سکہ رائج الوقت

سکہ رائج الوقت
سیدہ عنبرین
نئی نویلی دلہنوں کی پہلی عیدالفطر سسرال میں، عیدالضحیٰ امی کے یہاں، اس سے اگلی عید میاں کے کسی قریبی عزیز کی دعوت پر اس کے یہاں یا اس کے شہر، اسکے بعد کی عیدیں کہاں اور کیسے ہوتی ہیں یہ رنجیدہ کہانی ہے۔
وہ شوہر جو ابتدائی عیدین بیگم کا ہاتھ پکڑ کر شاپنگ کیلئے لے جایا کرتا تھا اب لیلے، دنبے، چھترے کی رسی پکڑ کر اسے نہلاتا ٹہلاتا نظر آتا ہے، اگر گائے بیل میں حصہ ڈال لے تو پھر تو سرے سے نظر نہیں آتا، بیگم چاہے بچوں کے بہانوں ہی اس کے ساتھ جانے کا پروگرام بنالے تو جواب ملتا ہے آپ بچوں کو ساتھ لے جائیں اب ہر جگہ میرا جانا ضروری نہیں۔ ابتدا میں تو یہ بھلا نہیں لگتا لیکن پھر بیگم اور بچوں دونوں کو اکیلے بازار جانے کا ایسا چسکہ پڑتا ہے کہ بیگم اپنی سہلیوں کو اس کار خیر میں شریک کر لیتی ہے جبکہ بچے اپنے ہم عمروں کے ساتھ شاپنگ سے لطف اندوز ہوتے نظر آتے ہیں۔
یاد رہے جو خاوند شادی کے پہلے برس مجازی خدا کے درجے پر فائز کر دیا جائے وہ بعد ازاں آسانی سے ’’ نوکر ووہٹی دا‘‘ نہیں بنتا، پس ضروری ہے کہ گربہ کشتن روز اول کے فارمولے پر عمل کرلیا جائے۔
خاوند کے بغیر شاپنگ کا اپنا ہی لطف ہے، خاوند کو صرف اس بات پر تیار کر لیں کہ وہ آپ کو آپ کی من پسند مارکیٹ میں چھوڑ آئے اور جب فون پر آپ کا حکم ہو تو آپ کو وہاں سے لے کر گھر پہنچا دے، آپ اگر ڈرائیونگ جانتی ہیں اور خیر سے علیحدہ کار بھی ہے پھر تو خاوند کی محتاجی بالکل ہی ختم ہوئی۔ دھڑلی سے خریداری میں مہینے بھر کی تنخواہ اُجاڑیں اور ذہن میں رکھیں عید تین روز کی ہوتی ہے لہٰذا کم از کم تین جوڑے تو ہونے چاہئیں۔ یہی عادتیں اپنے بچوں کو ڈالیں، کپڑا خریدنا اور درزی کے چکر لگانا پرانا فیشن ہوچکا، اب تو زمانہ ریڈی میڈ کا ہے، اگر کوئی آپ سے کہے کہ برانڈ کے نام پر کاروباری حضرات آپ کو بے وقوف بنارہے ہیں، کپڑے کی کوالٹی ناقص اور ظاہری شوشا بناکر تین گنا قیمت میں سوٹ بیچ دیتے ہیں تو ان فضول باتوں پر یقین نہ کریں۔ دوکاندار جب آپ کو دیکھتے ہی کہتا ہے کہ آپ کئی روز بعد آئی ہیں تو اس کی اس بات کو سچ جان کر یقین کر لیں کہ اسے آپ ہی کا انتظار تھا، اس نے دنیا کی بہترین کوالٹی کے سوٹ آپ کے لئے بچاکر بلکہ چھپا کر رکھے ہوئے تھے۔
دوکاندار سے بھائو تائو کا زمانہ بھی پرانا ہوا اب اگر آپ نے اپنے من پسند سوٹ کی قیمت سن کر ماتھے پر بل ڈالے تو دوکاندار سمجھ جائے گا کہ آپ کا تعلق امیر گھرانے سے نہیں بلکہ کسی غریب گھرانے سے ہے اور اسے یہ بھی اندازہ ہوجائے گا کہ آپ کا اور آپ کے میاں کا گزارہ صرف تنخواہ پر ہے، اس کے علاوہ کوئی ذریعہ آمدن نہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ آپ کے میاں کوئی افسر شفسر نہیں بس ایویں ہی ہیں۔
جس خاتون کو یا اس کے میاں کو لوگ ایویں ہی سمجھنا شروع کر دیں وہ پھر کہیں کا نہیں رہتا، پس ضروری ہے کہ کسی بھی چیز کی قیمت خواہ کچھ بھی بتائی جائے آپ چاہیں تو اطمینان کا اظہار کریں اور ہوسکے تو دوکاندار سے کہیں کہ کوئی مہنگی سی ورائٹی دکھائو، جب آپ مہنگی ورائٹی طلب کریں گی تو ساتھ کھڑی کسٹمر آپ کو نگاہ رشک سے دیکھیں گی حالانکہ رشک قمر والی کوئی بات آپ میں نہ ہوگی۔
اب چونکہ آپ نے مہنگی ورائٹی کی فرمائش کر ہی دی ہے تو پھر پندرہ بیس سوٹ نکلوا کر دیکھیں انہیں اُلٹ پلٹ کریں اور کہیں کہ نہیں یہ میرے سٹینڈرڈ کے مطابق نہیں۔ گھاگ دوکاندار تاڑ جائے گا کہ آپ شوہر کا خانہ خراب کرنے کا موڈ بناکر گھر سے آئی ہیں لہٰذا وہ آپ کو کم از کم چھ سوٹ فروخت کرنے کا پروگرام بنالے گا، اب یہ موقع ہے اسے سرپرائز دینے کا، آپ چھ کے بجائے آٹھ سوٹ خریدیں باقی رہا معاملہ کہ پیسے کہاں سے آئیں گے تو اس کی فکر کرنے کی آپ کو کیا ضرورت ہے کریڈٹ کارڈ اسی لئے تو ایجاد ہوئے تھے۔ ادائیگی آپ کا میاں کرے اور جیسے جی چاہے کرے۔ ایک آدھ قیمتی سوٹ اپنی کسی خوبصورت سہیلی کیلئے خریدنا نہ بھولیں اور میاں کو بتا دیں بلکہ اسے دکھا بھی دیں کہ یہ سوٹ میں نے اپنی عزیز ترین فرینڈ کیلئے خریدا ہے اور میں اسے تمہاری طرف سے تحفے میں دے رہی ہوں۔ آپ نے خاوند کی تمام تنخواہ اگر ایک شاپنگ میں اجاڑ دی ہے اور وہ غصے میں آپ کو کچھ سخت سست کہنے ہی والا تھا تو یہ پیشکش سن کر اس کا تمام غصہ کافور ہوجائے گا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتی ہوئے آپ خود اپنے میاں سے کہہ دیں کہ وہ آپ کی فرینڈ کو عید کی رات ڈنر پر انوائٹ کرے، ’’ فرینڈ آف وائف‘‘ ڈپلومیسی سے زیادہ پر اثر کوئی ڈپلومیسی نہیں ایجاد ہوئی۔ کامیاب زندگی کا راز بھی یہیں ہے۔
عید کی چھٹیاں ختم ہونے کے فوراً بعد ایک حسین شام منہ بسورتے ہوئے میاں سے کہیں کہ اس مرتبہ تو عید بہت بور گزری ہے ہمیں کہیں کسی صحت افزا مقام خصوصاً ناردرن ایریا کا وزٹ کرنا چاہیے، قبل اس کے کہ آپ کا شوہر کوئی فضول سی غریبانہ وجہ بیان کرکے آپ کے پروگرام کا ستیاناس کر دے یا چھٹی نہ ملنے کا بہانہ کرکے پہلو بچانے کی کوشش کرے۔ آپ ساتھ ہی اپنی خوبصورت فرینڈ کا نام لیکر کہہ دیں اس مرتبہ وہ بھی ہمارے ساتھ چلے گی بس پھر تو پروگرام پکا، دنیا کی کوئی طاقت اس پروگرام کو ملتوی نہیں کرا سکتی، بس آپ کو تھوڑی سی مستقل مزاج سے کام لینا ہے، آپ کی اس قسم کی فرمائش، اتلے تللے، آپ کے خاوند کو مجبور کر دیں گے بلکہ اسے خود بخود احساس ہونے لگے گا کہ آمدن میں اضافے کیلئے کچھ ہاتھ پائوں مارنے چاہئیں۔
جب آپ کے علم میں آئے کہ آپ کے میاں نے کوئی چھوٹا موٹا ہاتھ مار لیا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کریں اور اسے بتائیں کہ اس میں بے تحاشا صلاحیتیں ہیں وہ اب تک انہیں ضائع کرتا رہا ہے۔ اگر وہ کسی مرحلے پر خوف زدہ ہو تو اس کا حوصلہ بڑھائیں اور اسے کہیں کہ مردوں کی طرح جینا سیکھوں۔ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے، پھر ایسے سمجھائیں کہ نیب شیب سے ڈرنا مردوں کا شیوہ نہیں ہے، اب تو عورتیں بھی نیب سے نہیں ڈرتیں اور سب سے اہم سبق یہ کہ نیب میں پلی بار گینگ کا قانون ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک ارب کی چوری کرو اور پچیس کروڑ دے کر آزاد ہوجائو، سکہ رائج الوقت یہی ہے۔







