دیر آید درست آید

محمد مبشر انوار( ریاض)
مقصد کے حصول میں سمت، لائحہ عمل کا تعین اور تسلسل اس کی کامیابی کا ضامن ٹھہرتا ہے وگرنہ بے سمتی، لائحہ عمل کی بے قاعدگی اور عدم تسلسل بالعموم دائروں کا سفر ہی رہتا ہے اور کامیابی سے کوسوں دور فرد، گروہ اور قومیں بھنور میں بھٹکتی رہتی ہیں۔ ہم بظاہر بحیثیت قوم اپنی گمشدہ میراث کو مغربی تقلید میں ڈھونڈتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ مغربی مسلمہ طریقہ کار اور نظام کو بھی کماحقہ اپنانے میں صرف اس لئے ہچکچاتے ہیں کہ اس میں ذاتی مفادات کو ٹھیس لگتی ہے لہٰذا ہم آدھے تیتر آدھے بٹیر بنے دائروں کے سفر میں مگن ہیں جبکہ کامیابی و کامرانی، ہماری اس دوعملی /منافقت پر، ہم سے کوسوں دور کھڑی مسکراتی بلکہ قہقہے لگاتی نظر آتی ہے۔ مغربی تقلید میں ناکوں ڈوبے، ہماری عقل اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں کہ مغرب کی ترقی کا راز درحقیقت ہمارے اسلاف کی میراث پر قائم ہے جبکہ ہم اس میراث سے اصل وارث، اسے مغرب کی معراج سمجھے بیٹھے ہیں۔ بالفرض اسے ترقی، مساوی قوانین، قومی مفادات کو مغربی شناخت ہی تسلیم کر لیں تو بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مفادات کے ٹکرائو میں ہم قومی مفادات کے لئے کتنے مخلص ہیں؟ ہم نے قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کتنے قوانین تشکیل دیئے ہیں؟ ہم نے ان قوانین پر کس حد تک عمل درآمد کیا ہے؟ کیا ہمارا نظام عدل حقیقی معنوں میں عدل فراہم کر رہا ہے؟ کیا ہمارا معاشی نظام ایسا ہے کہ جس بر فخر کیا جا سکے؟ کیا یہ معاشی نظام طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے یا اس تقسیم کو مزید بڑھا رہا ہے؟ ان سب باتوں کا جواب بدقسمتی سے نفی میں ہے کہ ہم ذاتی نمود و نمائش اور تشہیر میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ ہمیں ملک و قوم کی چنداں کوئی فکر ہی نہیں، ہر صاحب اختیار و اقتدار کی ایک خواہش نظر آتی ہے کہ اس کی زبان سے نکلا ہر لفظ قانون کا درجہ اختیار کرے، اس کی ہر خواہش کی تکمیل میں کوئی قانون رکاوٹ نہ بنے، کسی بھی طور آڑے نہ آئے۔
موجودہ دور میں امریکہ بہادر ساری دنیا کے لئے ایک مثال بنا ہوا ہے اور تقریباً ہر ترقی پذیر ملک کی یہ خواہش ہی کہ وہاں بعینہ امریکی طرز حکومت و نظام معرض وجود میں آئے۔ حالانکہ تاریخ سے سب حکمران بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح امریکی آزادی کے بعد وہاں کشمکش کا دور دورہ رہا اور کس طرح حکومتوں کی تبدیلیوں کے ساتھ ہی وہاں پر منصوبے لپیٹ دیئے جاتے اور نئے حکمرانوں کی خواہش کی منشا کے مطابق نئے سرے سے منصوبے بنتے۔ اس عمل کو امریکیوں نےspoil systemیعنی خراب نظام کا نام دیا اور اس مشق کو ختم کرنے کے لئے ارباب اختیار مل بیٹھے تا کہ ایسے نظام سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے کہ جس میں ملکی وسائل بلاوجہ ضائع ہوتے ہیں، انہوں نے مل بیٹھ کر اس کا حل نکالا اور نتیجہ یہ ہے کہ آج امریکہ میں کسی کی بھی حکومت ہو لیکن بنیادی اصول و ضوابط طے ہیں اور کسی بھی حکومت کو ان اصولوں سے انحراف کرنا ممکن نہیں۔ حکمرانوں کے لئے تو معیار مزید سخت ترین کیا جا چکا ہے تا کہ عوام کے لئے ایک رول ماڈل بن سکیں اور عوام اپنے حکمرانوں کے نہ صرف نقش قدم پر چلے بلکہ ان کی مثالیں بھی دے سکے۔ اپنے وقت کے طاقتور ترین شخص کے لئے بھی یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ قومی خزانے کو اپنے ذاتی معاملات پر استعمال کر سکے جس کی مثال سابق امریکی صدر اوباما کے الفاظ ہیں کہ وہ اپنی ٹوتھ پیسٹ تک اپنی ذاتی جیب خرچ سے خریدتے ہیں اور اسی طرح ذاتی کچن کے سامان کی ادائیگی بھی ان کی ذاتی جیب سے ہوتی ہے۔ یہ وہ معیار ہے کہ جس کی بنیاد پر امریکہ آج امریکہ کہلاتا ہے اور صرف امریکہ پر ہی کیا موقوف، ہر ترقی یافتہ و مہذب ملک کی اشرافیہ کے لئے یہی قوانین لاگو ہیں کہ وہ قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ قومی وسائل کو ذاتی تصرف میں لانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ دوسری طرف ہم بقول شہباز شریف بھکاری قوم لیکن ہماری ترجیحات کا عالم یہ ہے کہ ارباب اختیار و حکمران غیر ملکی دوروں پر چارٹرڈ جہاز کے بغیر جانے کا تصور تک نہیں کرتے بلکہ ہمراہ بھاری بھرکم لائو لشکر ایک لازمی جزو ہے کہ اس کے بغیر ’’ ٹور ٹپا/شپ شپا‘‘ نہیں ہوتا، کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ ایسے دوروں کے دوران حکمران وقت کو اس بھکاری قوم کا احساس ہوا ہو، اس کے وسائل کو یوں بے دریغ نہیں اڑانا چاہئے۔ دیگر ممالک کے حکمران جو کام صرف ایک فون کال پر کر لیتے ہیں وہ سرانجام دینے کے لئے ہمارے حکمران نہ صرف چارٹرڈ طیارے لے کر جاتے ہیں بلکہ ان طیاروں میں ’’ آم‘‘ بھی بھر کر لے جاتے ہیں، اس وقت کسی بھی ادارے کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ عالمی سطح پر ایسی ڈپلومیسی سے کام چلایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس سے بھی کہیں زیادہ قومی خزانے پر ظلم تو یہ ہے کہ اشرافیہ کے نمائندگان راتوں رات، ذاتی مراعات کی قوانین سازی ایسی عجلت مگر متفقہ طور پر کی جاتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو میڈیا یا عوام کے سامنے عوامی محرومیوں کی رونے روتے ہیں لیکن پارلیمنٹ کے فلور پر قومی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے سے قطعی نہیں چوکتے۔ کسی بھی رکن پارلیمنٹ کے لئے موجود مراعات ہمیشہ ان کے لئے ناکافی رہتی ہیں اور باہمی رضامندی سے اس میں اضافہ ایک معمول کی بات ہے لیکن موجودہ صورتحال میں جو نیا مراعاتی قانون ایوان بالا کے چیئرمین، اس کے عزیز و اقارب و دیگر کے لئے تاحیات (غالباً) منظور ہوا ہے، اس کے بعد اشرافیہ سے کسی قسم کی امید کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔
کسی بھی ریاست کی معاشی رگوں میں خون دوڑانے کے لئے قوم کے ہر فرد کو قربانی دینا پڑتی ہے، ایک سمت کا تعین کرنا پڑتا ہے، لائحہ عمل و تسلسل کی یقین دہانی آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس کے لئے پوری قوم کا یکسو ہونا ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ با وسائل افراد کا گروہ مسلسل ملکی وسائل کو نوچتا رہے، لوٹتا اور کھسوٹتا رہے جبکہ قربانی کے لئے پہلے سے پسی عوام کو تیار کیا جائے یا بغیر تیار کئے ان کو نچوڑتے رہیں۔ جو کام امریکہ نے اپنی معیشت کو سدھارنے کے لئے، برقرار رکھنے اور اس میں مسلسل نمو کے لئے دو صدیاں پہلے کر کے ایک مثال قائم کر دی تھی، ہم اس پر پہلے دن سے عمل پیرا ہونے کی بجائے نت نئے تجربات کرتے ہوئے آج اس حال کو پہنچ چکے ہیں کہ کسی بھی وقت دیوالیہ ہو سکتے ہیں لیکن ہنوز ہماری فضول خرچیاں اور ترجیحات میں بہتری کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ البتہ شہباز شریف کی ’’ حکومت‘‘ نے معاشی بحالی کے لئے ایک نیا پروگرام متعارف کرایا ہے جس کے مقاصد2035میں حاصل ہوں گی، اس سے دو معنی اخذ کئے جا سکتے ہیں کہ موجودہ سیاسی ہنگامے میں اس طرح کا پروگرام متعارف کرا کر یہ باور کرانا مقصود ہے کہ موجودہ حکومت2035تک اقتدار میں رہے گی یا اپنے تئیں ایک ایسی پالیسی متعارف کرائی گئی ہے کہ جس میں2035تک تسلسل اس کے اہداف کو حاصل کر لے گا۔ ان اہداف کو متعین کرتے ہوئے سمت کا تعین بھی بدل چکا ہے اور جو حشر آئی ایم ایف نے پاکستان کا کیا یا پاکستان نے جو حال آئی ایم ایف کا کیا ہے، اس کے بعد پاکستان آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ شنید ہے کہ یہ کوشش مغرب، مشرق وسطی اور چین کی مدد سے ہو گی، یوں بتدریج پاکستان امریکہ و آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کر لے گا، سوال یہ ہے کہ کیا مغرب، مشرق وسطی اور چین اس مدد کے لئے تیار ہیں؟ تسلیم کہ عالمی سطح پر طاقت کا توازن مسلسل تبدیل ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود آئی ایم ایف یا امریکہ اپنے قرضوں کے حصول کو کس طرح ختم کرے گا یا پاکستان ان قرضوں کو کس طرح ادا کرے گا؟ جو منصوبہ پیش کیا گیا ہے اس میں تیرہ سال کے اندر سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی بات ہو رہی ہے، کیا واقعتاً یہ سرمایہ کاری ہو جائے گی یا اس رقم کو بھی ڈار تھیوری کے مطابق گھمایا جائے گا اور آئی ایم ایف کو واپس کیا جائیگا۔ معاملات بہر کیف واضح نہیں اور سب سے بڑی بات کہ دودھ کی رکھوالی کس کے حصہ میں آئے گی؟ تا ہم ایسی کسی بھی پالیسی کا اجراء خوش آئند تو ہے گو کہ یہ پالیسی، آئین پاکستان کی مانند اتفاق رائے سے نہیں بنی تاہم ایسی پالیسی کو دیر آید درست آید کہا جا سکتا تا وقتیکہ اس پر عمل درآمد اور اس کے ثمرات سامنے نہیں آتے۔







