Column

اشرافیہ کا پاکستان

یاور عباس

پاکستان کے موجودہ حالات کی ذمہ داری بلاشبہ ان 2فیصد اشرافیہ پر ہے، جن کا پاکستان سے صرف اتنا ہی رشتہ ہے کہ وہ یہاں کے وسائل پر قبضہ جمائیں، خزانہ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹیں اور بیرون ملک جاکر اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی عیش و عشرت سے گزاریں۔ قیام پاکستان کے وقت یہی اشرافیہ جو قائداعظمؒ کے مخالف تھے اور کانگریس کا ساتھ دے رہے تھے، پاکستان کے وجود میں آتے ہی تحریک پاکستان کے رہنمائوں کو ایک ایک کر کے راستے سے ہٹاتے گئے اور اس ملک کے ریاستی، معاشی اور انتظامی معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کرتے چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کوئی غریب آدمی اقتدار کی پہلی سیڑھی پر بھی پائوں نہیں رکھ سکتا۔ کوئی کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو اگر اس کے پاس وسائل نہیں تو وہ کچھ نہیں ۔ گزشتہ تین دہائیوں میں تو اشرافیہ نے پاکستان کو وہ حشر نشر کیا ہے کہ غریب عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھیننے والی بات کی ہے اور غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری کو وہ تحفہ دیا ہے کہ شاید پاکستان کو اس دلدل سے نکلنے میں کئی دہائیاں لگ جائیں ، یہاں سرمایہ دارانہ اور اشرافیہ نے ایسی بساط بسائی ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو وہی چہرے دوبارہ عوام پر مسلط ہوجاتے ہیں صرف پارٹی کا نام تبدیل ہوتا ہے اور کچھ لوگ سسٹم سے کچھ عرصہ کے لیے باہر ہوجاتے ہیں اور اگلی باری ان کی آجاتی ہے ۔
ستم ظریفی کی بات ہے کہ ریاست کے وسائل سے فائدہ اٹھانے والوں نے ریاست کو مضبوط کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ مسلم لیگ ن کی تین دفعہ وفاق میں حکومت اور تیس سال کے قریب پنجاب میں حکومت ہونے اور اسی طرح پیپلز پارٹی کی وفاق میں تین بار حکومت اور سندھ میں کوئی تین دہائیوں تک حکومت کے باوجود انہوںنے کوئی ایسا سرکاری سکول قائم نہیں کیا جہاں وزراء اور بیورو کریٹس کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں بلکہ اشرافیہ آج بھی اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلوا رہے ہیں۔ کوئی ایسا ہسپتال نہیں بنا سکے جہاں ان کے علاج ہو سکے بلکہ انہیں تو کانٹا بھی چبھ جائے تو بیرون ملک علاج کے لیے دوڑے چلے جاتے ہیں۔ تمام اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری افسران کی بھی یہی حالت ہے کہ وہ اپنے ملک میں سروس تو کرتے ہیں مگر اس کے بعد زندگی بیرون ملک جاکر گزارنا ہی پسند کرتے ہیں۔ عشرت العباد 11سال تک مسلسل گورنر سندھ رہنے کے باوجود استعفیٰ دینے کے بعد ایک دن بھی پاکستان میں نہ رہے۔ یہی حالات آج کل تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کے ہیں جو 4ہفتے کی چھٹی لے کر علاج کروانے گئے تھے اور اب ان کے بھائی ملک کے وزیر اعظم ہیں مگر چار سال گزرنے کے بعد پاکستان واپس نہیں آرہے۔ ریٹائرڈ آرمی جنرلز ، ریٹائرڈ ججز ، ریٹائرڈ بیوروکریٹس کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو بیرون ملک مستقل رہائش پذیر ہوچکے ہیں۔
اشرافیہ اور حکمران اگر پاکستان کو سنوارتے اور اس کے حالات بہتر بناتے تو شاید آج انہیں باہر جا کر زندگی نہ گزارنا پڑتی ۔ بلکہ اشرافیہ کا تو مشن ہی یہی ہے کہ اس ملک کو لوٹا جائے اور وہ لوٹ رہے ہیں۔ اور ان کی عیاشیوں کا ازالہ کر رہی ہیں یہاں کے محنت کرنے والے غریب مزدور، کسان ، ملازمت پیشہ مڈل طبقہ۔ حالات ٹھیک ہوں بھی تو کیسے جن لوگوں نے قانون سازی کرنی ہوتی ہے وہ کون سا عوام کے ووٹوں سے آتے ہیں بلکہ وہ تو سرمائے کی طاقت سے اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں جو عوام میں پیسے نہیں خرچ کر سکتی وہ ممبران اسمبلی کو خرید کر سینیٹ میں پہنچ جاتے ہیں اور کچھ تو حکمرانوں کو خوش کر کے مشیر بن کر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں۔ ایسے میں عام آدمی کے حالات بہتر بنانے کا کون سوچے گا اور وہی اشرافیہ اپنا راستہ خود تو بند نہیں کرنے دیں گے کرپشن کا۔ پاکستان کے سیدھی سادھے لوگ ہمیشہ سیاسی جھانسوں میں آجاتے ہیں اور سیاستدانوں کے نئے نعروں پر یقین کر لیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ شاید اس دفعہ انہیں عقل آگئی ہے اور وہ عوام کا سوچ رہے ہیں مگر ہوتا اس کے برعکس ہے ، پرویز مشرف نے احتساب کے نام پر عوام کا اعتماد حاصل کیا اور پھر این آر او دے کر اسی اشرافیہ کو ساتھ ملا کر اپنا اقتدار مضبوط کرلیا اور اس کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں عالمی عدالتوں میں ہمیں اربوں ڈالر کے جرمانے ہورہے ہیں ۔
عمران خاں دونوں بڑی پارٹیوں کے کرپٹ لیڈروں کے احتساب کا نعرہ لے کر اقتدار میں تو آگئے ہیں مگر اپنا پورا زور لگانے کے باوجود اشرافیہ سے لوٹی ہوئی دولت واپس کروانے میں ناکام رہے اور وہ اشرافیہ جو ان کے دائیں بائیں بیٹھی ہوتی تھی ان کی وجہ سے کبھی آٹا بحران ، کبھی چینی بحران ، کبھی پٹرول بحران کا سامنا کرنا پڑا اور عمران خاں کے انہی ساتھیوں کو جنہیں کبھی مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی والے عمران خاں کی اے ٹی ایمز اور چینی چور کہتے تھے آج پی ٹی آئی پر مشکل دور آیا تو وہ سب عمران خاں کا ساتھ چھوڑ گئے اور استحکام پاکستان پارٹی بنالی۔ سروے کے مطابق پاکستان کے 90فی عوام پارٹیاں بدل کر اقتدار میں شامل ہونے والے انہیں الیکٹ ایبلز کو پاکستان کے غیر مستحکم ہونے کا ذمہ دار گردانتے ہیں ۔
اشرافیہ کا احتساب کرنے کے لیے ریاستی اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس دن پاکستان کے ریاستی ادارے اتنے مضبوط ہوگئے کہ وہ جس پر ہاتھ ڈالیں ان سے لوٹی ہوئی دولت نکلوا لیں تو پھر پاکستان کی خوشحالی کا سفر شروع ہوگا۔ ریاستی اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے پارلیمان کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور فوج کو بھی اپنا آئینی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور اداروں کے اندر بھی خود احتسابی کا عمل مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے معاشی حالات اس پستی کا شکار ہوچکے ہیںکہ ہم آئی ایم ایف کی غلامی کرنے پر مجبور ہوں۔ ملک چلانے کے لیے آئی ایم ایف کا سہارا لینا مجبوری بن چکی ہے۔ ان حالات میں بے رحم احتساب ہی وقت کی ضرورت ہے۔ اگر اشرافیہ کا احتساب نہ کیا گیا اور انہیں اسی طرح لوٹ مار کرنے کی کھلی چھٹی دی رکھی تو پھر خدا جانے ہمارا آنے والا وقت کیسا ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button