انسانی سمگلنگ اور بڑھتے حادثات

ممتاز عباس شگری
حسیب الرحمان کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے، یہ نوجوان بھی ہے، باصلاحیت بھی اور ان کے پاس کچھ کر جانے کی جستجو بھی ہے۔ یہ اپنے علاقے میں مکینک کا کام کرتا تھا، مہنگائی اور بگڑتے حالات کی وجہ سے چلتا کام رکنا شروع ہوگیا، یہ خاندان کی کفالت بھی کرتا تھا، روزانہ کی بنیاد پر کمائے گئے چند پیسے گھر پہ ہی خرچ ہوتے تھا لیکن یہ اپنے حالات زندگی بہتر بنانے کے لیے مگن تھا، حالات سے تنگ آکر اس نے پاکستان چھوڑنے کا حتمی فیصلہ کیا، اس کے پاس دو راستے تھے، ایک یہاں بیٹھ کر حسب معمول اپنا کام کرتے کماتے کھاتے جائیں یا پاکستان کو خیر باد کہہ دیں تاکہ کسی بیرون ملک جا کر چند پیسے کما کر ماں باپ اور فیملی کو خوشحال زندگی دے سکوں۔ انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا، حسیب نے رخت سفر باندھا اور کراچی ایئر پورٹ سے یورپ کی طرف سفر شروع کیا، یہ کراچی سے دبئی، دبئی سے مصر اور مصر سے لیبیا گیا، لیبیا کے غازی ایئرپورٹ پر پہنچ کر حسیب سے ایجنٹ کی ملاقات ہوگئی۔ انہوں ان کو اپنے ساتھ ملا لیا اور دیگر افراد کے ساتھ ایک کنٹینر میں ڈال دیا، کنٹینر سمندر کنارے لایا گیا، دن بھر کنٹینر میں رکھنے کے بعد شام ساڑھے چار بجے گاڑی سے مرغیاں نکالنے کی طرح کسی کو بازو سے پکڑکر، کسی کو کپڑوں سے پکڑ کر باہر لایا گیا، ان کی پوری ٹیم نے اٹلی کے لیے سفر کرنا تھا، سب تیار ہوگئے اور تمام لوگوں کو ایک ساتھ ایک کشتی میں بھیڑ بکریوں کی طرح لاد دیا گیا اور کشتی روانہ ہوگئی، کشتی خراب تھی راستے میں بار بار بند ہوتی رہی، ایجنٹوں نے سٹارٹ کرتے کرتے چلانے کی کوشش کی۔ کشتی میں گنجائش سے زیادہ افراد سوار تھے،250افراد کی گنجائش والی جگہ میں750افراد کو سوار کیا گیا تھا، کشتی کا اندرونی تہہ خانہ بھی مسافروں سے بھر دیا گیا تھا۔ کشتی چلتی رہی، کشتی میں سوار شام، مصر، فلسطین اور پاکستان کے مسافر اپنے خوابوں کی تکمیل میں مگن نیند کی آغوش میں چلے گئے تھے لیکن انہیں کیا پتہ تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، ایجنٹ نے خراب کشتی کو اٹلی کے بجائے یونان کے ساحل پر لگا کر مسافروں کی جان بچانے کی کوشش کی، یونان کے ساحل پر پہنچتے پہنچتے خراب کشتی دھیرے دھیرے الٹنے لگی، مسافر گرنے لگے، ہر کوئی مدد کے لیے چیخنے لگا لیکن وہاں انکی مدد کے لیے کوئی نہیں تھا، لوگ اپنے خوابوں کو لیکر موت کی آغوش میں جانے لگے۔ کشتی میں ساڑھے تین سو پاکستانی بھی موجود تھے، ان میں سے بارہ افراد بچنے میں کامیاب ہوگئے باقی تمام افراد داغ اجل کو لبیک کہتے ہوئے سمندر میں ڈوب گئے، ان زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک کشمیر کا حسیب بھی ہے، حسیب کہتے ہیں جب ہماری کشتی خراب ہوگئی تو ایک کشتی آئی، میں نے مدد مانگی تو پانی اور بسکٹ فراہم کئے اور چلے گئے لیکن جب کشتی مکمل طورپر پانی میں ڈوبنے گی تو میں پانی کے اندر تیرنے لگا، ایک گھنٹے تک پانی میں تیرتا رہا لیکن جب ایک کشتی کو قریب سے گزرتے دیکھا تو مدد مانگی، انہوں نے ٹیوب نما رسی میری طرف پھینکا میں نے اسے پکڑ لیا تو میری جان بچ گئی۔ یہ اس حسیب کی کہانی ہے جو ملکی حالات سے تنگ آکر وطن کو الوداع کہہ کر چلے گئے تھے، اسی طرح کے ساڑھے تین سو حسیب اپنے خاندان کی بہتر کفالت کا خواب دیکھتے یونان کے ساحل پر سمندر کی پانی میں بہہ گئے ہیں۔
آپ یقین کر لیں ہم بحیثیت پاکستانی کسی چیز سے سبق نہیں سیکھتے، آپ کو یاد ہوگا آج سے پانچ ماہ پہلے اٹلی میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے سے59پاکستانی جان کی بازی ہار گئے تھے۔ یہ لوگ بھی غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونا چاہتے تھے اور سمندر میں ڈوب گئے، یونان کا حادثہ بھی اٹلی کے حادثے کا عکس ہے، اس کشتی میں موجود افراد بھی غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانا چاہتے تھے، کیوں؟ کیوں ہمارے ملک میں حکمرانوں نے حالات ایسے بنائے ہیں کہ اب غریب کے لیے دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہوگئی ہے، غریب غریب سے غریب تر اور امیر امیر سے امیر تر ہوتا جارہا ہے لیکن غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں، ان کوایک ہی حل سوجھتا ہے کہ اس ملک سے چھٹکارا پالیں، اسی میں ہی بھلائی ہے چاہے قانونی طریقے سے یا غیر غیر قانونی۔
آپ المیہ دیکھیں ہماری حکومت نے اٹلی میں اتنا بڑا حادثہ ہونے کے بعد بھی سبق نہیں سیکھا اور یونان کا حادثہ پیش آیا، حکومت اگر ایکٹو ہوتی، انسانی سمگلنگ کرنے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کرتے تو شاید یونان میں300پاکستانی نہ مرتے۔ انکی جان بچ جاتی لیکن ہم دھکا سٹارٹ قوم ہیں ہمیں کسی چیز پر ایکشن لینے کے لیے کسی سانحے کا انتظار رہتا ہے، ہم اٹلی حادثے کے بعد یونان کے حادثے کا انتظار کر رہے تھے جو پیش آ گیا۔ اس حادثے کے بعد حکومت کو ہوش آئی اور انسانی سمگلنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے لیکن آپ یقین کر لیں یہ کارروائی کچھ دنوں تک محدود ہوگی اور ہمارے سامنے پھر کسی بیرون ملک سے یہ خبر آرہی ہوگی کہ پاکستانیوں کی ایک اور کشتی سمندر میں تباہ ہوگئی اور ہم اس پر بھی ایک روزہ سوگ کا اعلان کر کے سب کچھ سمیٹ لیں گے۔
آپ شاید میری بات سے اتفاق کریں گے ملک کا بچہ بچہ وطن سے بے وطن ہوکر کسی دوسرے ملک میں زندگی گزارنے کیلئے مگن ہے کیوں؟ کیوں کہ ہماری حکومت کو صرف عوام کی کھال اتارنا آتی ہے، ٹیکسز لگانا آتے ہیں، مہنگائی کرنا آتی ہے اور بس، ان کے پاس نہ کوئی پالیسی ہے نہ کوئی پالیسی میکر، یہ ملک اوپر اللہ اور نیچے بسم اللہ سے چل رہاہے۔ آٹو گیئر کا ملک بن چکا جس دن بریک فیل ہو گا، اس دن ملک میں صرف سرکاری نوکری والے بچ جائیں، باقی سب اللہ حافظ کر جائیں گے۔





