Column

نفرت!

جبار صدیقی

نفرت کے بیجوں سے محبت کے پودے اگائے جاسکتے تو آج ہم محبت میں ڈوبے ہوتے لیکن کیا کریں کہ نفرت کے بیچ بونے سے نفرت کے ہی درخت اور نفرت کے ہی پھل۔ یہی پھل وافر سو اب کھائو۔ ہمارے ہاں اکثر اپنے بچوں کو دولت اور دولت مندوں سے نفرت سکھائی جاتی ہے۔ اس نفرت کی وجہ بھی عجیب ہے کہ وہ امیر کیوں ہے اور ہم امیر کیوں نہیں ہیں ۔بات سادہ سی ہے کہ امیری غریبی کا تعلق پہلے انسان کی اپنی نیت ،محنت اورپھر اللہ کی طرف سے عطا ۔اور عطا صرف نعمت ہی نہیں بلکہ آزمائش بھی ہوتی ہے۔امیر سیاستدانوں کو چھوڑ کر پاکستان کے باقی امیرلوگوں کی بہت زیادہ اکثریت پاکستانیوں کی زندگیاں بدل رہی ہے۔بہت سے لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہیں۔یہ لوگ صنعتیں لگاتے ہیں تو معیشت چلتی ہے۔پھر خیرات میں کسی سے پیچھے نہیں۔تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں۔اور اگر یہ دولت مند اپنے لیے خلا کا سفرمنتخب کریں یا سمندر کا تواعتراض کاہے کا۔ضروری نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو دولت سے نفرت کی ہی تبلیغ کریں ضروری یہ ہے کہ بچوں کو اس عارضی دنیا میں رہنے کے لیے دولت کی اہمیت ضرور سکھائیں تاکہ وہ اس معاشرے کے مفید رکن بن سکیں ۔انہیں کسی کی دولت بری لگنے کے بجائے خود کی دولت کمانے اوردوسروں پر خرچ کرنے کے راستے بتائیں۔میں نے اپنے چوبیس سال کے کیریئرمیں یہاں یہاں نوکری کی ہمیشہ ان کااحسان مند ہی رہا کہ وہ اگر صنعت نہ لگاتے تو میں کہاں کام کرتا؟میں اپنا گھر کیسے بناپاتا؟ پاکستان کی صنعتکار فیملی کے باپ بیٹا زیرسمندرٹائی ٹینک دیکھنے گئے ۔ان کی موت وہیں لکھی تھی ۔اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن یہاں ان جانے والوں کے خلاف ایسی ایسی نفرت کہ خدا کی پناہ۔یہ ایسا ہی ہے کہ جب بھی ہمارے پاس کچھ ضرورت سے زیادہ پیسے آتے ہیں تو ہم اپنے بچوں کو سیر کروانے لے جاتے ہیں ۔یہاں تک لے جانے کی سکت ہو جاتی ہیں۔کوئی اپنے ہی شہر ریستوران میں کھانا کھلالاتا ہے ۔کوئی مری تک چلا جاتا ہے اور کوئی اس سے آگے گلیات،سوات،گلگت بلتستان اور چترال تک ہو آتاہے ۔اسی طرح امیر لوگ ہیں وہ یورپ چلے جاتے ہیں۔ امریکا چلے جاتے ہیں ۔شہزادہ حسین دائود اپنے بیٹے کے ساتھ سمندر کی تہہ میں ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے چلا گیا۔ اس کا تقابل غیرقانونی طورپرتیس تیس لاکھ ایجنٹوں کو دے کر ڈنکی لگانے والی کشتی سے کیا جارہاہے۔یہ حادثہ اپنے اندرایک دکھ بھری کہا نی ہے۔ہمیں شاید ان دونوں واقعات اور سفروں کا علم ہی نہ ہوتا اگر یہ دونوں کشتیاں حادثے کا شکار نہ ہوتیں ۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک انسانوں سے بھری کشتی کو ڈوبنے کے لیے کھلے سمندرمیں بے یارومددگار چھوڑدیا گیا تویہ مت بھولیں کہ اس کشتی کے مسافر۔ غیرقانونی طورپراس کشتی کے مسافر بنے تھے ۔ان سب نے ڈنکی کی کہانیاں سن رکھی تھیں۔ڈاکیومینٹریزاور فلمیں دیکھ رکھی تھیں اور پھر تیس لاکھ روپے دے کر اس میں سوارہوئے تھے لیکن دوسری طرف وہ قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ایک کمپنی کو پیسے دے کر آبدوزمیں سوار ہوئے تھے۔ اس آبدوز کی حفاظت یا گمشدگی کی صورت میں تلاش اور ریسکیو ان کے کمپنی سے کیے گئے معاہدے میں شامل تھا۔اس لیے پوری دنیاکی ٹیمیں اس آبدوز کی تلاش میں مصروف ہوگئی تھیں۔ہمیں اپنی نفرت کے اظہار سے پہلے حالات کا جائزہ اورتھوڑا سا منطقی تجزیہ کرنے کی عادت لازمی ڈال لینی چاہئے تاکہ ہم خوامخوا اللہ کے ہاں شرمندگی سے بچ سکیں۔میں نے گزشتہ کالم میں بھی ذکرکیا تھا کہ یونان جانے والے اس وقت تک غیرقانونی راستہ نہیں لے سکتے جب تک ہماری پیاری ایف آئی اے انسانی سمگلروں کے ہاتھ مضبوط نہ کرے۔آج کشتی کو ڈوبے دوہفتے پورے نہیں ہوئے ۔ہم سوگ مناکریہ حادثہ بھی بھول جائیں گے لیکن سبق نہیں سیکھیں گے۔ کل پھر ایک ایجنٹ کسی کے گھر جائے گا اسے یقین دلائے گا کہ وہ اتنا پکا کام کرے گا کہ بچہ سیدھا یورپ چلا جائے گا اور ہمارے جیسے کتنے والدین ایک بار پھر تیس لاکھ کا بندوبست کرنے میں لگ جائیں گے۔یہ دھندہ اس وقت تک کامیابی سے چلتا رہے گا جب تک کسی اور کشتی کے ڈوبنے کی خبر نہیں آجاتی۔ہم ایسے ہی ہیں ہمیشہ سے ایسے ہی زندگی گزارنے کے عادی ۔آسان راستے تلاش کرتے ہیں ۔شارٹ کٹس کے پجاری۔کام نکلوانے کے لیے رشوت دیتے ہیں اور وہ بھی فوری ۔مجھے ایک اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔اب اسسٹنٹ کمشنر کہنے کو تو بیوروکریسی میں ایک جونیئر افسر ہوتا ہے لیکن ہماری زندگی کے بنیادی یونٹ کے لیے وہ سب سے بڑا افسر ہی ہوتا ہے۔ ایک اسسٹنٹ کمشنر کے نیچے اس تحصیل کے سب پٹواری ،قانون گو۔اسسٹنٹ رجسٹرار۔سب رجسٹرار۔کلرک اور لاتعداد ملازم۔تحصیل کی زمینوں کا تمام ریکارڈ یہاں ہوتا ہے۔اسسٹنٹ کمشنر کی اپنی ایک عدالت بھی ہوتی ہے۔وہ فیصلے دیتا ہے ۔اس دفتر میں سب سے اہم چیز لینڈ ریکارڈ اور ریوینو ہے۔ان دوجگہوں میں کوئی کام بغیر پیسے دیے نہیں ہوتا۔سرکار کی فیس الگ اور کرسی پر بیٹھی ’’ سرکار‘‘کی فیس الگ۔میں نے اس دفتر میں بہت سے وکلاکودیکھا جو اپنی درخواستوں پر دستخط،کوئی کاغذ نکلوانے کوئی کسی کام سے موجود تھا۔میں نے ایک سب رجسٹرار کوتھوڑی دیر دیکھا۔ہرشخص بلا تخصیص جو بھی اس کے پاس آتا ۔پیسے اس کودیتا اور بدلے میں وہ اس کو اس کی فائل دے دیتا۔میں نے ایک نوجوان وکیل سے دریافت کیا کہ اس بندے کو سب پیسے کیوں دے رہے ہیں کیایہ کوئی پرائیوٹ خدمتگار ہے؟ اس نے بتایا کہ یہ فیس ہے ۔میں نے کہا کہ فیس تو سرکار کودی جاتی ہے اور سرکار کی کوئی فیس بھی کیش میں نہیںہوتی۔اس وکیل نے کہا یہ اس’’ سرکار‘‘ کی فیس ہے ۔حکومتی فیس تو الگ سے ادا کی جاتی ہے۔اب آپ اندازہ لگائیں کہ اسسٹنٹ کمشنر کے نیچے ایک سب رجسٹرارروزانہ کتنے پیسے کی رشوت جمع کرتا ہے۔پاکستان میں کل چار سو سے زائد تحصیلیں ہیں۔ان تحصیلوں میں سب رجسٹراراور پٹواریوں کی تعداد آپ خود دیکھ لیں اور پھر اس معاشی بحران کے شکار ملک میں رشوت کی معیشت کا سائز دیکھ لیں۔ہم کام یہ کرتے ہیں اور تنقید اور نفرت پیسے والے سے کرتے ہیں۔ ہم ہر روز مسائل کے ساتھ اپنی آنکھ کھولتے ہیں۔اس کی وجہ ہم لوگ خود بھی ہیں لیکن ہم نے جتنی آسانی سے اپنا ملک چلانے کے لیے جن کے حوالے کررکھا ہے وہ ہمیں ہمارا پیسا ہی احسان کے ساتھ واپس کرتے ہیں ۔دودن پہلے ہی اسحاق ڈار نے بجٹ پربحث سمیٹے ہوئے بتایا کہ کچھ ارکان پارلیمنٹ نے حج پر جانا ہے ۔انہوںنے ان سے درخواست کی کہ آپ حج پر جائیں تو وہاں جاکرملک کے لیے دعا کریں۔ اب یہاں تک تو بات سمجھ آتی ہے لیکن اگلی خبر جوانہوں نے دی وہ کمال کی تھی ۔انہوں نے بتایا کہ ارکان پارلیمنٹ کے لیے ایک خصوصی پرواز کا بندوبست کردیا گیا ہے۔اب حج جیسی عبادت مشقت کی عبادت کہلاتی ہے۔اس کی عظمت اور فضیلت ہی اس لیے ہے کہ ہمارے نبی اکرم ٔ کو معلوم تھا کہ اس کے امتی بہت دور دور سے حجازمقدس سفر کریں گے اور یہ سفر مشکل ہوگا اس لیے اس سفر کی عظمت بھی زیادہ رکھی گئی۔ہمارے ہاں اس عبادت اور مشقت کے سفر میں بھی مراعات کو شامل کرلیا گیا۔اب یہ لوگ بھی حج کریں گے۔ پورا فائیوسٹار حج۔میں پریشان ہوں کہ اس قدر پروٹوکول اور خصوصی پروازوں کے دلدادہ جب جہازوں میں ایئرہوسٹس سے خدمت کرواتے مقدس سرزمین پر پہنچیں گے تومیدان عرفات کی گرمی کیسے برداشت کرپائیں گے؟یہ سوچتے تو ہوں گے کہ وہاں بھی کوئی پروٹوکول کا جگاڑ لگ جاتا تو کمال ہوجاتا ۔یہاں جس کا دائو لگاہوا ہے وہ اس ملک کو نچوڑنا اپنا فرض سمجھتا ہے ۔پورا ملک چیئرمین سینیٹ کی شاہی مراعات کا رونا رورہا ہے بھائی رونا کس بات کا ؟جب ایسے ایسے ہیروں کو تلاش کرکے کرسیوں پر بٹھائیں گے تو وہ یہی کچھ کریں گے نا۔ہمیں اب پتہ چلا ہے کہ چیئرمین سینیٹ بننا اس قوم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ پورا ملک اس کی سار ی زندگی کی تمام ضرورتوں کو پوراکرنے کا قانونی طورپرپابندہوگا۔چیئرمین سینیٹ کی آنے والی زندگی کا بندوبست تو ہوگیا باقی لوگ اپنی زندگیوں بارے خود جانیں حکمرانوں کی بلا سے۔۔

جواب دیں

Back to top button