سویڈن کی ناپاک جسارت اور عالم اسلام

یاور عباس
اہل مغرب ہمیشہ سے ہی مسلمانوں کی دل آزاری کرنے کے حیلے بہانے تراشتے رہتے ہیں اور شاید ہی کوئی سال ایسا گزرا ہوا جس میں انہوںنے مسلمانوں کے مقدسات کی توہین نہ کی ہو، عالم اسلام میں اشتعال پھیلا کر امت مسلمہ کے جذبہ ایمانی کو چیک کیا جاتا ہے ، ایسے واقعات عالمی امن کے لیے نقصان دہ ہیں، عالمی شرپسندوں کی جانب سے گستاخانہ حرکتیں کر کے دنیا کا امن تباہ کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے، سویڈن میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے قرآن پاک کی منظم منصوبہ بندی کے تحت کوشش کی گئی اور یہ واقعہ ایسے موقع پر پیش آیا جب آج سے 14سو سال پہلے اسی روز پیغمبر اسلام خاتم النبین حضرت محمدؐ نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر دنیا کو امن کا پیغام دیا ، مسلمانوں کو اخوت، مساوات، رواداری اور بھائی چارے کا درس دیا اور دنیا کو پیغام دیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تقویٰ اختیار کرنے والے کو اہمیت ہے، کسی عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر، یا کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، جس دن مسلمان اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی راہ میں نہ صرف جانور قربان کر رہے ہوتے ہیں بلکہ یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم الہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینگے اور اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید جو دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ہدایت کا درس دیتی ہے اس کتاب کی شان میں گستاخی کرنا درحقیقت امت مسلمہ کے جذبات مجروح کرنا ہیں ۔ اقوام متحدہ اور عالمی امن کے ٹھیکیداروں کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر قانون سازی کرنی چاہیے ۔
سویڈن میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر ایک بدبخت کی جانب سے کی جانب والی یہ مذموم حرکت کی خبر عالم اسلام میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور دنیا بھر کے مسلمان اس واقعہ پر سراپا احتجاج بن گئے، او آئی سی نے جدہ میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا، دنیا کے مختلف ممالک میں سویڈش سفارت خانوں کے باہر احتجاج ہوئے ، سویڈش سفیروں کو اسلامی ممالک کی حکومتوں نے طلب کیا اور احتجاج ریکارڈ کرایا ۔ ایران نے سویڈن میں اپنا سفیر بھیجنے کا فیصلہ معطل کر دیا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی مگر شاید اہل مغرب کو بات سننے کا یہ انداز پسند نہیں۔ اسلامی ممالک کا محض احتجاج کر دینا کافی نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ میں یہ کیس لڑنا چاہیے اور ماضی میں بھی ایسی گستاخیاں کرنے والوں کو عبرتناک سزائیں دلوانا چاہیے اور توہین مذہب کے قوانین عالمی سطح پر منظور کروانا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی ایسی جسارت نہ کر سکے ۔
پاکستان میں اس واقعہ پر ماضی کی طرح ردعمل نہیں آیا۔ احتجاج اگرچہ جمہوری حق ہے مگر احتجاج کی آڑ میں اپنے ہی شہریوں کی املاک تباہ کرنا ،گاڑیوں توڑنا، سکیورٹی اہلکاروں پر تشدد کرنا جیسے واقعات بالکل نہیں ہونے چاہیے اگر حکومتیں موثر احتجاج کریں تو شاید عوام کے جذبات اور غصہ میں قدرے کمی واقع ہوسکتی ہے مگر جب ہماری حکومت بے حس ہوجاتی ہے، احتجاج صرف مذمتی بیانات کی حد تک ہوتے ہیں تو پھر عوام کا غصہ بڑھ جاتا ہے، سویڈن میں ہونے والے واقعہ پر بھی ہماری حکومت نے کوئی موثر کارروائی نہیں کی، اگر دیکھا جائے تو یہ سانحہ 9مئی سے کہیں زیادہ ہے مگر ہماری حکومت نے ابھی تک پارلیمنٹ میں قرارداد بھی پیش نہیں کی ، سفارتی سطح پر احتجاج نہیں کیا ۔ قرضے لینے کے چکر میں واقعی ہم بھکاری بن چکے ہیں جو موثر احتجاج بھی نہیں کر سکتے ؟، ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم دنیا بھر کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر خاموش ہیں اور اپنے مقدسات کی توہین کرنے والوں کے خلاف بھی کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ، ہماری معاشی اور اقتصادی حالت کی بدولت دنیا کو ہمارے ایٹم بم سے شاید کوئی خطرہ باقی نہیں رہا ؟ سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے مفاد کے لیے تو سڑکوں پر نکل آتی ہیں مگر جب دین کی ناموس کا معاملہ آیا ہے تو صرف مذمتی بیانات۔ ریاست پاکستان کو چاہیے کہ فوری طور پر سویڈش سفیر کو طلب کرے ، احتجاج کرے اور سویڈن میں موجود پاکستانی سفیر کو واپس بلائے اور ان کے ساتھ اقتصادی و سفارتی بائیکاٹ کرے ۔
اہل مغرب کی گستاخیوں کی روک تھام کے لیے عالم اسلام کو چٹان کی طرح متحد ہونا پڑے گا ، کسی مضبوط اسلامی لیڈر کی قیادت میں ایک نکاتی ایجنڈا پر اپنے تمام اختلافات ختم کرکے اہل مغرب کو مشترکہ پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے ، مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے والے ملک کے خلاف اگر تمام اسلامی ملک متحد ہوکر ان کے ساتھ سیاسی ، معاشی ، اقتصادی اور سفارتی تعلقات ختم کر دیں تو وہ ملک بہت جلد گھٹنوں پر آسکتا ہے، صرف بیانات کی حد تک احتجاج کرنے سے شاید ان کی صحت پر کوئی فرق نہ پڑے۔ عالم اسلام کو چاہیے کہ وہ پالیسی بنالیں کہ دنیا بھر میں کسی بھی جگہ مسلمانوں پر ظلم و ستم ہوتو اس کا موثر جواب دیں اور کشمیر ، فلسطین سمیت دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان حق خود ارادیت کی جنگ لڑ رہے ہیں تمام اسلامی ممالک ان کا عملی طور پر ساتھ دیں اور انہیں آزادی دلائیں ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
او آئی سی کو یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ اگر اقوام متحدہ مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے اور کفار کی لونڈی کا کردار کرتی رہے گی تو پھر ایسے اقوام متحدہ میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ مسلمانوں کو الگ سے اپنی اسلام متحدہ بنا لینی چاہیے۔





