Ali HassanColumn

پیران سیاست چاہتے کیا ہیں ؟

پیران سیاست چاہتے کیا ہیں ؟

علی حسن
اس ملک کے تعلیم یافتہ، حالات سے پوری طرح واقف اور مستقبل پر نگاہ رکھنے والوں کو تشویش ہے کہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ ایک کے بعد دوسرے صنعتی ادارے کل وقتی یا جز وقتی طور پر بند ہو رہے ہیں جو بے روز گاری میں اضافہ کا سبب بھی بن رہا ہے۔ معروف ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنی بایر نے پاکستان میں اثاثے فروخت کر دئیے ہیں۔ اور اپنا کاروبار لپیٹ دیا ہے۔ ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنی بایر (Bayer)نے پاکستان میں اپنے اثاثے فروخت کر دئیے ہیں۔ یہ اثاثے مقامی کمپنی کو فروخت کیے گئے ہیں۔ بایر پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹنے والی دوسری بین الاقوامی دوا ساز کمپنی ہے، اس سے قبل نومبر 2022میں امریکی دوا ساز کمپنی ایلی للی نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان سے کاروبار سمیٹ رہی ہے جب کہ گزشتہ دنوں ممتاز پٹرولیم کمپنی شیل کی جانب سے بھی اپنے شیئرز فروخت کرنے کی خبر آئی تھی۔ میڈیا کے مطابق بایر انتظامیہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اس نے اپنے اثاثے مقامی کمپنی کو فروخت کیے ہیں جس نے موجودہ ملازمین کو کم از کم آئندہ دو سال کے لیے ملازمت کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے۔ واضح رہے کہ جرمنی کی ملٹی نیشنل کمپنی کے مقامی ملازمین نے رواں ہفتے اسلام آباد میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا تھا جس میں کمپنی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ انہیں 60سے 100ماہ کی تنخواہیں ادا کرے جو کہ دنیا میں کسی اور کمپنی کی جانب سے برطرف کیے جانے کی پالیسیوں کے برابر ہے۔
پٹرول کا کاروبار کرنے والی ایک بڑی کمپنی شیل پاکستان نے بھی اسٹاک ایکس چینج کو مطلع کر دیا ہے کہ وہ اپنے حصص فروخت کر رہے ہیں۔ شیل کا کہنا ہے کہ کالٹیکس کی طرح وہ بھی لبریکینٹس کا کاروبار اپنے پاس رکھے گی۔ شیل کے حصص فروخت کرنے کا معاملہ کسی اور ملک میں طے ہوگا کیوں کہ شیل والے سمجھتے ہیں کہ اگر لین دین پاکستان میں کیا گیا تو آٹھ سو ملین ڈالر پاکستان سے باہر لے جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا اس لئے سودا اور لین دین باہرہی کیا جائے۔ شیل کا خیال ہے کہ پاکستان میں آئل کے معاملات کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے اوگرا نے 2004 سے 76لائسنس جاری کر دئیے ہیں جو 56کمپنیوں کے پاس ہیں۔ شیل کے پاس پہلے 30تا 25 فیصد مارکیٹ حصہ ر ہتا تھا جو اس کے خیال میں اس جیسی بڑی کمپنی کے لئے کسی طرح بھی فائدہ مند نہیں ہوگا۔ پاکستان میں گاڑیوں کی تعداد ضرور بڑھ رہی ہے لیکن تیل کی مانگ میں اس حساب سے اضافہ نہیں ہو رہاہے جس حساب سے کمپنیاں بڑھی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ملک میں سستے تیل کا موجود ہونا ہے۔ شیل نے کھل کر نہیں کہا ہے کہ سستا تیل وہ ہے جو پاکستان میں ایک پڑوسی ملک سے سمگل ہو کر آرہا ہے۔ پاکستان میں جو ریفائنریریاں مثال کے طور پر ایک سو لٹر تیل بنا رہی ہیں۔ پہلے وہ اسی فیصد فروخت کر لیتی تھیں اب نہیں ہو پا رہا ہے۔ اب کاروبار چالیس فیصد پر آگیا ہے۔ سستا تیل کھلے عام دھڑلے سے ملک میں آرہا ہے اور حکومت روک تھام میں ناکام ہے۔ شیل اپنا نیٹ ورک فروخت کر دے گا جو کوئی اور سیل کا نیٹ ورک کوئی اور چلائے گا۔ اس وقت بھی بعض کمپنیاں حکومت اور اوگرا میں ڈیفالٹ کر گئی ہیں لیکن وہ دوسروں سے تیل بشمول سستا خرید کر اپنا نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 11ماہ میں 40فیصد ٹیکسٹائل ملز بند ہوچکی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے عہدیداران نے شکوے اور شکایتوں کے انبار لگا دیئے تھے ۔اپٹما کے وفد نے بتایا کہ گزشتہ 11ماہ میں ٹیکسٹائل صنعت سے وابستہ 70لاکھ ہنرمند مزدور بیروزگار ہوئے، پنجاب میں آئے روز ٹیکسٹائل یونٹ تیزی سے بند ہورہے ہیں۔وفد نے اجلاس کو بتایا کہ یکم جولائی کو ٹیکسٹائل ملز کی چابیاں لے کر اسلام آباد آئیں گے، حکومت نے بجلی اور گیس سستی نہ کی تو مزید 25فیصد ٹیکسٹائل ملز بند ہوجائیں گی۔ عہدیداران کے مطابق ٹیکسٹائل ملز کیلئے بجلی کا ریٹ 20روپے سے بڑھا کر39.5روپے فی یونٹ کیا گیا ہے، اب نئے مالی سال میں ٹیکسٹائل ملز کیلئے بجلی کا ریٹ 49.5روپے فی یونٹ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکسٹائل ملز کی بجلی، گیس مہنگی ہونے کی وجہ سے برآمدات 4ارب ڈالر گر رہی ہیں، ٹیکسٹائل شعبے کو بجلی پر64ارب اور گیس پر 40ارب روپے کی سبسڈی کی ضرورت ہے۔
کاریں تیار کرنے والے بڑے ادارے سوزوکی پاکستان نے اپنا پلانٹ بند کر دیا ہے۔ کاریں تیار کرنے والا ادارہ ٹویوٹا بھی مختصر مدت کے لئے پلانٹ بند کر چکا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سوزوکی میں پاکستانی سرمایہ لگا ہوا ہے اور مسلسل نقصان کی وجہ سے خسارہ برداشت کرنے سے انکاری ہیں۔ واقفان یہ بھی انکشاف کرتے ہیں کہ سوزوکی کی بندش کی پشت پر وہ عناصر ہیں جو اس کارخانہ کو کوڑیوں کے مول خریدنا چاہتے ہیں۔ سٹیل ملز کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ روس خرید رہا ہے۔ معروف ماہر معاشیات قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ ملک بھر کی بندر گاہیں متحدہ عرب امارات خریدنے میں دل چسپی رکھتا ہے۔ ہوائی اڈوں میں سعودی عرب دلچسپی رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت اس طرح ڈالر جمع کرنے کے لئے یہ اقدامات کر رہی ہے۔ سوال یہ بھی کیا جارہا ہے کہ جب کچھ نہیں رہے گا پھر کیا ہوگا یا کیا فروخت کیا جائے گا۔ اس ملک کی معیشت حبیب بنک یا پی ٹی سی ایل یا کئی دیگر اداروں کی فروخت کے بعد کب بہتر ہوئی۔ ڈاکٹر قیصر کا گمان ہے کہ ملک کی اشرافیہ ملک سے فرار ہو جائے گی اور ملک کے غریب عوام کو غیر ملکی کاروباری آقائوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔ ویسے بھی دیکھنے میں یہ ہی آیا ہے کہ ملک کے تمام کرتا دھرتا غیر ممالک میں ہی جائیدادیں اور مفادات رکھنے کی وجہ سے غیر ممالک میں ہی وقت گزار نے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس تماش گاہ میں حیران کن بات یہ ہے کہ حکومتیں کچھ نہیں سوچ رہی ہیں یا کر رہی ہیں۔ یہ تو بتانا چاہئے کہ یہ ملک قائم کیسے رہے گا یا پھر غلاموں کو ملک بن جائے گا۔ ملازمتیں حکومت نہیں دے پار رہی ہے، عوام کو تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں مل نہیں رہی ہیں۔ بجلی، گیس اور پینے کا پانی ، زراعت کے لئے پانی تک فراہم نہیں کی جارہی ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ حکومت کسی بھی معاملہ پر سنجیدگی سے کسی قسم کے اقدامات کے بارے میں غور ہی نہیں کر رہی ہے۔ میر تقی میر نے کیا خوب کہا ہے ’’ پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے‘‘۔

جواب دیں

Back to top button