Column

میڈیا کی آزادی کس حد تک؟

روشن لعل

9؍11کے بعد جب جنرل پرویز مشرف اپنے غیر آئینی اقتدار کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے نئے بین الاقوامی معاہدوں شامل ہوئے تو ان کی آمرانہ حکومت کو یو ٹرن لیتے ہوئے اپنے چہرے پر ماڈریٹ شبیہ کا مکھوٹا سجانا پڑا۔ اس حجت کی وجہ سے مشرف کو جلد یہ بات سمجھ آگئی کہ اب ملک میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو کسی نہ کسی حد تک آزا د ی دینا ہی پڑے گی۔ ویسے بھی جب حکمرانی کے تمام اختیارات ایک شخص کی ذات میں مرتکز ہوں اور بین الاقوامی معاہدوں کی وجہ سے اس کی حکومت کو تحفظ کی ہر ضمانت میسر ہو تو میڈیا کی آزادی ایسے شخص کی حکمرانی کے لیے خطرات پیدا نہیں کرتی بلکہ ریونیو میں اضافہ کا باعث بن جاتی ہے۔ اپنی حکمرانی کے لیے حالات سازگار ترین ہونے کی وجہ سے سال 2002میں جنرل پرویز مشرف کو الیکٹرانک میڈیا پر حکومتی اجارہ داری ختم کرنے اور پرائیویٹ چینلز کو نشریات کے لائسنس جاری کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی تھی۔ علاوہ ازیں ملک میں نجی ٹی وی چینلز کے آغاز کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ1980کی دہائی میں جب ٹی وی کی نشریات روایتی اینٹینا کے ساتھ سیٹلائٹ اور ڈش اینٹینا کی وساطت سے بھی عوام تک پہنچنا شروع ہوئیں تو پاکستان میں لوگوں کو پہلی مرتبہ انڈین حکومت کے زیر اثر دور درشن کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ انڈین ٹی وی چینلز کے پروگراموں تک بھی رسائی ہوگئی۔ پاکستان میں دقیانوسی خیالات کے حامل جن ذہنوں نے قائد اعظم ؒکی 11اگست 1947ء کی تقریر کو سنسر کیا تھا ان کے جانشینوں نے اپنے عجیب و غریب نظریات کی وجہ سے ڈش اینٹینا کے ذریعے دیکھی جانے والی انڈین چینلوں کی نشریات کے توڑ کے طور پر پاکستانی ناظرین کے لیے پی ٹی وی ٹو کی بے کیف نشریات دکھانے کا بندو بست کر دیا۔ ڈش اینٹینا کے آغاز اور بعد میں کیبل نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان میں صرف انڈیا کے تفریحی اور کچھ انگریزی چینلز کی نشریات دیکھی جا سکتی تھیں۔ انڈیا میں تفریحی ٹی وی چینل شروع کرنے والے پرائیویٹ اداروں نے جب نیوز چینلز کا آغاز بھی کر دیا تو پاکستانیوں کو بھارت کے تفریحی چینلز کی طرح نیوز چینلز کی نشریات بھی میسر آگئیں۔ ان نیوز چینلز پر خبریں کیونکہ انڈین نقطہ نظر کے مطابق پیش کی جاتی تھیں اس لیے پاکستان میں انہیں سماج کے لیے ضرر رساں قرار دے دیا گیا ۔ مبینہ ضرر رسانی کا تدارک کیونکہ پی ٹی وی ٹو یا پی ٹی وی کے نیوز سیکشن کے بس کی بات نہیں تھی اس لیے درپیش مسئلے کا یہ حل نکالاگیا کہ کیبل نیٹ ورک کے ذریعے جہاں پاکستانیوں کو انڈین نیوز چینل دیکھنے کا موقع مل رہا ہے وہاں انہیں نظریہ پاکستان کا دفاع کرنے والا ایسا ٹی وی چینل بھی فراہم کر دیا جائے جسے کوئی پاکستان کا سرکاری چینل نہ کہہ سے۔ اس مصلحت کے تحت پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے نام پر نجی نیوز چینلوں کا آغاز ہوا۔ میڈیا کی آزادی اصل میں ابلاغ کی آزادی کا نام ہے۔ گو کہ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں گے کہ میڈیا کی آزادی کا مقصد سچ کے ابلاغ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ آزاد میڈیا پر صرف سچ کا نہیں بلکہ جھوٹ کا ابلاغ بھی ہوتا ہے ۔ جس طرح میڈیا حقیقت اور سچ کے ابلاغ میں آزاد ہے اسی طرح حقیقت اور سچ کے ابلاغ کے بر عکس مواد کے تشہیر کے لیے بھی اپنی آزادی کو استعمال کرتا ہے۔ میڈیا کی آزادی کے حق کو استعمال کرتے ہوئے ایک خاص تکنیک کے ذریعے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ اس تکنیک کے تحت پیسے کے زور پر یہ خاص انتظام کیا جاتا ہے کہ میڈیا کے ہر ایک جز پر ایک مخصوص موقف کے علاوہ کچھ اور نشر نہ ہونے پائے ۔ اس طرح کی نشریات میں خاص لوگوں کی کوتاہیوں ، بدعنوانیوں اور دروغ گوئی پر نقاب ڈال کر انہیں اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے کہ ناظرین کو کچھ بھی اور دیکھنے کا موقع میسر نہ آسکے ۔ جب ناظرین کو سچ کے غلاف میں لپیٹا گیا جھوٹ باربار دکھایا جاتا ہے تو وہ اسے ہی سب سے بڑا سچ مان لیتے ہیں ۔ میڈیا کے ہر جز پر مسلسل جاری رہنے والی اس مشق سے عوام پرجو مجموعی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ان میں سب اہم یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت آسانی سے سازش یا دھاندلی کا شکار بننے کی طرف مائل ہو جاتی ہے ۔ اپنی اس طرح کی مشق کے دوران میڈیا مخصوص سیاسی جماعتوں یا گروہوں کو اپنے اختیار ، پیسے یا زر کی طاقت کے ناجائز استعمال کا بھر پور موقع فراہم کرتا ہے جس کے سبب وہ ایسے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو اصل میں عوامی اور ملکی مفادات سے متصادم ہوتے ہیں ۔ میڈیا کے اسی رویہ کی وجہ سے عام لوگ اپنے جمہوری حق کا درست اور راست استعمال نہیں کر پاتے ۔
پاکستان میں جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے کی تکنیک کے ذریعے ایسی شخصیات کو نامور سیاست دان بنا دیا گیا جنہیں حقیقت میں سیاست کی الف ، ب کا بھی علم نہیں ہے۔ یہ تکنیک ، نااہل لوگوں کو نامور سیاستدان بنانے کے لیے ہی نہیں بلکہ ایسے لوگوں کو معروف میڈیا پرسن بنانے کے لیے بھی استعمال کی گئی جن کا خبر اور تجزیے کی دنیا سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ حقیقی میڈیا پرسن وہ ہوتا ہے جو نظرانداز کئے ہوئے اور چھپائے گئے سچ کو خبر کی شکل میں عام لوگوں کے سامنے لا کر انہیں آگاہ کرنے کی کوشش کرے، مگر صد افسوس، کہ ہمارے ہاں سازش کے تحت اس بندے کو سب سے بڑا میڈیا پرسن تسلیم کروایا جاتا ہے جو سچ کو جھوٹ بنا کر لوگوں کو گمراہ کرنے کا ہنر جانتا ہو۔ سیاستدان بنائے گئے غیر سیاسی لوگ تو اپنے مخالفوں کے بعد بڑی حد تک ا پنے بنانے والوں کے لیے ہی خطرناک ثابت ہوئے ہیں مگر گمراہی پھیلانے والے نام نہاد میڈیا پرسنز صرف اپنے بنانے والوں اور عوام کے لیے ہی نہیں بلکہ انتہائی وسعت اختیار کر چکے تمام تر میڈیا اور میڈیا سے وابستہ لوگوں کے روزگار کے لیے بھی مہلک کردار ادا کرتے ہیں۔ جن میڈیا پرسنز کو ایک مخصوص گروہ نے سازش کے تحت خبر اور ابلاغ کی دنیا میں ہیرو بنا کر پیش کیا آج وہ لوگ میڈیا میں استعمال ہونے والی نئی سائنسی اختراعات کی بدولت تن تنہا اس قسم کے جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے کے قابل ہو چکے ہیں جس جھوٹ کو سچ بنانے کی لیے پس پشت کام کرنے والے کچھ لوگوں کے علاوہ کسی ادارے میں کام کرنے والے سیکڑوں لوگوں کی معاونت ضروری سمجھی جاتی تھی۔
میڈیا کی آزادی ، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے کسی نہ کسی حد تک پہلے بھی استعمال کی جاتی تھی مگر نرسریوں میں تیار کئے گئے میڈیا پرسنز آج کل چھپ کر نہیں بلکہ شتر بے مہار بن کر جھوٹ کو سچ بنانے میں’’ آزاد تر ‘‘ نظر آرہے ہیں۔ میڈیا کی آزادی بہت ضروری ہے مگر یہ بات ہر گز گوارا نہیں کی جانی چاہیے کہ میڈیا کی آزادی کا استعمال صرف سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے تک محدود ہو جائے۔

جواب دیں

Back to top button