Column

دھوتی سلامی کی تیاری جاری

سیدہ عنبرین

آئی ایم ایف سے نکاح کا فیصلہ تو بہت پرانا ہے اس میں گھر کے تمام بزرگوں کی مرضی شامل تھی لیکن دولہا والے نہیں مان رہے تھے، ان تک خبریں پہنچیں تھیں کہ لڑکی کا چال چلن درست نہیں، وہ پھوہڑ ہے، ہٹ دھرمی اس کے مزاج کا حصہ ہے۔ صبح جو بات کہے گی شام اس سے پھر جائے گی، ایک طرف ایک کے ساتھ نکاح کے بندھن میں بندھنا چاہتی ہے تو دوسری طرف سائیڈ پروگرام کے طور پر مختلف لوگوں کے ساتھ اکھ مٹکا جاری ہے، انہیں بھی مختلف لارے دے رکھے ہیں، اپنے ملک، اپنے لوگوں اور اس کی فلاح و بہبود کے کاموں میں دل نہیں لگتا جبکہ سرحد پار بسنے والوں کی روٹیوں کا انتظام، ان کے آرام و آسائش کا خیال ترجیح اول ہے، عام سی شکل و صورت پر نخرے ہزار ہیں، مہنگی گاڑیاں، سامان آرائش، محلات جیسے گھر، شادی بیاہ کی تقریبات میں لاکھوں روپے کے زیورات و اخراجات، خواجہ سرائوں کے خاص طور پر اور رقاصائوں کے عام شام مجروں پر لاکھوں روپے لٹانا بچپن کا شغل، ہر بات میں بناوٹ، ہر بات میں جھوٹ، شخصیت کا اہم جزو بن چکا ہے، وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بنانا نہیں بلکہ باپ کا باپ بنالینا اور مشکل وقت گزرنے پر طوطے کی طرح آنکھیں پھیرنا عادت ہے، ہر سال بجٹ سے قبل کشکول اٹھا کر ہر دروازے پر پہنچنا اور احسان جتانا کہ کشکول میں کچھ ڈالو کیونکہ میں نے فلاح وقت تمہیں مسکرا کے دیکھا تھا، انکار کی صورت یاد دہانی کرانا کہ دیکھو مجھے خالی نہ لوٹائو دنیا کیا کہے گی ہم ایک دوسرے سے انسانیت کے علاوہ ایسے رشتے میں جڑے ہیں جو رنگ و نسل اور زبان کے رشتے سے زیادہ مضبوط ہے، کسی کو یقین دلانا کہ ہماری دوستی ہمالہ کی چوٹیوں سے بلند اور سمندروں سے زیادہ گہری ہے جب انہوں نے درجنوں مرتبہ اس محبت کے جال میں پھنسنے کے بعد انکار کرنا چاہا تو بتایا گیا کہ ہماری دوستی اب شہد سے زیادہ میٹھی بھی ہوچکی ہے۔
جس شخص تک یہ تمام تفصیلات خرافات پہنچ چکی ہوں وہ اپنی آنکھوں سے بہت کچھ دیکھ چکا ہو، سن چکا ہو، وہ اس عقد پر کیونکر راضی ہوگا بس یہی مشکل تھی، اب ہمسایوں کو بیچ میں ڈالا گیا ہے جن کی گارنٹیوں پر کچھ مثبت اشارے ملے ہیں کہ چند روز نہیں تو چند ہفتے میں یہ نکاح ہوجائے گا، نکاح نامے پر جب تک فریقین و گواہان کے ساتھ ساتھ نکاح خواں کے دستخط نہ ہوجائیں سب کچھ ہوا میں ہوتا ہے، دولہا والوں کو نکاح پر راضی کرنے کا کریڈٹ جناب وزیراعظم پاکستان کو دیا جارہا ہے جیسے وہ معاملات نکاح کے پی ایچ ڈی ہوں۔
واضح کر دیا گیا ہے کہ مدت نکاح نو ماہ ہوگی اس کے بعد چال چلن میں کوئی تبدیلی نظر آئی تو پھر کچھ سوچا جائے گا، ہمارے یہاں ہمیشہ کی طرح ایک خاص مدت چپ رہنے کے بعد پرانا مسئلہ نئے میوزک کے ساتھ شروع ہوجائے گا۔
سال سے زیادہ ریاضت، مغز ماری، منت، ترلہ پروگرام اور کھردری پتھریلی زمین پر پشت رگڑنے کے بعد فقط تین ارب ڈالر دینے کا کہا گیا ہے، اس سے قبل کئی سو ارب کے نئے ٹیکس لگا دیئے گئے ہیں۔ اسلام آباد کی خواہش ہے کہ اس عظیم کامیابی پر گھر گھر گھی کے چراغ جلائے جائیں تاکہ ان کی دلفریب روشنی میں گھر کی مفلوک الحالی پر پردہ پڑ جائے اور خوشی میں جلائے جانے والے پٹاخوں کی آواز میں بھوک و مہنگائی سے دم توڑتے، دوائیوں کو ترستے، آٹے کی لائنوں میں لگے، لگژری گاڑیوں کے بھاری ٹائروں کی زد میں آکر کچلے جانے والوں کی آہیں اور سسکیاں کسی کو سنائی نہ دیں۔
گھر کے حالات بہتر کرنے کیلئے نئے پنشن رولز آ رہے ہیں جبکہ سادگی اختیار کرنے کے دیرینہ کھوکھلے نعرے پر عمل کرنے کیلئے سینیٹ سے اس کے چیئرمین، ریٹائرڈ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمینوں کیلئے مراعات کا خصوصی بل پاس کرایا گیا ہے، سینیٹ جیسے معزز ادارے نے جب یہ بل پاس کیا تو ملک کی تمام محب وطن سیاسی جماعتوں کے ممبران نے اپنے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی محبت میں اس پر ایک لمحہ ضائع کئے بغیر دستخط کئے، صرف جماعت اسلامی نے اس پر اعتراض کیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے دل میں پاکستان اور اہل پاکستان کی محبت موجود ہے۔
مرکزی سرکار کے زیر استعمال کتنی گاڑیاں، ان کے پٹرول پر اٹھنے والے اخراجات کتنے ارب روپے کے ہیں یہ تو آپ کے علم میں ہے، اسی سے زائد افراد کی کابینہ کی تنخواہیں، الائونس، پروٹوکول پر اٹھنے والے اخراجات بھی کئی سو ارب روپے کے ہیں لیکن ان میں توازن برقرار رکھنے کیلئے وزیراعظم پاکستان بلا تنخواہ کام کرتے ہیں تاکہ خزانے پر مزید بوجھ نہ پڑے، انہوں نے متعدد مرتبہ فرمایا کہ ان کے نزدیک سیاست عبادت ہے، ان کے اس بیان کے بعد ملک بھر سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور ارکان پارلیمنٹ نے اسی انداز میں عبادت شروع کردی تھی جس کی جھلک ہمیں صورتحال میں نظر آتی ہے۔ ہماری برآمدات تیزی سے کم ہورہی ہیں جبکہ درآمدات کے حجم میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ نظر آرہا ہے۔
جاری سیزن میں پاکستان سے دنیا کے مختلف ممالک کو قریباً اَسی ٹن آم روزانہ ایکسپورٹ ہورہے ہیں جبکہ پندرہ ٹن روزانہ کے حساب سے چین کو کیکڑے سپلائی ہورہے ہیں، باقی رہا معاملہ چاول اور ٹیکسٹائل مصنوعات کا تو اس سے کچھ خاص گھرانوں میں دولت میں اضافہ ہورہا ہے، عام کسان کے تن پر کل بھی ململ کا پھٹا پرانا کرتہ اور لیرو لیر ہوئی دھوتی تھی آج بھی وہی ہے، حکومت چاہے تو دنیا کو کہہ سکتی ہے کہ امریکہ و یورپ کا کسان کھیتوں میں کام کرتے ہوئے جینز اور ٹی شرٹ جیسا گرم لباس پہننے پر مجبور ہے جبکہ ہمارا کسان ایئرکنڈیشنڈ لباس پہنتا ہے، انتخابات کے موقع پر کسان، مزدور اور غریب آدمی حکومت کو دھوتی سلامی پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن حکومت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیڑوں مکوڑوں کے ووٹوں سے حکومتیں تو نہیں بنتیں، اس کے اجزائے ترکیبی تو کچھ اور ہوتے ہیں، اس میں ہینگ اور پھٹکری نہیں لگتی لیکن رنگ چوکھا آتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button