سعودی وزیر حج کی معذرت

امتیاز عاصی
حج کی چالیس سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ امسال منی اور عرفات میں پاکستانی حجاج کو غیر متوقع طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ورنہ ماضی قریب میں حاجیوں کی وزارت مذہبی امور سے حج انتظامات میں بدانتظامی کی شکایات ہوتی تھیں۔ اس مرتبہ حجاج خواہ سرکاری یا پرائیویٹ گروپس میں سعودی عرب پہنچے تھے دونوں کو مشاعر مقدسہ میں خیموں میں جگہ کی تنگی کی شکایات رہی ہیں۔ مروجہ طریقہ کار کے مطابق حجاج کو منی روانگی سے پہلے ان کے خیموں کے نمبر بتا دیئے جاتے تھے مگر اس مرتبہ منی پہنچنے کے بعد انہیں خیموں کے بارے میں بتایا گیا تو خیموں میں مقررہ تعداد سے کم حجاج کے رہنے کی گنجائش تھی جس سے نہ تو حجاج خشوح و خصوح سے نمازوں کی ادائیگی کر سکے اور نہ ہی آرام کر سکے۔ تعجب ہے منی سے عرفات جانے والی بسوں کے حاجیوں کو عرفات میں خیموں میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بسوں میں بیٹھنا پڑا۔ عجیب تماشا تھا عرفات سے مزدلفہ پہنچنے والے حاجیوں کو بسوں سے اتار کر بسوں کو مزدلفہ سے باہر بھیج دیا گیا جس سے اگلی صبح حجاج کرام کو بسوں کی تلاش میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ حجاج کو مزدلفہ میں بسوں کے قریب قیام کرنے کو کہا جاتا ہے تاکہ اگلی صبح منی جانے کے لئے انہیں بسوں کی تلاش میں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ حیرت ہے سعودی وزارت حج کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے مزدلفہ میں بسوں کو وہیں رکھا جاتا تھا تاکہ اگلے روز منی روانگی کے وقت انہیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ عزیزیہ میں معلمین کے ایک ہی عمارت میں دفاتر ہونے سے حاجیوں کو جدہ اور مدینہ منورہ روانگی میں خاصا وقت لگا ایک ہی عمارت میں تمام کیٹگری کے معلمین کے دفاتر ہونے سے بسوں اور حجاج کے اژدھام سے ان کی روانگی میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ خبروں کے مطابق وفاقی وزیر مذہبی امور طلحہ محمود نے سعودی وزیر حج ڈاکٹر توفیق سے رابطہ کرکے انہیں پاکستانی حاجیوں کی مشکلات سے آگاہ کرتے ہوئے متاثرہ حاجیوں کو منی اور عرفات کے خیموں کے کرایہ کی رقم واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سعودی وزیر حج نے معذرت کرتے ہوئے مشاعر مقدسہ میں خیموں کا انتظام کرنے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا وعدہ کیا ہے۔ منی اور عرفات میں خیموں کا انتظام کرنے والی کمپنیوں کو مشاعر مقدسہ میں کام کرنے کا یہ دوسرا سال تھا ورنہ گزشتہ برسوں میں خیموں کا انتظام معلمین کیا کرتے تھے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نے منی اور عرفات میں حجاج کے لئے کھانے اور واش رومز کے ناکافی انتظامات کی سعودی وزیر حج سے شکایت کی ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر مذہبی امور نے قوم کو یہ خوش خبری دی ہے آئندہ سال حج کرنے والوں کو حج واجبات ڈالر میں ادا کرنے ہوں گے سوال ہے کیا یہ ممکن ہے کئی عشروں سے پاکستانی کرنسی میں واجبات ادا کرنے والے عازمین حج کو ڈالر میں واجبات ادا کرنے پڑیں گے۔ اس کے ساتھ سعودی حکومت نے آئندہ برس حج انتظامات کے حوالے سے پروگرام پہلی مرتبہ حج ختم ہوتے ہی کر دیا ہے جس کے مطابق آئندہ سال فروری میں منی کے حج انتظامات کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔ نئے انتظامات میں اگلے سال حج میں حاجیوں کو منیٰ اور عرفات میں اپنی پسند کے خیموں میں قیام کی اجازت ہوگی اور آئندہ سال نو مئی سے عازمین حج کی پروازیں سعودی عرب پہنچنا شروع ہو جائیں گی۔ درحقیقت سعودی حکومت نے حج و عمرہ کو سیاحت کا درجہ دے دیا ہے ورنہ ماضی قریب میں حج و عمرہ زائرین کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے کسی دوسرے شہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی لیکن گزشتہ دو سال سے زائرین کو سعودی عرب کے کسی شہر میں بھی جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ سعودی حکومت کا یہ معمول رہا ہے وہ حج انتظامات بارے بہت پہلے سے منصوبہ بندی کر لیتی ہے۔2019کے مقابلے میں رواں سال حجاج کی تعداد خلاف توقع بہت کم رہی ہے کرونا سے قبل 25لاکھ عازمین حج نے فریضہ حج کی سعادت حاصل کی اس کے برعکس دو سال کے وقفے کے بعد حجاج کی تعداد بہت زیادہ ہونی چاہیے تھی لیکن امسال سولہ لاکھ عازمین حج نے حج کی سعادت حاصل کی جس میں سے دو لاکھ سے زائد داخلی حجاج تھے۔ دراصل حج کے ہر سال بڑھتے ہوئے اخراجات اور سعودی حکومت کی طرف سے حج و عمرہ زائرین پر بغیر احرام مطاف میں طواف کی پابندی اور مدینہ منورہ میں روضہ اقدس سے متصل ریاض الجنہ میں وقت کی پابندی حجاج کی تعداد کی میں کمی کا باعث بنی ہے۔ ایک عازم حج ہزاروں میل مسافت اور لاکھوں کے اخراجات برداشت کرنے کے باوجود مطاف میں بغیر احرام نفلی طواف کرنے سے محروم رہ جائے تو اس کی ذہنی کفیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ورنہ حج و عمرہ زائرین کا معمول رہا ہے وہ ہر نماز کے اختتام پر نفلی طواف کرتے تھے مگر اب بوڑھے اور نوجوان زائرین کا خیال رکھے بغیر انہیں مسجد الحرام کی تیسری چھت پر طواف کے لئے جانا پڑتا ہے۔ حج و عمرہ زائرین کی بڑی تعداد کی خواہش ہوتی ہے وہ دن رات مسجد الحرام میں ٹھہر کر عبادات کر سکیں مگر اب انہیں اس بات کی بھی اجازت نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں سعودی حکومت نے حج و عمرہ کا سیاحت کا درجہ دے دیا ہے جس کی واضح مثال سعودی عرب کے دیگر شہروں میں زائرین کو جانے کی اجازت اور میدان عرفات میں جبل رحمت کے قریب جدید سہولتوں سے آراستہ کمروں کی تعمیر اس امر کی غماز ہے سعودی حکومت نے حج جیسی عبادت کے ساتھ سیاحت کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔عرفات میں امسال ایک دن قیام کا کرایہ ایک لاکھ ریال مقرر تھا۔ سعودی حکومت نے حج انتظامات میں عثمانی عہد سے چلے آنے والے معلمین کے نظام میں یکسر تبدیلی کر دی ہے۔ وہ معلمین جن کے آباواجداد کئی سو سال پہلے دنیا کے دوسرے ملکوں سے مکہ مکرمہ آئے تھے اور انہیں سعودی شہریت دے دی گئی تھی ان کی اجارہ داری کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔





