سیکیولر سکینڈے نیویا کے ملک سویڈن میں یہ قوانین عشروں پہلے ترک کر دیے گئے تھے۔







