Columnمحمد مبشر انوار

گمشدہ میراث کی تلاش

محمد مبشر انوار
فطرتاً انسان ہوس پرست ہے اور اس کی جبلت میں یہ خوبی ؍ خامی ؍ خواہش ہمیشہ موجود رہتی ہے کہ کسی بھی طرح وہ اپنے اور اہل و عیال کیلئے زیادہ سے زیادہ مال و زر، اقتدار و اختیار جمع کرے۔ بالعموم اس ہوس کی تکمیل میں انسان برے بھلے کی تمیز کھو بیٹھتا ہے اور اس کے نزدیک صرف اپنی خواہشات کی تکمیل ہی بنیادی اہمیت اختیار کر جاتی ہے، جس کیلئے وہ ہر پتن تیرنے کو تیار رہتا ہے۔ ایسے افراد بنیادی طور پر انتہائی ذہین و فطین ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کی یہ ذہانت و فطانت منفی سرگرمیوں میں زیادہ بروئے کار آتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ ان کے گردو پیش کا ماحول ان کی ذہانت و فطانت کو چالاکی و مکاری کا روپ دے دیتا ہے۔ دوسری طرف ایسے افراد جن کی پرورش و تربیت اچھے ماحول میں ہوئی ہو، جن کا باطن برے بھلے کی تمیز رکھتا ہو، دل میں خوف خدا ہو، ان کی نظریں آمدن کے بجائے، ذرائع آمدن پر رہتی ہیں اور وہ لقمہ حرام سے حتی الامکان گریزاں رہتے ہیں تاہم موجودہ نظام میں سو فیصد لقمہ حلال کمانا ازخود کاردارد ہوچکا ہے۔ بہرکیف! دنیاوی امور کی انجام دہی میں اب بظاہر ایسے افراد کی اکثریت دکھائی دیتی ہے جو ذرائع آمدن پر توجہ دیتے نظر نہیں آتے، البتہ ان میں ہر شخص کا انفرادی دائرہ کار مختلف ہے اور اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اکثریت ذرائع آمدن سے بے فکر ہوکر فقط دنیاوی مال و اسباب اکٹھا کرنے میں مصروف ہے۔ اختیار و اقتدار کی لالچ کرنے والوں میں بھی تقریباً یہی اصول، یہی قاعدہ، یہی ضابطہ کارفرما نظر آتا ہے کہ اقتدار و اختیار کے حصول میں مروجہ نظام کے برعکس جاکر، اقتدار کی ہڈیوں کو چچوڑنا معمولی بات دکھائی دیتی ہے، جبکہ پاکستان میں اقتدار کی منزل پانے کیلئے عوامی حمایت اب ثانوی سی بات دکھائی دیتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے موروثی سیاسی اشرافیہ اس حقیقت کو بخوبی جان چکی ہے کہ اقتدار کیلئے عوامی حمایت حاصل کرنا اب اتنا ضروری نہیں رہا جتنا کہ اپنے اردگرد ایسے افراد کی موجودگی ضروری ہے جو قانون شکنی کرنے میں تاک ہوں، قانون کی من پسند تشریحات کرنا جانتے ہوں، عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر عمل درآمد کو ڈھٹائی سے موخر کر سکیں، ’’ بڑوں‘‘ کی بیٹھکوں میں بندر بانٹ کرنے میں مہارت رکھتے ہوں، اگر ان خصوصیات کے حامل افراد آپ کے ساتھ ہیں تو اقتدار تک رسائی کوئی بہت زیادہ دور نہیں۔ اسی پر کیا موقوف پاکستان میں تو حالات اس سے کہیں زیادہ مختلف ہوچکے ہیں کہ اگر آپ کی رسائی بڑوں تک ہے تو عدالتوں سے سزا پانے کے باوجود آپ انتہائی سہولت کے ساتھ جیل کی سلاخوں سے براہ راست ہوائی اڈے پر تیار جہاز میں کامیابی کا نشان بناتے ہوئے سکون سے بیرون ملک سفر کر سکتے ہیں۔ یہ راستہ اپناتے ہوئے کسی سیاسی رہنما کو قطعاً عوامی حمایت کی کوئی فکر نہیں ستاتی کہ اس کے ووٹرز ؍ سپورٹرز اس کے متعلق کیا سوچیں گے، یا کس طرح کا ردعمل دے سکتے ہیں،
کہ جب اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہونے کیلئے عوامی حمایت ضروری ہی نہیں ٹھہری تو پھر عوام کے جذبات و احساسات کے متعلق کیا سوچنا؟ علاوہ ازیں! اندھے مقلدوں کی معتد بہ تعداد ایسی موجود ہے جو مسلسل پراپیگنڈا مہم چلاتے ہوئے ان سیاسی رہنمائوں کو ہی پاکستان کا نجات دہندہ ثابت کرنے پر تلی رہتی ہے، ایسے ایسے بلنڈر کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ الامان الحفیظ، اپنی کل کی کہی ہوئی باتوں کی شدت کے ساتھ نفی کرنے کا حوصلہ ان اندھے سیاسی مقلدوں کیلئے ہی ممکن ہے۔ پیپلز پارٹی کے متعلق کسی زمانے میں یہ کہا جاتا تھا کہ یہ حقیقتاً عوامی سیاسی جماعت ہے، جو عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ کرنا چاہتی ہے، قائد عوام کا جوش و جذبہ دیدنی ہوا کرتا تھا کہ کس طرح عوامی اجتماعات میں عوامی انداز اپناتے اور عوام کو اپنے ساتھ شامل رکھتے۔ اس عوامی حمایت، پاکستان کی ترقی کیلئے کی گئی ان کی کوششیں ( اپنے تئیں کہ اکثریت کا یہ خیال ہے کہ صنعتی ترقی کرتے ہوئے پاکستان کی بنیادیں ہلانے میں بھٹو کا بنیادی کردار رہا ہے، گو کہ اس کی مخالفت میں بھی دلائل موجود ہیں لیکن یہاں یہ موضوع بحث نہیں) کی بنیاد پر قائد عوام کا یہ گمان رہا کہ ان کے اقتدار کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ جبکہ ماضی قریب میں شیخ مجیب اپنی عوامی حمایت کے باعث، جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے اور دیگر عالمی عوامل کے پس منظر میں اپنا الگ وطن بنا چکے تھے اور بھٹو نے اس عرصہ میں پاک فوج پر لگنے والی شکست کی سیاہی کا داغ دھونے کی اپنے تئیں بھرپور کوشش کی تھی، اس کے باوجود بھٹو کا انجام انتہائی عبرتناک کیا گیا۔ عوام اس کی حمایت میں سڑکوں پر نکلے، خود سوزیاں کیں، کوڑے کھائے، جیلیں برداشت کیں لیکن عوام کی شنوائی پاکستان میں نہ ہوسکی اور ایک عالمی سطح کے لیڈر سے پاکستان کو جبراً محروم کر دیا گیا۔ اسی ہنگام میں جنرل ضیاء نے کیا کیا کوششیں نہیں کیں کہ کسی طرح بھٹو کی عوامی حمایت میں کمی لائی جاسکے، ایک طرف بھٹو کے ساتھیوں کو برضا و رغبت، لالچ، دھونس دھاندلی کے ذریعے الگ کیا گیا، پیپلز پارٹی کے حصے بخرے کرنے کی کوششیں کی گئیں تو دوسری طرف ظلم کی داستان نامی پروگرام میں بھٹو کے مظالم عکس بند کئے گئے لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ بھٹو کی عوامی مقبولیت میں کسی بھی طور کمی واقع نہ ہوئی، جنرل ضیاء نے اپنا دور اقتدار گیارہ سال تک طویل کئے رکھا، اس دوران غیر جماعتی انتخابات کے نتیجہ میں قوم کو مزید تقسیم کر دیا گیا اور نظریاتی سیاست کو مدفن کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ جنرل حمید گل نے پنجاب کو فتح کرنے کیلئے
بدنام زمانہ نعرہ ’’ جاگ پنجابی جاگ‘‘ دیا، پنجاب سے قیادت تیار کی گئی، پنجاب سے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کیلئے تما م تر ریاستی وسائل کو پنجاب سے ابھرنے والی نئی قیادت کے سپرد کر دیا گیا، اس پس منظر میں پنجاب کو بتدریج فتح کرلیا گیا۔ پیپلز پارٹی جتنا زور لگاتی، پنجاب میں اسے اتنے ہی دھچکے لگتے کہ پارٹی ورکر کیلئے اپنی بقا کو قائم رکھنا مشکل تر ہوگیا اور دوسرا ترغیب و تحریص اس پر غالب آگئی۔ پیپلز پارٹی کا وہ ورکر جو کسی بھی طور میاں نوازشریف کے ساتھ جانے کیلئے تیار نہیں تھا، وہ کسی تیسری سیاسی قوت کا منتظر رہا، جو حقیقتاً عوامی مسائل ؍ نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے، عوامی درماندگی کا درماں بنتا، قدرت نے ایسی قیادت عمران خان کے روپ میں پاکستانی عوام کو بخش دی۔ گو کہ اس دوران بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی بیرون ملک موجودگی نے عمران کیلئے حالات سازگار رکھے تو دوسری طرف گھاگ سیاسی قیادتوں کے اپنے قول و فعل کا تضاد، عمران نے کھول کر عوام کے سامنے رکھ دیا۔ اس پوسٹ مارٹم نے عمران خان کی مقبولیت کو دن دگنی رات چوگنی جلا بخشی اور عوام جوق در جوق عمران کے شانہ بشانہ آ کھڑے ہوئے، پیپلز پارٹی کا وہ ورکر جو کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھا، عمران کے ہم رکاب نظر آیا۔ پیپلز پارٹی کے ورکر کو تحریک انصاف میں دھکیلنے میں بہرطور صدر زرداری کا طرز عمل بھی نہیں بھلایا جا سکتا کہ قصر صدارت میں براجمان ہوتے ہی اور میثاق جمہوریت کی لاج رکھنے کیلئے، فرمایا کہ اب مفاہمت پر عمل درآمد ہوگا جبکہ سیاست انتخابات کے موقع پر ہوگی۔ زرداری کے اس ایک ارشاد نے پیپلز پارٹی پنجاب کے ورکر کیلئے کوئی دوسرا راستہ نہ چھوڑا کہ یا وہ سیاست سے الگ ہو جائے یا پھر تحریک انصاف کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔ اس میں زیادہ تیزی اس وقت دیکھنے میں آئی جب رجیم چینج آپریشن کے بعد تحریک انصاف کے ساتھ بعینہ وہی کچھ ہوا، جو کسی دور میں پیپلز پارٹی کو توڑنے کیلئے ہوا تھا، حکومت کی طرف سے مقدمات بھی ویسے ہی بنائے جارہے ہیں، پارٹی کو توڑنے کی کوششیں بھی ویسے ہی ہورہی ہیں، عمران کو اعصابی طور پر کمزور کرنے کیلئے بھی ہر حربہ بروئے کار لایا جارہا ہے، صحافیوں کی زبان بندی بھی کی جارہی ہے، لیکن اس کے باوجود عمران خان بعینہ ویسے ہی ڈٹ کر کھڑا ہے، جیسے بھٹو کھڑا تھا۔ قومی انتخابات میں اس وقت تاخیر کا امکان ہے کہ جب تک عمران کا معاملہ طے نہیں ہو جاتا جبکہ زرداری آشیرباد کے ساتھ پنجاب میں سیاسی دائو پیچ کم اور بندر بانٹ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ جیتنے والے امیدواروں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ تو کہیں جیتنے والے امیدواروں کو پیپلز پارٹی میں شامل کرنے کی کوششیں، اور یہ گمان کہ ان تمام تراکیب سے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے گمشدہ ووٹرز کی میراث کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، ایک خواب دکھائی دیتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button