ColumnM Riaz Advocate

قاضی بنام قاضی القضا

محمد ریاض ایڈووکیٹ

فقہ اسلامی کی اصطلاح میں چیف جسٹس کو قاضی القضا کہا جاتا ہے۔ امام ابو یوسف تاریخ اسلام میں پہلے شخص ہیں جنہیں قاضی القضا بنایا گیا تھا۔ یقینی طور پر چیف جسٹس کا عہدہ بہت ہی اہمیت و احترام کا متقاضی ہے۔ پاکستان میں چیف جسٹس صاحبان کی تاریخ نہ تو اتنی روشن ہے اور نہ ہی اتنی تاریک۔ اس عظیم منصب پر براجمان کئی افراد نے آئین و قانون کی پاسداری میں اپنا نام منوایا۔ وہیں پر کئی نظریہ ضرورت کے بانی جسٹس منیر کی طرح بدنامی کے استعارے کے طور پر تاریخ رقم کر گئے۔ ماضی قریب میں بابا رحمتا فیم یعنی جسٹس ثاقب نثار نے تو جوڈیشل ایکٹوازم کی انتہا ہی کردی۔ آئین و قانون کی حکمرانی پر یقینی رکھنے والے حلقوں کے نزدیک سب سے سینئر اور نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اک نئی اُمید سحر بن کر سامنے آئے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں دیئے گئے فیصلے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چاہے سال 2015میں ملٹری کورٹس کا اختلافی فیصلہ ہو یا پھر سال 2017میں فیض آباد دھرنے کے مقدمہ کا فیصلہ۔ ان فیصلوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے غیر سیاسی قوتوں کے آئین و قانون کے برخلاف سیاسی و عدالتی کردار پر سوالیہ نشانات اُٹھائے تھے۔ اور تجزیہ کاروں کے نزدیک شاید انہی وجوہات کی بناء پر قاضی فائز عیسیٰ کافی عرصہ سے زیر عتاب ہیں۔ موجودہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور میں قاضی فائز عیسیٰ کیساتھ عدالتی فورم میں جس طرح کا ناروا سلوک رواں رکھا گیا ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ جس کا اظہار قاضی فائز عیسیٰ نے متعدد مواقع پر بھی کیا ہے۔ ابھی حال ہی میں 9مئی کے تناظر میں سول افراد کے ملٹری کورٹس کارروائی کے خلاف آئینی پٹیشنز کے تحت ہونے عدالتی کارروائی میں بھی قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک، پارلیمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے درمیان ہونے والی کھینچا تانی کا نہ صرف برملا اظہار کیا بلکہ چار صفحات پر مشتمل نوٹ بھی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر شائع کر دیا۔ بظاہر یہ نوٹ قاضی بنام قاضی القضا ہے۔ اور یہ نوٹ چند منٹس کے بعد ہی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔ یہ نوٹ کس کے حکم کے تحت ہٹایا گیا اس سوال کا جواب قارئین کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ اس تحریر میں قاضی فائز عیسیٰ کے نوٹ میں درج تمام اٹھارہ نکات کا اندراج بہت مشکل ہے، بہرحال حوالہ کے طور پر چند نکات کا تذکرہ کیا جائے گا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ عدالت عظمی میں رواج رہا ہے کہ بینچ کی تشکیل اور دیگر امور میں سینئر جج سے مشورہ لیا جاتا تھا اور اسی طریق کار کے مطابق پچھلے چیف جسٹس گلزار احمد چلتے رہے اور متواتر معزز جسٹس عمر عطا بندیال سے نہ صرف مشاورت کرتے تھے بلکہ تقریبا ہر آئینی اور اہم مقدمے میں بینچ کی سربراہی کی ذمہ داری انکو دی یا انہیں بینچ کا حصہ ضرور بناتے۔ تاہم جب سے جسٹس عمر عطا بندیال نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا، تو اس روایت کو ترک کر دیا اور نہ صرف مجھ سے، بلکہ اگلے سینئر جج جسٹس سردار طارق مسعود سے مشاورت کے بغیر تمام ضروری معاملات اپنی ہی مرضی سے یا اپنے چنیدہ اہلکاروں کے ذریعے چلائے۔ باقی ججوں کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا کہ اپنے دور منصبی میں ایک بار بھی فل کورٹ یعنی تمام ججوں کی میٹنگ نہیں بلائی مگر مدعیان اور انکے وکلاء کو ترجیح بھی دی۔ قاضی فائز عیسیٰ نے مزید لکھا کہ معزز چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے معزز ساتھی ججوں کو بلاوجہ ایک غیر ضروری کشمکش میں الجھا دیا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا انکے مطابق سپریم کورٹ کے سربراہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ نہایت احترام سے مجھے یہ کہنے پر مجبور کیا گیا کہ عدالت عظمیٰ جیسا آئینی ادارہ کسی فرد واحد کی مرضی سے نہیں چل سکتا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں بار بار سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023کا حوالہ دیا، جس کے تحت سپریم کورٹ کے بینچ بنانے کے لئے اس قانون کی دفعہ 2کا اطلاق چیف جسٹس اور دو سیئنر ترین
ججوں پر ہوتا ہے۔ جبکہ چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 پر حکم امتناعی جاری کیا ہوا ہے۔ نہایت احترام سے مجھے یہ کہنے پر مجبور کیا گیا کہ عدالت عظمیٰ جیسا آئینی ادارہ کسی فرد واحد کی مرضی سے نہیں چل سکتا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے مزید لکھا کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض ججوں کے فیصلوں کو رجسٹرار مسترد کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ رجسٹرار عشرت علی نے 31مارچ کو ایک سرکلر جاری کیا جس میں قرار دیا کہ ایک فیصلہ جس کا منصف میں تھا نظر انداز یعنی disregardکیا جائے۔ تذلیل کے لئے رجسٹرار نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل اور تمام ایڈوکیٹ آن ریکارڈ سمیت 21افراد اور اداروں کو اپنے جاری کردہ سرکلر کی نقول بھیج دیں اور یہ کہ سپریم کورٹ کی ہر رجسٹری میں نوٹس بورڈ پر لگایا جائے۔ اسی طرح پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے ملٹری کورٹس کے حوالے سے ایک ہی طرح کے معاملات میں بطور وزیر اعظم اور بطور اپوزیشن لیڈر انتہائی مختلف انداز کو بھی اجاگر کیا ۔ انہوں نے لکھا کہ اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ موجودہ آئینی درخواستوں سے ملتے جلتے امور 26 مقدمات عدالت عظمیٰ کے سامنے پہلے سے دائر شدہ ہیں۔ جن کے فیصلے ہونا ابھی بھی باقی ہیں۔ مقدمات پشاور ہائیکورٹ کے 17اکتوبر 2019کے فیصلے کے خلاف دائر کئے گئے تھے۔ پشاور ہائیکورٹ فیصلہ کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی جب موجودہ مقدمے میں درخواست گزار نمبر 4یعنی عمران خان اُس وقت وزیراعظم کی حیثیت سے وفاقی حکومت کے سربراہ تھے۔ یاد رہے پشاور ہائیکورٹ نے ملٹری کورٹس میں دی جانے والی سزائوں کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ اس فیصلہ کے خلاف عمران خان حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی اور آج عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر ملٹری کورٹس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کئے ہوئے ہیں۔ بطور قانون کے طالب علم قاضی فائز عیسیٰ کا اٹھارہ نکات پر مشتمل نوٹ پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہے۔

جواب دیں

Back to top button