Column

وادی نیلم کی سیر

یاور عباس
تعطیلات کے موقع پر دوستوں نے تفریحی پروگرام بنایا اور طے پایا کہ وادی نیلم ( آزاد کشمیر ) کی سیر کی جائے۔ راقم کے ہمراہ شیخ اسرار احمد، چودھری توصیف، محمد یونس اور وحید حسین بٹ تھے۔ رات 1بجے شاہین چوک گجرات سے ٹورسٹ گاڑی میں سوار ہونے کے لیے شدید گرمی کے موسم میں کنجاہ سے نکلے تو شاہین چوک گجرات پہنچ کر شدید طوفانی بارش کا سامنا کرنا پڑا اور یوں لگا کہ ہم وادی نیلم میں پہنچ بھی گئے ہیں، خیر تھوڑی دیر بارش تھمنے کا انتظار کیا اور گاڑی منزل کی طرف گامزن ہوئی، جی ٹی روڈ پر لالہ موسیٰ کے مشہور ہوٹل ’’ میاں جی ریسٹورنٹ ‘‘ پر چائے پانی کے لیے رُکے۔ جونہی کھاریاں کے قریب پہنچے تو پتہ چلا کہ تحریک لبیک پاکستان کے قافلے کو روک دیا گیا ہے، جہلم پل سے قبل خندق کھود کر اسلام آباد کو آنے اور جانے والے تمام راستے بلاک کر دئیے گئے ہیں۔ ہم سمیت سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مسافر جس اذیت، کرب اور پریشانی میں مبتلا تھے یہ ناقابل بیان ہیں، سیکڑوں مال بردار ٹرک سڑک کے دونوں اطراف کھڑے دکھائی دئیے۔ ان ٹرکوں میں بے شمار ایسے بھی تھے جن میں سبزیوں، فروٹ سمیت دیگر ایسی اشیا تھیں، جن کے خراب ہونے کی وجہ سے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے کا نقصان تاجروں اور اس ملک کو اُٹھانا پڑا۔ ویسے کراچی سے شروع ہونے والے’’ استحکام پاکستان ریلی ‘‘ کے کیا مطالبات تھے، حکومت سے کیا مذاکرات ہوئے، کون سے مذاکرات مانے گئے، ان کی اس ریلی سے پاکستان کتنا مستحکم ہوا ؟ ایسے بہت سارے سوالات ہیں جن کے جوابات مجھ سمیت بہت سارے پاکستانیوں کے ذہن میں ہیں، مگر شاید ریاست یا خود تحریک لبیک پاکستان عوام کو بتا نہ سکے، کیونکہ یہاں دین کے نام پر سیاست کی جاتی ہے اور اقتدار ملنے کے بعد بھی سیاسی جماعتیں دین کے لیے کوئی کام نہیں کرتیں، جیسے ابھی وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت ہے، جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہیں مگر ساری عمر اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کرنے کے دعوے کرنے کے باوجود اب وفاق میں ان کی حکومت ہے مگر اسلامی نظام کے نفاذ کی کوشش تو دور کی بات ہے مہنگائی، غربت ، بیروزگاری کے خاتمہ کا حالیہ بیانیہ اُلٹا گلے پڑگیا، مہنگائی پہلے سے بھی تین گنا بڑھ گئی۔ خیر ہم سمیت سبھی گاڑیوں نے کوئی تین چار سو کلو میٹر کا اضافہ سفر طے کرتے ہوئے سالم انٹر چینچ کے ذریعے اسلام آباد داخل ہونے کی کامیاب کوشش کی مگر جہلم پل پر یہ مناظر تقریبا چار روز تک دیکھنے کو ملتے رہے۔
سفر کے دوران کراچی سے کشمیر تک مختلف کمیونٹی کے لوگوں سے ملاقات کا موقع بھی ملا، ہماری گاڑی میں کراچی، سکھر، اوکاڑہ، لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، اسلام آباد کے لوگ بیٹھے تھے تو پاکستان کے مختلف صوبوں اور علاقوں کے لوگوں کے رسم و رواج اور ان کی خیالات و مسائل سے آگہی بھی ملی۔ ایک چیز قدرے مشترک تھی کہ سبھی لوگ عوامی استحصال کرنے پر حکمرانوں کو کوستے رہے۔ پاکستان جسے انگریز ’’ سونے کی چڑیا‘‘ کہتے تھے اور کشمیر جسے دنیا میں جنت کا ٹکڑا کہا جاتا ہے، چاروں قدرتی موسم اور خطے میں بے شمار معدنی وسائل ہونے کے باوجود ملک میں غربت اور آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑنے کی واحد وجہ 75سال سے اقتدار سے چمٹا کرپٹ مافیا ہے، وگرنہ لوگ صرف سیاحت کے لیے پاکستان کا رُخ کر لیں تو تمام معاشی مسائل کے گرداب سے نکلا جاسکتا ہے۔ اسلام آباد سے کے پی کے اور پھر آزاد کشمیر میں داخل ہوئے تو اس بات سے دل بہت خوش ہوا کہ پنجاب پولیس کے برعکس کے پی کے اور آزاد کشمیر کی پولیس کسی جگہ بھی پریشانی کا سبب نہیں بنی، کوئی چالان ہوا نہ ہی کسی کی مٹھی گرم کرنی پڑی۔ لائن آف کنٹرول پر مقبوضہ آزاد کشمیر کی آبادی میں ترنگا لہراتے دیکھا۔ شدید گرمی کے موسم سے ہم سرد علاقوں میں داخل ہورہے تھے قدرت کے حسین نظارے، دلکش وادیاں کسی نعمت سے کم نہیں مگر افسوس کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی اور لاقانونیت کی وجہ سے دنیا یہاں کا رُخ نہیں کر رہی وگرنہ لوگ سوئٹرز لینڈ کو بھول جائیں۔ جی بھر کر ہنسی مذاق چلتا رہا اور بالآخر ہم’ شاردہ ‘ پہنچ گئے جہاں ہم نے پہلی رات گزارنی تھی ۔ وہاں کے لوگوں سے ملاقات کرنے کا موقع ملا تو لوگوں کے معاشی حالات کچھ زیادہ اچھے نہ تھے ، انڈسٹری نام کی کوئی چیز نظر نہ آئی، لوگ بھیڑ بکریاں پال کر یا پھر سیاحوں کی آمدو رفت کی وجہ سے جو رقم کماتے ہیں ان سے ہی گزارا کرتے ہیں۔ اگلے دن ہماری منزل ’ کیل‘ تھی جہاں سے ہم نے ’ اڑنگ کیل ‘ کا سفر طے کرنا تھا۔ ایئر لفٹ خراب ہونے کی وجہ سے بزرگ و خواتین کو پیدل طویل اور کٹھن سفر طے کرنا تھا ، خیر شیخ اسرار احمد اور میری ہمت تو منزل کے نزدیک پہنچ کر جواب دی گئی اور ہم نے واپسی کا سفر لیا جبکہ دیگر دوست احباب نے منزل پہ جاکر دم لیا۔ لفٹ والوں سے پوچھا کہ کب تک ٹھیک ہوجائے گی تو جواب ملا دو چار مہینے بھی لگ سکتے ہیں ۔ اس دوران گھوڑ سواری کروانے والوں کی خوب چاندی ہوگئی اور چار سے پانچ ہزار روپے کرایہ وصول کر رہے تھے۔ دوستوں نے واپسی پہ ’ اڑنگ کیل ‘ کی خوبصورتی کے بارے میں بتایا اور تصاویر شیئر کی تو ہمارے حصہ میں پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
ہماری تیسری منزل ’ تائو بٹ ‘ تھی جس کا سفر انتہائی خطرناک، ٹوٹی پھوٹی سنگل سڑک تھی خدا خدا کر کے تائو بٹ پہنچے، رات وہاں قیام کیا ، ہوٹل کا گیزر سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے یخ ٹھنڈے پانی سے نہانا پڑگیا تو پتہ چلا کہ سندھی بھائی کچھ اور کچھ مری کے دوست بھی پانی سے دور ہی رہتے ہیں۔ تائو بٹ کے دلفریب مناظر سے خوب لطف اندوز ہوئے ، وہاں کے لوگوں کے چہروں سے بھی خلوص، محبت، وفا اور تنگ دستی کی جھلک نمایاں تھی ۔ ایک بزرگ سے لوگوں کی خوشحالی کے بارے میں پوچھا تو آنکھوں میں آنسو آگئے کہتے ہیں کہ گزر و بسر مشکل سے ہوتی ہے، بس لوگ جی رہے ہیں ۔ یہاں ڈاکٹر ابوبکر سجاد اور ڈاکٹر مبین کا ذکر ضروری ہے کہ جنہوں نے سارے راستے ڈی جے کا کردار بھی ادا کیا اور جس کسی کی طبیعت خراب ہوتی انہیں ادویات بھی مفت میں دیتے خدا ان کا یہ جذبہ خلوص تاحیات قائم رکھے۔ کشمیر کی حسین وادیوں اور گرمیوں کے موسم میں سردیوں جیسا ماحول دیکھ کر احساس ہوا کہ کاش ہماری حکومت لوگوں کو اتنا خوشحال کر دے کہ میدانی علاقوں کے لوگ گرمیاں یہاں آکر گزاریں اور یہاں کے لوگوں کے روزگار کا بندوبست بھی ہوجائے اور سردیوں میں یہ لوگ برف کے چادر تلے چھ ماہ قلعہ بند ہونے کی بجائے میدانی علاقوں میں آجائیں یوں سارا سال زندگی کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہوسکیں۔ واپسی پر جہلم پل پر اگرچہ چار روز گزر جانے کے بعد احتجاج ختم ہوچکا ہو تھا مگر خندق کی مناسب بندش نہ ہونے اور بارش کی وجہ سے گاڑیوں کے پھنس جانے پر لوگ گھنٹوں سے خوار ہورہے تھے۔ پانچ دن کے بعد ہم پھر رات ایک بجے شدید گرمی کے موسم میں شاہین چوک گجرات سے اپنے اپنے گھر کو روانہ ہوگئے۔

جواب دیں

Back to top button