سنت ابراہیمیؑ اور ہمارا جذبہ قربانی

سنت ابراہیمیؑ اور ہمارا جذبہ قربانی
یاور عباس
دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان ہر سال10ذی الحج کو عیدالاضحی کا دن مذہبی و جوش و خروش سے مناتے ہیں اور اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کرتے ہوئے اسکی رضا اور خوشنودی کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں اور اس کا گوشت اپنے عزیز و اقارب، اہل محلہ اور مستحقین میں تقسیم کرتے ہیں تاکہ وہ بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں اور وہ غریب لوگ جو تنگدستی کی وجہ سے سارا سال گوشت جی بھر کر نہیں کھا سکتے وہ بھی اس موقع پر گوشت کھا سکیں اور سنت ابراہیمی کا اصل مقصد یہی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں ایثار اور قربانی کا جذبہ پیدا ہو کہ جس طرح اللہ کے نبی حضرت ابراہیم ؐ نے خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح ہوتے دیکھا اور صبح خواب اپنے بیٹے کو سنایا تو بیٹا بھی اللہ کی رضا کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کو تیار ہوگیا۔ والد کے خواب کی تکمیل کے لیے اپنی جان قربان کر دینے کا جذبہ پیدا کرنا ہی دراصل ایک والد کی بہترین تربیت کا عکاس تھا ۔
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
آج کے اس جدید اور مادہ پرستی کے دور میں اگرچہ علم بہت ہے مگر تربیت کا فقدان نظر آتا ہے، اس واقعہ کی نسبت سے ہمیں ایک سبق یہ ملتا ہے کہ ہم اپنی اولاد کی تربیت اس انداز سے کریں کہ وہ ماں باپ کے ہر فیصلے پر آمین کہے اور انہیں اللہ کے قرب کا طلبگار بنا دیں تاکہ وہ اللہ کی رضا کی خاطر اپنی جان کی قربانی پیش کرنے سے بھی دریغ نہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اس جذبہ کو اتنا پسند کیا کہ قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے اسے عیدالاضحی کی شکل میں یادگار بنا دیا اور قیامت تک کے مسلمان ہر سال عیدالاضحی پر جہاں اللہ کی راہ میں جانور قربان کریںگے وہیں حضرت ابراہیمؐ اور حضرت اسماعیلؐ کی اس عظیم قربانی کو بھی یاد کریں گے ۔
عید قربان کا دوسرا بڑا مقصد انسان کے اندر جذبہ ایثار پیدا کرنا ہے کہ وہ اس کی راہ میں اپنا مال خرچ کرے ، اپنے مال سے سب سے پیارا جانور خریدے اور اس سے محبت کرے پھر اسے اللہ کی راہ میں قربان کرے اور اس کا گوشت تقسیم کر دے۔ عیدالاضحی درحقیقت اس عزم کا اعادہ کرنا ہے کہ ہم سال بھر میں زندگی کے باقی معاملات میں بھی اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اللہ کی راہ میں مال خرچ کریں اور لوگوں میں خوشیاں بانٹیں اور ان کے دکھ درد میں کام آئیں مگر نفسا نفسی کے اس عالم میں لوگ دین اسلامی کی حقیقی تعلیمات سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں، بدقسمتی سے مذہبی تہوار زیادہ تر فیشن کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں ، ماہ رمضان آتا ہے تو ٹیلی ویژن پر تمام فنکار اور فنکارائیں لوگوں کو دین کا درس دے رہے ہوتے ہیں اور لوگوں کی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے ایسے ایسے شو تیار کئے جاتے ہیں جس سے لوگ عبادات کی طرف راغب ہونے کی بجائے انٹرٹینمنٹ کے لیے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ عید قربان پر بکرا منڈیوں کے حوالے سے طنز و مزاح ٹیلی ویژن چینلز اور سوشل میڈیا کا موضوع بنے ہوئے ہوتے ہیں حالانکہ کوئی بھی مذہبی مہینہ یا موقع ہو اس پر زیادہ سے زیادہ علماء کو موقع کی مناسبت سے احکامات خداوندی اور فرمودات نبویؐ سے عوام الناس کو روشناس کرانا چاہیے، سیرت النبیؐ کے واقعات بیان ہونے چاہئیں اور لوگوں کے اندر اللہ تعالیٰ کا قرب اور خاتم النبین حضرت محمدؐ سے محبت کا جذبہ بیدار کرنا چاہیے، ہمارا میڈیا اور علماء کرام مذہبی منافرت کی بجائے مثبت دینی تبلیغ کے ذریعے معاشرہ میں امن و سکون، خوشحالی، اخوت، مساوات، رواداری، جذبہ ایثار پیدا کرکے انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں اللہ کے بہت سی ایسے نیک بندے موجود ہیں جن کی وجہ سے دنیا قائم ہے مگر لوگوں کی اکثریت حقیقی جذبہ قربانی پر عمل نہیں کرتی، غریب، مستحق لوگوں کا خیال نہیں رکھا جاتا، قربانی کا گوشت بھی جاننے والوں کو دے کر تعلقات مضبوط کئے جاتے ہیں اور مستحقین تک نہیں پہنچتا، بہترین عمل یہ ہے کہ ایسے مستحق لوگ ڈھونڈے جائیں جن کے گھروں تک کوئی بھی گوشت نہیں پہنچاتا، اگر وہاں تک گوشت پہنچا دیا جائے تو یقین جانئے قربانی کا اصل مقصد پورا ہوجاتا ہے۔
عید قربان کا میرے خیال میں سب سے اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ کی راہ میں جو مال خرچ کیا جاتا ہے اس کا پاک ہونا بہت ضروری ہے اور مال پاک رکھنے کے لیے سال بھر ہمیں رشوت خوری، ناجائز منافع خوری جیسے مال کمانے کے دیگر حرام ذرائع کو بھی ترک کرنا چاہئے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں رشوت، کرپشن اور ناجائز منافع خوری عام ہے۔ لوگ امیر سے امیر تر ہونے کی لیے ہر جائز اور ناجائز ذرائع سے آمدن سمیٹنے میں مصروف ہیں، حکمران قومی خزانہ خالی کرنے میں مصروف ہوتے ہیں تو انتظامی افسران لوگوں کی جیبیں صاف کرنے میں مصروف، ہم سب کو اللہ کی رضا کی خاطر یہ سب کچھ چھوڑ دینا چاہئے اس سے معاشرہ میں خوشحالی بھی آئے گا۔







