Columnمحمد مبشر انوار

محکمانہ کارکردگی

محمد مبشر انوار( ریاض)

معاشرے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے قوانین بنائے جاتے ہیں تا کہ عوام الناس کا اعتماد ریاست پر قائم رہے جبکہ ان قوانین پر عملدرآمد کے لئے محکمے قائم کئے جاتے ہیں، جہاں قابل اور اہل اہلکاروں کو بھرتی کیا جاتا ہے تا کہ وہ بلاامتیاز ریاستی قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ قوانین کا نفاذ کرتے وقت اس امر کا بخوبی خیال رکھا جاتا ہے کہ اگر ان قوانین کی خلاف ورزی ہو تو پھر ایسی صورت میں خلاف ورزی کرنے والے کو کیا سزا دی جانی چاہئے اور یہ سزا کون ، کس طرح دے سکتا ہے؟ مزید یہ کہ اس سزا میں کہیں کوئی بے اعتدالی نہ ہو کہ سزا ،جرم سے زیادہ ہو جائے، جس کا اثر بجائے مجرم کی اصلاح، اسے مزید منقم مزاج بنا دے اور وہ معاشرے میں مزید انتشار پھیلائے۔ جزا و سزا کا یہ عمل ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا اور ایسے معاشرے جہاں محکمے اپنی فرائض سے کما حقہ عہدہ برآء ہوتے ہیں، ان معاشروں میں امن و امان اور عوام الناس کا ریاست پر اعتماد واضح نظر آتا ہے جبکہ ایسے معاشرے کہ جہاں قوانین پر عملدرآمد ملزمان کی سیاسی و سماجی حیثیت دیکھ کر ہو، وہاں عوام الناس کا حال انتہائی دگر گوں ہے، اکثریت کا ریاست پر اعتماد نہ ہونے کے برابر جبکہ جو ریاستی امور کو سمجھتے ہیں، قانون کی افادیت اور اس کی عمل داری کو ترجیح دیتے ہوئے، قوانین کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی عمریں کورٹ کچہری یا دوسرے محکموں میں جوتیاں چٹخاتے بسر ہو جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں محکمے کسی بھی سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد نظر آتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک کہ جہاں ابھی نظام کی افادیت کو ترجیح دینے کا عمل جاری ہے، وہاں ہنوز اثر و رسوخ کی گنجائش نظر آتی ہے اور ہمیں تعلق واسطہ اور حوالے سے معاملات سلجھتے نظر آتے ہیں لیکن یہ عبوری دور نظر آتا ہے کہ ریاستیں مسلسل اس عمل کو بہتر اور یقینی بنانے میں کوشاں ہیں کہ کسی بھی مظلوم کی داد رسی کے لئے جو قوانین بنائے گئے ہیں، محکمے اور ان میں تعینات اہلکار کماحقہ ان پر عملدرآمد کروائیں اور معاشروں کو قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے نشان عبرت بنائیں، انہیں قرار واقعی سزائیں دیں تا کہ وہ مستقبل میں ایسے قانون شکنی کے مرتکب نہ ہوں اور معاشرے کے ذمہ دار شہری کے طور پر زندگی گزاریں۔ سزائوں کا بنیادی مقصد ہی قانون پسندی ہے جبکہ عوام کو اس امر کی یقین دہانی کہ ان کے حقوق کسی بھی ظالم کو سلب نہیں کرنے دئیے جائیں گے، خواہ وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو، رائج قانون بہر صورت اس کی سیاسی /سماجی حیثیت سے برتر ہی رہے گا۔ اس کی کئی ایک مثالیں ہمیں ترقی یافتہ ممالک میں ملتی ہیں کہ کیسے سربراہ مملکت تک، قانون کے سامنے پیش ہوتے رہے ہیں اور انہیں کسی بھی صورت اس سے مستثنیٰ نہیں ہے، گو کہ قانون کی نظر میں ہر شخص کی حیثیت کا مساوی تعین بعد از اسلام، اسلامی معاشرے کی دین ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس کا سہرا آج یورپ /ترقی یافتہ ممالک کے سر سجا ہے کہ جو اس آفاقی اصول کی روح کو سمجھ چکے ہیں اور ان کا کوئی بھی بااثر شخص کسی غیر قانونی حرکت پر قانون کے سامنے اسی طرح پیش ہوتا ہے جیسا کہ کوئی ایک عام شخص پیش ہوتا ہے۔ تاہم یہ الگ بات کہ ان ریاستوں میں عوام از خود اپنے حکمرانوں کے معیار طے کر چکے کہ انہیں کیسے حکمران چاہئے، ، انہیں اپنے حکمران بے عیب چاہئے اور اس کو بتدریج وہ خود پر نافذ کر چکے ہیں ۔دوسری طرف ہماری صورتحال دن بدن ترقی معکوس کا سفر طے کر رہی ہے اور ہمارے حکمرانوں کی اخلاقی ساکھ پر کچھ کہنا لکھنا بے سود ہوتا جا رہاہے کہ کہنے کو ہم جمہوریت پسند ہیں، پارلیمانی طرز حکومت ہمارا نظام ہے لیکن بدقسمتی سے ہم ان میں سے کسی پر بھی حقیقی معنوں میں عمل پیرا نہیں اور اس کی تذلیل ہمارے معاشرے سے زیادہ کہیں اور ملنا ناممکن نہیں تو ایک مشکل امر ضرور ہے۔
پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد گزشتہ سال بیرون ملک منتقل ہو چکی ہے، جس کی وجوہات تلاش کریں تو ہمیں ان کی فہرست بنانا بھی مشکل ہوتا جائیگا لیکن بنیادی وجہ معاشی ہے کہ پاکستان میں روزگار کے وسائل کا حصول دن بدن نا ممکن ہوتا جارہا ہے، ہر شخص کی رسائی با اثر لوگوں تک نہیں کہ ان کی خوشامد یا دیگر طریقہ کار سکہ رائج الوقت کو اپنا کر کسی طرح روزگار حاصل کر سکیں۔ بہت سے پڑھے لکھے، باہمت اور قابل نوجوان صرف اس وجہ سے نقل مکانی کر چکے ہیں کہ ان کے لئے پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے کنبے کا پیٹ پالنا ممکن نہیں رہا۔ حالانکہ یہ وہ نوجوان ہیں کہ جن کی ذہانت و ایمانداری و قابلیت کی کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ پاکستان کو ضرورت ہے لیکن ہمارے بے حس حکمرانوں کا معیار یہ ہے کہ وہ انتہائی بے شرمی سے عالمی میڈیا کے سامنے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر انہیں نوکری نہیں ملتی تو وہ بیرون ملک چلے جائیں۔ درحقیقت اس امر کا اظہار کرکے یہ حکمران ایک طرف اپنی نااہلی کا ثبوت دے رہے ہیں تو دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اس وقت پاکستان کے پاس عالمی دنیا کو پیش کرنے کے لئے افرادی قوت کے علاوہ کوئی دوسری جنس موجود ہی نہیں۔ بہرکیف ملک میں لاقانونیت، دھوکہ دہی، فراڈ اور دوسروں کی جیب پر نظریں گاڑھنے والوں کی اکثریت نے نوجوانوں کو بیرون ملک نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے کہ کم از کم بیرون ملک رہتے ہوئے ان کے حقوق ایسے سلب نہیں ہو سکتے کہ ان کی کہیں شنوائی ہی نہ ہو۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں کہ گزشتہ دنوں مجھے ایک حادثہ پیش آیا، ہوا یوں کہ رات کے وقت، چند لڑکے ایک گاڑی میں سوار تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، میری گاڑی کو ٹکر مار کر انتہائی پھرتی سے نکل گئے۔ سڑک پر گاڑیوں کا اعدہام ہونے کے باوجود وہ لڑکے بہرکیف میری نظروں کے سامنے سے انتہائی تیزی سے اوجھل ہو گئے، یہاں کا قانون ہے کہ حادثے کی صورت میں فریقین وہیں رک جاتے ہیں تاوقتیکہ ٹریفک اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ کر جائزہ لیں اور پھر فریقین کے قصور کا تعین کریں۔ گاڑیاں یوں ٹکرائیں کہ نوجوان پھرتی سے کئی میٹر آگے تو نکل گئے لیکن ان کی گاڑی بھی چلنے سے قاصر تھی تو انہیں رکنا پڑا، اتنی دیر میں، میں بھی اپنی گاڑی وہاں تک لے گیا، ان سے بات چیت ہوئی، ان کی گاڑی کی تصاویر لیں، اتنی دیر میں، تقریبا دس منٹ، پولیس اہلکار موقع پر پہنچ گیا، اور ہمیں مین روڈ سے ہٹ کر سروس روڈ پر جانے کے لئے کہا۔ اس دوران ٹریفک پولیس کو فون پر مطلع کیا، جس نے موقع پر آ کر قصوروار کا تعین کیا، اس دوران ان لڑکوں نے اپنے بڑے بھائی کو موقع پر بلوایا جس نے بالائے قانون ’’مک مکا‘‘ کرنے کی پیشکش کی، جسے میں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، کہ جو آفر وہ کر رہا تھا وہ پچیس فیصد سے بھی کم تھی، جبکہ میرا نقصان ٹریفک پولیس کے تخمینہ کے مطابق زیادہ تھا۔ بہرکیف! موقع پر معاملہ طے نہ ہو سکا اور چونکہ نوجوانوں کے پاس نہ لائسنس تھا اور نہ ہی انشورنس، لہذا قانون کے مطابق مجھے نقصان وصول کرنے کے لئے ٹریفک پولیس کے دفتر جانا تھا کہ فریق مخالف کے پاس لائسنس اور انشورنس نہ ہونے کے باعث تخمینہ کی رقم بینک کے بجائے ٹریفک پولیس کے دفتر میں مجاز افسر کے سامنے وصول کرنی تھی اور اس کا اقرار بھی کرنا تھا تا کہ معاملہ قانونی طور پر ختم ہو سکے۔ اس مقصد کے لئے، فریق مخالف نے مجھے سخت گرمی میں تین چکر پولیس آفس میں لگوائے اور خود پیش نہیں ہوا، تھوڑی تحقیق پر معلوم ہوا کہ ایسا کرنے کا مقصد میرے نقصان سے کم رقم ادا کرنے کے لئے ہے، تاہم اس دوران ٹریفک پولیس والوں نے نظام کے مطابق، فریق مخالف سعودی شہری کے کچھ معاملات کی بندش کے بعد اس نے رابطہ کیا۔ رابطہ کرنے پر سعودی شہری نے بلاتکلف حاکمانہ انداز میں پولیس دفتر آنے اور کم رقم دینے کا کہا، تاہم میں نے بھی اسی لہجے میں صاف انکار کر دیا اور کہا کہ وہ خود ٹریفک پولیس کے دفتر میں جا کر رقم جمع کروائے۔ اس دوران میں نے اپنے سعودی وکیل پڑوسی نے قوانین تبدیل ہونے کا بتایا۔ جس کے بعد قصوروار کی طرف سے پوری رقم ادا نہ کرنے کی صورت میں معاملہ عدالت میں دائر کیا جا سکتا ہے، جس کے تمام اخراجات قصوروار کو ادا کرنا لازم ہیں، جس پر میں نے اپنے پڑوسی سے گزارش کی کہ اگر وہ سعودی کو یہ بات تفصیلا بتا دے تو معاملہ حل ہو سکتا ہے، صرف ایک فون کال پر اس نئے قانون کے بتانے پر سعودی شہری فوری تمام رقم ادا کرنے پر تیار ہو گیا۔ طے یہ پایا کہ اگلے دن دونوں فریق ٹریفک پولیس کے دفتر میں حاضر ہوں، متعلقہ اہلکار کے سامنے رقم کی ادائیگی ہو اور معاملہ ختم کیا جائے، اگلے دن فریقین نے اسی طرح معاملہ کو متعلقہ اہلکار کے سامنے ختم کر دیا اور یوں دیار غیر میں ہونے کے باوجود، میرے حقوق سلب ہونے کا امکان/شائبہ بھی نہیں رہا۔ درحقیقت یہی وہ محکمانہ کارروائی/کارکردگی ہے کہ جس میں بغیر کسی بااثر شخصیت کے ملوث ہوئے، حقوق کا تحفظ یقینی رہتا ہے اور معاشرے میں حادثات یا جرائم ہونے کے باوجود قصوروار کو سزا ملتی ہے۔ دوسری طرف ہمارے ملک میں محکموں کی کارکردگی کا موازنہ کریں تو غریب شہری تو ایک طرف یہاں سابق وزیر اعظم کو اپنی ایف آئی آر کروانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ پسندیدہ شخصیات، جو کل تک فردجرم کی منتظر ہوں، کو براہ راست اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ محکموں اور ان کے اہلکاروں کے ہاتھ بندھے نظر آتے ہیں اور اس آڑ میں وہ کسی عام شہری کی درخواست پر فوری عمل بھی نہیں کرتے، لٹنے والا عام شہری اپنی درخواست کو متحرک کرنے کے لئے بقول ملک ریاض، پہیوں کے وسائل نہیں رکھتا۔ محکموں کی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن بظاہر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اہلکار کسی تگڑی سفارش کے بغیر کارروائی آگے بڑھانے سے فقط اس لئے گریزاں نظر آتے ہیں کہ کہیں فریق مخالف تگڑی سفارش نہ لے آئے، یوں معاشرے میں مسلسل لاقانونیت بڑھتی جا رہی ہے اور محکمانہ کارکردگی دن بدن تنزلی کا شکار جبکہ عوام کا ریاست سے اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے محکموں کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کیا جائے، یہاں قابل، اہل اور فرض شناس اہلکاروں کو تعینات کیا جائے تا کہ وہ اپنے فرائض منصبی کو اولین ترجیح دیتے ہوئے مظلوم شہریوں کے حقوق سلب ہونے سے بچائیں جبکہ غیر قانونی کام کرنے والوں کی سرکوبی کرتے ہوئے، ان کے اندر قانون کی بالا دستی کا خوف پیدا کیا جائے تا کہ وہ قانون شکنی سے باز رہیں اور معاشرے میں امن و امان قائم رہے۔

جواب دیں

Back to top button