Columnمحمد مبشر انوار

تولو پھر بولو

محمد مبشر انوار(ریاض)

عزت و شہرت پانے کا فطری جذبہ ہر انسان میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے جبکہ عزت و شہرت بنیادی طور پر کسی ایسے شخص کا نصیب ہے جو اپنے شعبہ زندگی میں حد سے زیادہ محنت کرتا ہے اور اپنی سمت کو مثبت رکھتے ہوئے، اپنے شعبہ میں کامیابیوں کے سنگ میل طے کرتا چلا جاتاہے۔ ایسی شخصیات میں کئی ایک ایسی بھی منظر عام پر آتی ہیں کہ جو اپنے شعبہ سے نکل کر کسی دوسرے شعبہ میں قدم رکھتی ہیں اور وہاں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑتی نظر آتی ہیں، ایسی شخصیات کو بالعموم ایک منفرد، یکتا اور نابغہ روزگار شخصیت کہا جاتا ہے کہ جس شعبہ سے بھی منسلک ہوں وہاں اپنی اہمیت تسلیم کروا لیتی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کئی ایک ایسی نابغہ روزگار ہستیاں بھی ہوتی ہیں کہ جو فقط اپنے شعبہ میں ہی اپنی صلاحیتیوں کا اظہار کرتی ہیں اور رہتی دنیا تک ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے، نئے آنے والے ان سے رہنمائی کے طلبگار ہوتے ہیں، ان سے سیکھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں، ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کامیابی کے نئے آسمانوں کو چھوتے ہیں اور اپنے شعبہ کو امر کر جاتے ہیں۔ ایسی عوامی شخصیات کی زندگی انتہائی کٹھن اور پل صراط پر چلنے کی مانند ہوتی ہے کہ ان کے چاہنے والے، ان کی پیروی کرنے والے، ان کا ساتھ دینے والے اپنی محبوب شخصیت کے نقش پا پر چلنے کی لاشعوری کوششیں کرتے ہیں، ان جیسا بننے کی کوششیں کرتے ہیں اور ہر دم ان کا ساتھ نبھانے میں کوشاں رہتے ہیں۔ کرہ ارض پر ایسی کامل شخصیت جس کی پیروی، جس سے غیر مشروط محبت، اس کے چاہنے والے تا قیامت کرتے رہے گے، فقط سرکار دو عالمؐ ، آقائے دو جہاں محمد مصطفیٰؐ کی ذات با برکات کے علاوہ دوسری کوئی نہیں، حتی کہ ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین سے محبت و عقیدت بھی، آقائے دو جہاںؐ کے نام لیوا غیر مشروط محبت کرتے ہیں، اطاعت کرتے ہیں، لیکن جو مقام رسولؐ اللہ کو حاصل ہے، روئے زمین پر کسی دوسری شخصیت کو وہ مقام و مرتبہ حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔ نبی اکرمؐ دو جہانوں کے لئے کامل رحمت بنا کر بھیجے گئے، ایک واضح مقصد ان کا نصب العین رہا کہ جس کی خاطر انہیں اس دنیاوی زندگی کی تکالیف، مصائب و الم برداشت کرنے پڑے، مخلوق خدا کو رب عظیم کی وحدانیت کا پیغام دیتے ہوئے، لہولہان ہونا پڑا لیکن آپ ؐ کے لب مبارک سے بالعموم نہ تو کلمہ نا شکر نکلا اور نہ ہی مخلوق خدا کے لئے کوئی بددعا نکلی۔ جبرئیل امینٌ ،آپؐ پر طائف کے پہاڑوں میں ہونے والے مظالم پر حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اگر حکم ہو تو ان پہاڑوں کو ان ظالموں پر پیس دیا جائے، تب بھی آپؐ کے لب مبارک سے ارشاد ہوا کہ نہیں، ہو سکتا ہے ان کی اولادیں ایمان لے آئیں۔ ایک واضح مقصد، نصب العین میں تکالیف درپیش ہونا، ان پر صبر کرنا، جہد مسلسل جاری رکھنا اور نتائج کو اللہ کی ذات پر چھوڑنا ہی بہترین لائحہ عمل ہے، جیسا کہ رب کریم نے بھی اپنے محبوبؐ سے فرمایا کہ اے محبوبؐ آپؐ پر صرف کوشش فرض ہے، نتائج کے ذمہ دار آپؐ نہیں ہیں ( مفہوم)۔
نبی اکرم ؐ کے بعد، آپ ؐ جیسی کوئی شخصیت روئے زمین و چشم فلک کبھی دیکھ نہیں پائے گی، کہ وہ یکتا رہیں گے، البتہ اس کے باوجود روئے زمین پر ایسی شخصیات جنم لیتی رہی ہیں کہ جن کے بلند و بالا مقاصد، ان کی جدوجہد کو جلا بخشتے ہیں اور ان مقاصد کے حصول کی خاطر وہ اپنی پوری زندگی بسر کر دیتے ہیں۔ یہاں پھر وہی اصول کارفرما ہے کہ کئی ایک شخصیات کو رب کریم کی ذات کسی مقصد کے لئے چن لیتی ہے، اور ان کی کوششوں کو بار آور بھی کر دیتی ہے جبکہ کئی شخصیات دشت کی سیاحی کرتے کرتے جان کی بازی ہار جاتی ہیں لیکن ان کی جلائی ہوئی شمع سے، اس علم کو کوئی اور تھام کر کامیابی کی منزل حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن ایسی تمام کامیاب شخصیات میں قدر مشترک چند ایک خصوصیات ہوتی ہیں کہ جن کی بدولت رب کریم انہیں کامیابی کے ساتھ ساتھ عزت بھی عطا کرتے ہیں اور رہتی دنیا تک ان کا نام تاریخ میں سنہرے حروف سے جگمگاتا نظر آتا ہے۔ گزشتہ صدی میں بابائے قوم کی شخصیت بعینہ ایسی ہی نظر آتی ہے کہ جنہوں نے ایک واضح مقصد کے حصول میں اپنی زندگی وقف کر دی، اور اس کے حصول میں اس طرح کامیاب ہوئے کہ اقوام عالم آج بھی انگشت بدنداں ہیں کہ کس طرح ایک شخص نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک پرچم، ایک نعرے تلے جمع کیا اور انہیں اپنے وقت کی دو مکار ترین قوموں سے آزادی دلائی۔ قائد اعظمؒ کی اس جدوجہد میں وہ اپنے تمام ہمعصروں سے ممتاز نظر آتے ہیں کہ تحریک کے دوران، کسی بھی موقع پر ایسی کوئی بھی شہادت سامنے نظر نہیں آتی کہ جہاں قائد اعظمؒ نے کوئی قانون شکنی کی ہو یا ان سے کوئی جرم سرزد ہوا ہو۔ کسی بھی لمحہ یہ گمان تک نہیں ہوتا کہ قائد اعظمؒ نے خود کو قانون سے بالا سمجھا ہو یا اپنے مقصد کے حصول میں خلاف قانون کوئی عمل کیا ہو جبکہ دوسری طرف ان کے مخالف رہنمائوں میں یہ حقیقت واضح ہے کہ کئی ایک مواقع پر انہوں نے قانون شکنی کی اور اس کی پاداش میں جیل کی ہوا بھی کھائی۔ مقصد سے ایمان کی حد تک عقیدت و محبت کا دوسرا اظہار نیلسن منڈیلا ہیں کہ جنہوں نے اپنے وطن کی غلامی کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی اور قابضین کو بہر صورت اپنے ملک سے نکل جانے پر مجبور کیا۔ اس دوران نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی کے ستائیس برس قید کوٹھڑی میں گزار دئیے لیکن اپنے مقصد کے حصول میں کہیں کوئی نرمی نہ دکھائی اور نہ ہی کوئی سمجھوتہ کیا البتہ بعد از آزادی، خود پر مظالم کرنے والے کو ایک عوامی جگہ پر کھانا کھاتے ہوئے اپنے ساتھ بھی بٹھایا، عوامی شخصیات کا یہ کردار ہی انہیں تاریخ میں امر کرتا ہے۔
پاکستان میں آزادی کے بعد جو ظلم پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ روا ہے، وہ کسی سے قطعی ڈھکا چھپا نہیں، نیلسن منڈیلا کی مثال سے پاکستانی اکابرین یہ توقع کرتے ہیں کہ چونکہ نیلسن منڈیلا نے اپنی ذات پر ظلم کرنے والے کو ساتھ بٹھا لیا تھا، بعینہ پاکستان میں بھی یہی رویہ رکھا جانا چاہئے تا کہ ملک و قوم آگے بڑھ سکے۔ افسوس صد افسوس ! کہ جس مثال کا حوالہ پاکستانی اکابرین دیتے ہیں، اس میں حاصل کلام سے دانستہ صرف نظر کرتے نظر آتے ہیں کہ نیلسن منڈیلا نے اپنی ذات پر ہونے والے مظالم اور ظلم کرنے والی شخصیت کو اپنے ساتھ اس لئے بٹھایا تھا کہ اسے کسی قسم کے انتقامی رد عمل کا خوف نہ ہو، جبکہ ملکی وسائل لوٹنے والوں کو قرار واقعی سزا نہ دے کر، انہیں مزید لوٹ مار کی شہہ دینا کسی بھی طور قابل فہم نہیں۔ بہرکیف! حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی قوم کی اکثریت اس وقت ایک ایسی شخصیت کے ساتھ کھڑی ہے کہ جس کی وجہ شہرت قطعی سیاسی نہیں تھی لیکن بقول اس شخصیت، عمران خان کہ ملکی حالات دیکھتے ہوئے اسے اپنے وطن اور ہم وطنوں کو گرداب سے نکالنے کا جنون طاری ہو گیا۔ اس دشت کی سیاحی میں عمران خان کو اس وقت اپنی پوری سیاسی جدوجہد میں سخت مشکلات کا سامنا ہے کہ اس کے ساتھی ایک ایک کرکے اس سے الگ ہوتے جارہے ہیں، وہ بظاہر تنہا دکھائی دیتا ہے لیکن ابھی بھی وہ اپنے مقصد سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں۔ اپنی اس جدوجہد میں اس پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا، جس میں وہ بال بال بچا ہے، اس حملے کی ایف آئی آر تک اس کی مرضی کے مطابق درج نہیں ہو سکی اور وہ مسلسل چند افراد کے خلاف اپنی ہر سیاسی تقریر میں ببانگ دہل کہتا رہا ہے کہ اسے مارنے کی کوشش کرنے والی شخصیات کون سی ہیں۔ عمران خان کو یہ اطلاعات نجانے کیسے اور کون سے افراد مہیا کرتے رہے ہیں اور نجانے کیوں عمران خان ان افراد پر اتنا اندھا اعتماد کرتے رہے ہیں کہ یوں سرعام ان افراد کو نامزد کرتے رہے ہیں۔ عمران خان کے سیاسی ساتھیوں کو الگ ہونے یا کرنے کے بعد، عمران خان کو مسلسل دیوار سے لگایا جا رہا ہے اور سب کے علم میں ہے کہ مساوی موقع فراہم کرنے کے لئے تحریک انصاف کو اس کی اوقات میں رکھنے کی سعی جاری ہے۔ نو مئی کے واقعات پر بننے والی جے آئی ٹی میں عمران خان پیش ہوئے اور تفتیشی ٹیم کے سوالوں کے جواب میں عمران خان کا یہ کہنا کہ ان کے پاس اداروں کے افسران کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کے ثبوت موجود نہیں، اس بنیاد پر مسلم لیگ ن کا میڈیا سیل، اس کو بھرپور ہوا دے رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی شہری پر ہونے والے قاتلانہ حملے پر وہ دشمنی کی بنا یا جان کو دی جانے والی دھمکیوں یا جان سے جانے پر فائدہ اٹھانے والوں میں سے کسی پر بھی شک کا اظہار کر سکتا ہے، ثبوت ڈھونڈنا اور ملزم سے تفتیش کرنا اداروں کا کام ہی۔ تاہم عمران خان کا اپنے جلسوں میں اس امر کا اظہار کہ ان کے پاس ثبوت ہیں، جس کا مطالبہ جے آئی ٹی نے کیا، اور عمران ان ثبوتوں سے منکر ہو گئے، ایک عوامی شخصیت کو قطعی زیب نہیں دیتا کہ اگر آپ کو ملنے والی اطلاع غیر حتمی اور مصدقہ ثبوتوں کے بغیر ہے، اس کا اعلان کسی بھی صورت عوام میں نہیں ہونا چاہئے، ایک عوامی رہنما کو بولنے سے پہلے تولنا ضرور چاہئے۔

جواب دیں

Back to top button