Column

سسرال جانے سے باز آئے

سیدہ عنبرین

سورج اور سیاسی سورج دونوں سوا نیزے پر ہیں اسکی زد میں جو آتا ہے کباب بن جاتاہے جنہیں بیف پسند نہیں وہ اسے چکن تکہ سمجھ لیں۔ کباب تو پھر چند منٹ بعد سیخ سے اتر کر سکھی ہو جاتا ہے اہل پاکستان کے مقدر میں فی الحال سکھ دور دور تک نظر نہیں آتا، عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، عوامی لیڈر سیاسی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے عہد میں دو پراجیکٹس کا بڑا چرچا رہا۔ ایک 1122اور دوسرا پڑھا لکھا پنجاب، آج حالات نے پرویز الٰہی صاحب کو پڑھنے ڈال دیا ہے۔ وہ لکھی پڑھی ضرورت کے تحت تحریک انصاف میں اس وقت شامل ہوئے جب ایک دوسرے بڑے اتحاد کے ساتھ ان کے معاملات فائنل ہو چکے تھے، فیصلہ تو انکا تھا لیکن انہوں نے یہ سہرا مونس الٰہی کے سر باندھنا زیادہ مناسب سمجھا۔ اب مونس الٰہی ٹھنڈی فضائوں میں ہیں جبکہ پرویز الٰہی گرم ریت پر ہیں، دونوں کروٹیں بدل رہے ہیں، نیند دونوں کی آنکھوں سے کوسوں دور بتائی جاتی ہے۔ چند روز پہلے عدالتی پیشی کے موقع پر پرویز الٰہی جو شکوے کر گئے ان سے انکے آئندہ کے لائحہ عمل کی خبر ہو گئی ہے۔ انہوں نے بعد ازاں دوسرا سندیسا اپنی اہلیہ کی زبانی رکھا، زماں پارک کو ان دنوں اپنی پڑی ہے وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ کوئی احتجاج ہوا نہ مذمتی بیان آیا، اب دو روز قبل خاندان کے حقیقی سربراہ چودھری شجاعت حسین نے ان سے جیل میں ملاقات کی ہے اور بیان جاری کیا ہے کہ وہ قائداعظم مسلم لیگ میں ہی ہیں گویا پرویز الٰہی کی تحریک انصاف سے واپسی کا غیر رسمی اعلان ہو گیا ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ انہیں عید کی خوشیاں دوبالا کرنے کیلئے عید اپنے اہل خانہ کے ساتھ منانے کا موقع دیا جائیگا۔
یاد رہے دونوں بھائیوں کی ملاقات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی جس کے لئے حکومت پنجاب کی ایک اعلیٰ افسر چودھری شجاعت کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر اس ملاقات کیلئے لے کر گئے تھے۔ دو ہفتے پہلے تک کا منظر نامہ کچھ یوں تھا کہ کوئی تحریکی ایک مقدمے میں ضمانت حاصل کرتا تو دوسرے مقدمے میں گرفتاری کی سعادت حاصل ہو جاتی ۔ اب ایک تبدیلی نظر آرہی ہے، شاہ محمود قریشی اور بعض دیگر لیڈر عدالت کے روبرو پیش ہوئے، ضمانت منسوخ ہو گئی۔ خیال تھا انہیں ایک مرتبہ بھر گرفتار کر لیا جائیگا لیکن ایسا نہ ہوا۔ شاہ محمود قریشی اور ساتھی خراماں خراماں چلتے اپنی گاڑی میں بیٹھے اور روانہ ہو گئے۔ کوئی پلٹا نہ ان پر جھپٹا، کسی نے راستہ روکا نہ کوئی اور رکاوٹ کھڑی کی۔ بادی النظر میں یوں لگتا ہے جیسے ان سے یہ حسن سلوک بھی عید پیکیج کا حصہ ہے۔
ٹیریان کے ڈیڈی نے اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والی متعدد گرفتار شدہ خواتین کے بارے میں جب یہ کہا کہ جیل میں انکے ساتھ زیادتی کی اطلاعات ہیں تو ایک تشویش کی لہر ابھری۔ اس سیاسی بیان سے سیاسی خواتین کے سیاسی و معاشرتی مستقبل کو شدید ٹھیس پہنچی بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ اس بیان نے انہیں اب کہیں کا نہیں چھوڑا، بعد ازاں متعدد خواتین نے اسکی میڈیا کیمروں کے سامنے تردید کی اور کہا کہ کسی کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا لیکن اسکے باوجود خواتین اپنی عادت سے مجبور ہیں لہٰذا جب سیاسی خواتین کو رسائی ملے گی تو انکی قریب ترین سہیلیاں ان سے انتہائی رازداری میں یہ پوچھیں گی کہ ہمیں تو اصل بات بتا دو، ہم سے کیا پردہ، ہم نے کونسا کسی کو بتانا ہے۔ قید سے رہا ہونے والی تمام خواتین کو اس مشکل کا سامنا ہوگا کہ وہ حلفیہ بیان بھی دے دیں کہ ان کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ انکی یہ قریبی سہیلیاں کبھی نہ مانیں گی بلکہ مزید چسکے کی خاطر بیانات جاری کریں گی کہ ٹھیک ہے نہ بتانا چاہو تو نہ بتائو، ہمیں تو یہ بات پارٹی سربراہ نے بتائی تھی اور جو بات وہ کہتے ہیں وہی ٹھیک ہوتی ہے۔
ہیومن رائٹس کیلئے کام کرنے والے مختلف اداروں سے وابستہ خواتین نے ایک گروپ کی شکل میں ان سیاسی قیدی خواتین سے ملاقات کی جن پر دہشت گردی اور ملٹری تنصیبات کو نقصان پہنچانے یا اسکے لئے اکسانے کے الزامات ہیں۔ انہوں نے ہر قیدی خاتون سے علیحدہ علیحدہ اس حوالے سے پوچھا لیکن انہیں ایک ہی جواب ملا کہ کسی خاتون کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ تمام خواتین کی ہر قسم کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے انہیں ایک ہی بیرک میں رکھا گیا ہے جہاں انہیں قانون میں موجود تمام سہولتیں میسر ہیں۔ انکی نگرانی پر مامور سٹاف خواتین پر مشتمل ہے، کسی مرد کو انکے قریب پھٹکنے کی اجازت نہیں۔ مزید برآں ہر قسم کے منفی پراپیگنڈے اور انتشار پھیلانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے اس بیرک میں لگائے گئے کیمرے چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں۔ انکی فوٹیج کو محفوظ رکھا جا رہا ہے اور کسی بھی موقع پر کسی بھی افسر یا عدالت کی طرف سے طلب کرنے پر یہ ویڈیو ریکارڈ پیش کیا جا سکتا ہے ۔
قیدی خواتین تمام دن آپس میں گپ شپ کرتی نظر آتی ہیں ، چند ایک نماز پڑھتی ہیں جنہیں نماز نہیں آتی یا بوجہ وہ نہیں پڑھنا چاہتیں وہ بھی اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوششیں کرتی نظر آتی ہیں۔
مبینہ طور پر بتایا گیا ہے کہ کچھ خواتین سگریٹ نوش ہیں، کچھ کی ضروریات کچھ اور ہیں لیکن جیل حکام ان سے اسی طرح تعاون کرتے ہیں جس طرح مرد ملزمان سے کیا جاتا ہے، جیل کی اپنی دنیا ہے، اس دنیا میں ہر شخص کو اسکی ضرورت کی چیز مل جاتی ہے، خواتین کو ایک سہولت حاصل ہے کہ خواتین سے کوئی بدتمیزی نہیں کرتا کیونکہ تمام خواتین پڑھی لکھی اور متمول خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں، وہ عام شام ہوتیں تو وہ سلوک کیا جاتا ہے جسے جیل کی زبان میں سکہ رائج الوقت کہا جاتا ہے۔
قیدی خواتین تک رسائی رکھنے والے ذرائع کے مطابق تمام خواتین اس بات پر ملول ہیں اس مرتبہ انہیں عید جیل یا حوالات میں کرنی پڑے گی، وہ شاپنگ نہیں کر سکیں گی البتہ رنگ برنگے ملبوسات اور رنگ برنگے کھانے انہیں وہاں بھی پہنچا دیئے جائینگے، انکے عزیز و اقارب ان سے عید ملنے بھی آ سکیں گے کہ یہ تمام حقوق جیل مینوئل میں درج ہیں البتہ تمام خواتین قربانی کا گوشت اپنے عزیز و اقارب کے یہاں بھجوانے اور وصول کرنے سے محروم رہیں گی۔
تمام خواتین کا مشترکہ پروگرام ہے کہ عید اور اسکے دوسرے روز اپنی ملاقات کیلئے آنے والوں کو پیغام دیا جائے گا کہ انکے حوصلے بلند ہیں، وہ نہایت ہمت اور بہادری کے ساتھ جیل کی سختیاں برداشت کر رہی ہیں، یہ مظالم انکے حوصلے پست نہیں کر سکے، وہ جیل سے کندن بن کر نکلیں گی۔
یہ الگ بات کہ تمام خواتین اپنے انتہائی قریبی عزیزوں کو خدا حافظ کہتے وقت انکے کان میں کہیں گی، دعا کرو صدقہ دو کہ اس قید سے ہماری رہائی ہو، ہمیں تو شیخ رشید نے ورغلایا اور پھنسایا کہ ہتھکڑی زیور اور جیل سسرال ہوتی ہے ۔
خواتین خوش قسمت ہیں انہیں زیور نہیں پہنائے گئے، صرف سسرال کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا لیکن تمام خواتین اس بات پر متفق ہیں کہ ہم تو عمر بھر کیلئے اس سسرال جانے سے باز آئے۔

جواب دیں

Back to top button