Column

قرض مل گیا، حکومت خوش ، عوام پریشان

یاور عباس

عید کے دوسرے روز وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اپنی دیگر حکومتی ٹیم کے ہمراہ لاہور میں قوم کو خوشخبری سنائی کہ آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی قرض 3ارب ڈالرز 9ماہ کی مدت کے لیے ملنے کا معاہدہ ہوگیا ہے ، حکومت نے اس قرض کی رقم کو تاریخی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ ملک ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے ، یعنی ایک ہفتہ پہلے تک اگر کوئی حکومتی ناقد ملک ڈیفالٹ ہونے کی بات کرتا تھا تو اس ملک دشمن قرار دیتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ مایوسی پھیلا رہے ہیں اور پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے کا کوئی خطرہ لاحق نہیں مگر اب حکومت نے خود ہی تسلیم کر لیا کہ ڈیفالٹ کا خطرہ موجود تھا، زیادہ پیچھے نہ بھی جائیں، پی ٹی آئی دور حکومت میں جب آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے معاہدہ کیا گیا تو اس وقت کی اپوزیشن اور موجودہ حکومتی وزراء نے اس وقت موقف اختیار کیا کہ ملک آئی ایم ایف کے آگے بیچ دیا گیا ہے، حکومت ایک ارب ڈالر کے آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر ہوگئی ہے ، آئی ایم ایف سے قرض کو ملکی معیشت کی تباہی اور غریب عوام پر مہنگائی بم گرانے کے مترادف قرار دیتی رہی مگر پی ڈی ایم جماعتوں کو شاید یہ یقین نہیں تھا کہ کبھی ہم بھی حکومت میں آسکتے ہیں اور ہمیں بھی آئی ایم ایف کے آگے سے ڈھیر ہی نہیں ہونا پڑے گا بلکہ ناک کی لکیریں بھی نکالنی پڑیں گے ۔ حکومتی وزراء کے ماضی کے بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں اور سوشل میڈیا پر وہ کلپ وائرل بھی ہورہے ہیں اس لیے سیانے کہتے تھے کہ پہلے تولو پھر بولو، ماضی میں جس عمل کو ملکی تباہی کی علامت کہا گیا آج اسی عمل کو ملک کی خوشحالی ، سلامتی اور نا جانے کیا کیا ثمرات گنوائے جارہے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خاں نواز شریف کے دور حکومت میں اعلانات کرتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا ، خودکشی کر لوں گا مگر قرض نہیں لوں گا لیکن حکومت ملنے پر انہیں بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا اور قرض لینا پڑا ۔ سیاستدانوں کو ذمہ دارانہ بیانات دینا چاہیے اور مخالفت برائے مخالفت کی بجائے قوم کو حقیقت سے آگاہ کرنا چاہیے ۔ آئی ایم ایف کے قرض کے بدلے حکومت نے کیا معاہدے کیے ہیں ان کی تفصیلات حکومتی پلیٹ فارم سے تو جاری نہیں کی جارہی البتہ سوشل میڈیا پر وائرل خبروں کے مطابق حکومت نے لاہور ، اسلام آباد ایئر پورٹ ، اسلام آباد تا چکوال موٹر وے گروی رکھ
دی ہے، اسلام آباد ایئرپورٹ سے متعلق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے جب حامد میر نے اپنے پروگرام میں سوال کیے کہ اسے لیز پر دے دیا گیا ہے تو وزیرخزانہ نے انکشاف کر دیا کہ نہیں گروی رکھا ہے، اس کے علاوہ کراچی پورٹ کو ابوظہبی کے حوالے کرنے اور سٹیل ملز کو روس کے حوالے کرنے کی خبریں زیر گردش ہیں ، تاحال کسی بھی حکومت ذرائع نے ایسی خبروں کی تردید نہیں کی۔ ویسے بھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ ماہ ہی اعلان کیا تھا کہ ہم ڈیفالٹ نہیں ہوسکتے کیونکہ ہمارے پاس کھربوں ڈالرز کے اثاثے موجود ہیں تو اس پالیسی کے مطابق ان کی نظر اب ملکی اثاثوں پر ہے حکومت جانے کے بعد ہی پتہ چلے جائے گا کہ موجودہ حکومت کیا کیا کارروائیاں ڈال گئی ہے اور قوم کو اس کا خمیازہ کس کس شکل میں بھگتنا پڑے گا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت جس نے ماضی میں قرض اتارو ملک سنوارو کا نعرہ لگایا ، اربوں روپے فنڈز اکٹھے کیے جن کا آج تک کوئی حساب نہیں ہوا کہ وہ پیسے کتنے اکٹھے ہوئے کہاں گئے بلکہ مسلم لیگ ن نے ماضی میں بھی اپنے دور حکومت میں اربوں ڈالرز کے قرض بڑھائے اور اب پھر ملکی خزانہ پر قرضوں کا بوجھ ڈال کر جانے والے ہیں اور یوں قرض اتارو ملک سنوارو سے قرض لائو ملک بچائو کی پالیسی پر آگئی ہے۔ آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالرز کے قرض ملنے پر حکومت اور اس کے اتحادیوں میں تو خوشی کی لہر دوڑ
چکی ہے اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ ہم نے سیاست نہیں ریاست بچائی ہے ، حالانکہ ترقی کرتے ملک کو ریورس گئیر پی ڈی ایم کی حکومت نے ہی لگایا ہے اور ہر شعبہ کا گراف تیزی سے نیچے گرا، مہنگائی مکائو مارچ کے ذریعے ماضی میں 11فی صد شرح مہنگائی پر چیخیں مارنے والے ممبران اسمبلی اور اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں عوام کو ریلیف دینے کے لیے تجربہ کار لوگ جب عدم اعتماد کر کے حکومت میں آئے تو مہنگائی کی شرح 40فیصد تک لے آئے مگر نہ کسی کوئی مہنگائی نظر آئی نہ ہی پی ڈی ایم جماعتوں میں سے کسی نے مہنگائی مکائو مارچ کا اعلان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں عوام سے کوئی ہمدردی نہیں تھی بلکہ اپنے کیس ختم کرنے ، خزانہ خالی کرنے کے لیے اقتدار میں آئے تھے اور اپنے مشن پر انہیں کامیابی مل گئی ۔ عوام تو اب بھی مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے ۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے حکومت نے بجٹ کے بعد مزید 215ارب روپے کے ٹیکسز کا اضافہ کردیا ہے جس سے یقینا مہنگائی کا سیلاب آئے گا اور غریب عوام کا بھرکس نکلے گا ، ملک تو ڈیفالٹ سے بچ جائے گا مگر غٗریب عوام ڈیفالٹ کرچکے ہیں انہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف سے قرض ملنے پر جہاں خوشخبریوں کے ترانے گائے وہیں قرض بڑھنے پر خدشات کا اظہار بھی کیا اور اشرافیہ کو پیغام دیا کہ اب قربانی دینے کا وقت آگیا مگر شاید وہ یہ بھول گئے کہ اشرافیہ کو تمام مراعات انہیں کی زیر سایہ نہ
صرف دی جارہی ہیں بلکہ بڑھائی جارہی ہے ، ابھی ایک ہفتہ قبل ہی تو خصوصی طیارہ کے ذریعے صدر مملکت سمیت 50سے زائد اشرافیہ کے لوگوں کو مفت حج کے لیے بھیجا گیا، چیئرمین سینیٹ کی ریٹائرمنٹ کے بعد کئی گنا مراعات بڑھانے کا بل پاس کیا گیا ، وزیر اعظم اگر چاہئیں تو تمام سرکاری افسران کو بجلی، پٹرول، گیس، الاونسز وغیرہ بند کر کے اربوں روپے قومی خزانے میں بچت کر سکتے ہیں اپنی کابینہ کا سائز کم کر کے قومی خزانہ کمزور ہونے سے بچا سکتے تھے مگر اس طرح ان کی حکومت کیسے چلتی، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو کی دھمکی پر سیلاب زدگان کی مدد کے لیے خطیر رقم مختص کردی گئی مگر یہ وقت طے کرے گا کہ سیلاب زدگان کے لیے گھر بنیں گے یا پھر یہ پیسہ الیکشن پر خرچ کر دیا جائے گا۔ آئی ایم سے قرض ملنے پر یقینا حکمران بہت خوش ہیں کہ ان کے بے شمار مسائل حل ہوجائیں گے مگر عوام پریشان ہیں کہ یہ قرض اتارے گا کون ؟۔

جواب دیں

Back to top button