ColumnZia Ul Haq Sarhadi

روس سے تیل و گیس خریداری

ضیاء الحق سرحدی

روس سے تیل کے بعد ایل پی جی کی پہلی کھیپ پاکستان طور خم بارڈر پہنچ گئی۔ ایل پی جی کی کھیپ ازبکستان سے ٹرکوں کے ذریعے افغانستان کے راستے پاکستان طورخم بارڈر پر پہنچی، کارگو 21ایل پی جی ٹرکوں پر مشتمل ہے اور یہ پہلے مرحلے میں روس سے خریدے گئے 110000ٹن ایل پی جی کا حصہ ہے، جس سے نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافے کا باعث بنے گا جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ قوم سے ایک اور وعدہ پورا کر دیا ہے، ہم خوشحالی، اقتصادی ترقی، سستی اور انرجی سکیورٹی کی طرف ایک قدم آگے بڑھ ر ہے ہیں۔ اس کی ادائیگی پاکستان نے ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی میں کرنی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق نیشنل آئل ریفائنری اور پاکستان ریفائنری لمیٹڈ روسی کروڈ آئل کی ریفائننگ کریں گی اور اپنی رپورٹ وزارت پٹرولیم کو دیں گے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں روسی کروڈ آئل کی مزید کار گو کے آرڈرز جاری کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ روسی پٹرول کا پوری قوم کو شدت سے انتظار تھا۔ توقع ہے کہ اگر روی تیل پاکستانی معیارات پر پورا اترا اور اس کی ترسیل کا تسلسل قائم ہو گیا تو ملک میں کسی حد تک مہنگائی کا مسئلہ حل کرنا ممکن ہو سکے گا جبکہ اسی طرح وفاقی حکومت نے گزشتہ روز ایک قانونی ریگولیٹری آرڈر (SRO)جاری کیا، جس کے تحت 4ممالک پاکستان، افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ B2Bبارٹر ٹریڈ کے تحت سامان کی درآمد اور برآمد کی اجازت دی گئی ہے ۔ پاکستان کو ڈالر کی لیکویڈیٹی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو امریکہ سمیت بڑی معیشتیں قبول نہیں کر رہی ہیں۔ ایران کو اپنے جوہری عزائم پر امریکی پابندیوں کا سامنا ہے اور یوکرین کے خلاف جنگ کی وجہ سے روس کو بھی G7ممالک کی پابندیوں اور ضوابط کا سامنا ہے۔ بارٹر سسٹم پر پاکستان نے کئی برسوں سے کام شروع کر رکھا ہے۔2021ء میں افغانستان میں طالبان کے ا قتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے ساتھ اس کی تجارت میں اضافہ دیکھا گیا تھا تاہم رواں برس دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم میں کمی آئی جبکہ ڈالرز کی کمی دونوں ملکوں میں دیکھی گئی اور وفاقی حکومت نے پاکستان کی بزنس کمیونٹی سے بارٹر سسٹم کے بارے میں مذاکرات شروع کئے ۔ دنیا کے وہ ممالک جنہیں قرضوں کی ادائیگی میں دقت کا سامنا ہو یا جن کے پاس ڈالر میں زرمبادلہ کے ذخائر نا کافی ہو جائیں وہ دیوالیہ ہونے سے پہلے بارٹرسسٹم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اگر چہ پاکستان کی طرف سے روسی تیل کی مجوزہ درآمد کے معاملے بارے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ماسکو کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرنے کا اب وقت نہیں ہے لیکن پاکستان کی گرتی ہوئی کمزور معیشت کو اس وقت سہارا دینے کیلئے کسی بھی دباؤ میں آئے بغیر پڑوسی ملک کیسا تھ دو طرفہ تعاون بڑھانے پر توجہ دینا موجودہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے کیونکہ رعایتی قیمت پر خام تیل کی خریداری سے ادائیگیوں کے توازن کے بحران اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی سے دو چار پاکستانی معیشت کو سہارا ملنے کی توقع ہے کیونکہ پاکستان کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہی تیل اور گیس کی درآمد پر خرچ ہونے والے بھاری زر مبادلہ کا انتظام کرنا ہے جبکہ روس کے پاس تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور اس وقت روس کو وسائل کی بھی اشد ضرورت ہے اسی لئے وہ عالمی منڈی کے نرخوں سے کم ریٹ پر تیل فروخت کر رہا ہے لہٰذا پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے جیسا کہ بھارت اور بنگلہ دیش نے اٹھایا ہے ان کے علاوہ ترکیہ نے بھی سستی ڈیل کر کے فائدہ اٹھایا ہے لہٰذا موجودہ حکومت کو روس سے تعلقات کو فروغ دینے کیلئے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ بھی اپنے تعلقات نہ صرف قائم رکھنے ہیں بلکہ خوشگوار بھی بنانے ہیں جس کیلئے موجودہ حکومت کو بڑی متوازن حکمت عملی تیار کرنی ہوگی حالانکہ اگر دیکھا جائے تو افغانستان کے راستے وسط ایشیا کے ساتھ زمینی راستے سے تجارت پاکستان کا ایک پرانا خواب تھا، جس کی راہ میں واحد رکاوٹ افغانستان کی خانہ جنگی تھی ، کابل میں طالبان حکومت آجانے کے بعد پاکستان کا یہ خواب اس طرح سے پورا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے کہ ایک جانب سمندری راستے سے روس کا پٹرول پاکستانی معیشت کی بحالی کے استعارے کے طور پر کراچی پہنچ چکا ہے تو دوسری جانب اس کے ایک روز بعد روسی ایل پی جی لے کر ٹرکوں کا ایک قافلہ طورخم بارڈر سے پاکستان میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ الگ بات کہ تاریخ کا یہ اہم ترین باب اس وقت لکھا جا رہا ہے ، جب پاکستان معاشی اور سیاسی عدم استحکام سے یوں متحمل ہے کہ اپنی اس کامیابی کی خوشی منانے کی بھی اسے فرصت نہیں۔ اسی تاریخی کامیابی کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان بھی سستی ایل این جی کا ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت ہر ماہ آذر بائیجان سے کارگو گیس لے کر پاکستان پہنچا کرے گا۔ افغانستان کے راستے تجارت اور دو خطوں کے درمیان رابطے کی یہ شروعات ہیں، آنے والے دنوں میں جب تاجکستان پاکستان ٹرانسمشن لائن، تاپی گیس منصو بہ اور ٹرانس افغان ریلوے وسط ایشیا کو پاکستان سے ملا دے گا تو یہ پورا خطہ ماسکو سے خنجر اب اور شائد اس سے بھی آگے تک ایک قدرتی اقتصادی بلاک کی صورت اختیار کر لے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قدرت پاکستان پر مہربان ہے ، ہمارے اردگرد ایک بار پھر تاریخ انگڑائی لے رہی ہے، ترقی اور تعمیر کے نئے در کھل رہے ہیں، نئے مواقع جنم لے رہے ہیں۔ قریباً نصف صدی تک افغان جنگ کی پریشانیاں سمیٹنے کے بعد اب اپنے افغان بھائیوں کی معیشت میں ترقی و معاشی استحکام میں ایک دوسرے کے دست و بازو بننے اور اپنی ضروریات اپنے اڑوس پڑوس سے کم وقت اور کم خرچ پر پوری کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں ایک مستحکم ، بہادر، دیانتدار اور صاحب بصیرت حکومت قائم ہو، جو ہوش مندی اور جرات کے ساتھ ان مواقع کو بروئے کار لا سکے اور پورے خطے کو ترقی و خوشحالی کی مشترکات میں شریک کر سکے، تا کہ دہائیوں سے جنگ، بد امنی اور دہشت گردی کا شکار پاکستانی قوم بھی سکھ کا سانس لے سکے۔ خطرہ یہ ہے کہ اگر اس اہم ترین موقع پر کہ جب نئے اقتصادی بلاک تشکیل پا رہے ہیں، تجارت کے نئے روٹ بن رہے ہیں، ہم اپنے خلفشار سے نکلنے میں ناکام رہے تو موقع کھو نہ دیں ۔ ہمارے دشمن استعمار کی کوشش یہی ہے کہ ہمارے اندر سے اپنے ایجنٹوں کو استعمال کر کے پاکستان کو اسی عدم اعتماد کی دلدل میں دھکیلے رکھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ہر قیمت پر عوام کے لئے ریلیف کو یقینی بنائے اور پٹرول، گیس کے فوائد جلد از جلد عوام کو منتقل کئے جائیں اور آئندہ کے لئے بھی پڑوسی ممالک ایران، افغانستان اور وسط ایشیا سے سستی اشیاء ضرورت کی تجارت کو ممکن بنا یا جائے۔

جواب دیں

Back to top button