حج مسلمانوں کی شان و شوکت کا تہوار

علامہ عبدالخالق آفریدی
حج مسلمانوں کی عالمگیر عبادت اور شان و شوکت کا عظیم تہوار ہے جو مساوات کا عملی نمونہ ہے، اس کے اکثر اعمال و افعال تمام آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کے مشترکہ رسول حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہیں حج عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی بہت اللہ کی زیارت کرنے کا ارادہ کرنے کے ہیں اور اس عمل کو انجام دینے والے کو حاجی کہا جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے حج کی فرضیت کا حکم قرآن مجید کی سورۃ آل عمران کی آیت نمبر97میں دیا: ’’ اور اللہ کیلئے لوگوں پر اس کے گھر کا حج کرنا فرض ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو ان کا انکار کرے بیشک اللہ تعالیٰ جہان والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔ خانہ کعبہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر فرمایا اور اس کی تعمیر کا مقام اللہ رب العالمین نے متعین فرمایا، ارشاد ربانی ہے:’’ اور ابراہیمٌ کیلئے اس گھر کی جگہ مقرر کی اس ہدایت کیساتھ کہ یہاں شرک نہ کرو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کیلئے پاک کر دو‘‘ ( سورۃ حج آیت نمبر24)۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے کمسن صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ہمراہ جب خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل کر چکے تو حج کا اعلان کرنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو کہ لوگ تمہارے پاس خواہ پیدل یا دور دراز سے دبلی پتلی سواریوں پر آئیں گے تاکہ وہ یہاں آکر دیکھیں گے ان کے لئے کیسے کیسے دینی و دنیاوی منافع ہیں اور مقرر دنوں میں ان جانوروں کی قربانی کریں جو اللہ نے ان کو دیئے ہیں ان کا گوشت خود بھی کھائیں اور تنگ دست و محتاج لوگوں کو بھی کھلائیں‘‘ ( سورۃ حج27۔28 )۔ اللہ تعالیٰ نے حج کو اسلام کا پانچواں رکن قرار دیا اس طرح حج کی ابتداء ہوئی امت محمدیہ پر فرضیت سے پہلے دیگر امتوں اور ملتوں کے لوگ بھی حج کرتے تھے مگر انہوں نے اس میں بہت سے ایسے اعمال شامل کر دیئے تھے جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا تھا۔ عرب کے لوگ زمانہ جاہلیت میں دوران حج شعر و اشعار کے مقابلے کرتے اور ان کی دعائیں زیادہ تر دنیاوی امور کے لئے ہوتیں کہ اس سال بارشیں ہوں اناج پیدا ہو، کاروبار میں ترقی ہو، ان کی دعائوں میں آخرت کا کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کی اصلاح فرماتے ہوئے قرآن مجید کی سورۃ بقرہ آیت 201میں ارشاد فرمایا: ’’ پھر تم وہاں سے واپس پلٹو جہاں سے لوگ پلٹتے ہیں اور اللہ سے استغفار کرو بیشک اللہ معاف کرنے والا
مہربان ہے جب حج کے احکام پورے کر چکو تو اللہ کا ذکر اس طرح کرو جیسا تم ماضی میں اپنے آبائو اجداد کا ذکر کرتے تھے یا اس سے بھی زیادہ کچھ لوگ کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا عطا فرما ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور کچھ کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا بھی عطا فرما اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما‘‘۔ رسول اکرمﷺ نے قریش کی طرف سے رائج کردہ جاہلیت کی تمام رسموں اور طریقوں کا خاتمہ فرمایا، اس کی بنیاد اخلاص خدا ترسی پاکیزگی سادگی اور تقویٰ و پرہیزگاری پر رکھی، حج کا مخصوص لباس مقرر فرمایا جسے احرام کہا جاتا ہے اسے زیب تن کرنے کے لئے جس جگہ کا تعین فرمایا اسے میقات کہا جاتاہے۔ پاکستان سے سفر حج کرنے والوں کیلئے میقات و یلملم پہاڑی ہے احرام دو بغیر سلی سفید چادروں پر مشتمل ہوتا ہے دنیا بھر سے آنے والے حجاج یہی لباس پہن کر مساوات کا مظاہرہ کرتے ہیں احرام زیب تن کرنے کے بعد میقات سے تمام دنیاوی امور ترک کرکے تلبیہ بلند کیا جاتاہے، یہ وہ دعا ہے جو رسول اکرمﷺ نے بتائی جس کا معنی یہ ہے ’’ میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں تمام تعریفیں تیرے لئے اور نعمتیں تیری ہیں حکومت بھی تیری اور تیرا کوئی شریک نہیں‘‘ ۔ دوران حج امن کا خصوصی
پیغام اس طرح دیا گیا کہ حج کے دوران کوئی غیر اخلاقی نافرمانی جھگڑے کا کام نہ کیا جائے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ حج کے دوران لڑائی جھگڑوں کیساتھ شکار کی بھی ممانعت کی گئی تاکہ حجاج پرامن انداز میں حدود حرم میں داخل ہوں اور پرامن ہی واپس جائیں حج کے مہینوں کو حرمت والا قرار دیا گیا کہ ان میں کوئی ظلم نہ کیا جائے حج کے بیشمار دینوی اور دنیاوی فوائد ہیں۔ سب سے بڑا دینی فائدہ تو اللہ کی رضا کیلئے تقویٰ اختیار کرنا ہے ایک حاجی جب خالص نیت لے کر سفر حج کا آغاز کرتا ہے تو اس کے دل و دماغ میں یہی سوچ و فکر بار بار کروٹیں لیتی ہے کہ اسے اپنے سابقہ گناہوں کی معافی مانگی اور اللہ سے توبہ کرنی ہے اور دوران حج کسی کوتاہی غلطی گناہ کا ارتکاب نہیں کرنا تاکہ میرا حج قبول ہو جائے رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ جس نے دوران حج کسی فسق و فجور کا ارتکاب نہ کیا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے گویا کہ آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو‘‘۔ حج کے اجتماعی فوائد اور دشمنان اسلام کے سامنے شان شوکت قوت و طاقت کا اظہار بھی ہے اس میں وحدت ملت کا ایک پرکیف نظارہ ہے کہ تمام قوموں کے مسلمان ایک ساتھ رکوع و سجود کرتے قربانی کے فریضہ سے سبکدوش ہوتے صفاو مروہ کی سعی اور خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں سب مل کر ایک دن اور ایک وقت 9ذوالحجہ کو میدان عرفان میں جمع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس روز اپنے بندوں کے بارے میں فرشتوں جیسی مقدس مخلوق میں فخر فرماتا ہے اور اعلان کرتا ہے آج میرے بندوں نے مجھ سے استغفار کیا میں نے ان کو معاف کر دیا اور ان کی دعائوں کو قبول کیا۔ انہوں نے دین اور دنیا کیلئے جو کچھ مانگا میں نے ان کو عطا کیا۔ رسول اکرمﷺ نے عرفات کی حاضری کو حج کا رکن اعظم قرار دیا۔ حج کے دنیاوی فوائد بھی ہیں، حج کے دوران مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے کاروباری لوگوں کو بے پناہ مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ کروڑوں ریال کی خرید و فروخت اور تجارت ہوتی ہے اور دشمنان اسلام کو بھی اس سے بڑا پیغام ملتاہے کہ امت مسلمہ حج جیسی عبادت کیلئے یکجا ہے تو اگر قرآن و سنت کے مشاعر کی کسی گستاخی کی چاہے وہ دنیا کسی بھی ملک اور کونے میں ہو تو پوری امت مسلمہ شعار اسلام کے دفاع کیلئے یکجا ہو کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اسلامی شعائر کا دفاع کرے گی۔ حج کی عبادت کرکے واپس آنے والے حجاج کو چاہئے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں برائیوں اور گناہوں کو روکنے کی کوشش کریں اور سفر حج کے دوران انہوں نے جو روحانی مناظر دیکھے ان کا بار بار تذکرہ کریں اور اپنی بساط کی حد تک رنگ و نسل مشرب و مکتب فرقہ و مسلک سے بالاتر ہو کر پوری امت کیلئے اپنی ذمے داریاں ادا کریں۔ حج دراصل امت مسلمہ کیلئے عالمگیر اتحاد کا سب سے اہم اور بڑا پیغام ہے علامہ اقبالؒ نے فرمایا:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر







