CM RizwanColumn

امریکہ سپر پاور، ڈالر سپر کرنسی

سی ایم رضوان

گوکہ زبان کا ذائقہ بدلنے اور خواہ مخواہ توجہ ہٹانے کے لئے پچھلے چند سالوں سے اکثر یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکی ڈالر پر دنیا کا انحصار ختم ہو گیا ہے۔ یہ خبر بھی شاید ریٹنگ کے لئے گردش کر رہی ہے کہ دنیا سے ڈالر کی بادشاہی ختم ہونے والی ہے حالانکہ آج بھی بلکہ جب تک امریکہ سپر پاور ہے تب تک ڈالر کو دنیا بھر میں ایک مضبوط عالمی کرنسی کے طور پر دیکھا جائے گا۔ سب کو اعتراف ہے کہ سابقہ کئی عشروں سے زیادہ تر بین الاقوامی تجارت اور مالیاتی لین دین کے لئے امریکی ڈالر کا ہی استعمال کیا جا رہا ہے اور یورو اور یوآن کی دنیا میں کسی حد تک زیادہ مقبولیت بھی ہو چکی ہے اور بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں کئی معاشی ماہرین اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ شاید آنے والے برسوں میں امریکی ڈالر کے پاس وہ مقام نہ رہے جس پر وہ ابھی تک براجمان ہے۔ اس حوالے سے اکثر یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ یوکرین، روس جنگ، امریکہ کی چین کے ساتھ تجارتی جنگ، امریکی قرض کی حد پر واشنگٹن میں ہونے والی لڑائی نے دنیا کی سب سے بڑی کرنسی کے مستقبل پر سوال اٹھا دیئے ہیں لہٰذا اب ڈالر پر بھی زوال آ جائے گا۔ یاد رہے کہ ڈالر آج بھی دنیا کی ساٹھ فیصد سے زیادہ حجم رکھنے والی ریزرو کرنسی ہے اور دولت ذخیرہ کرنے والے ممالک اور بزنس ٹائیکون اسی کرنسی کو ذخیرہ کرتے ہیں کیونکہ یہ آج بھی دنیا میں کہیں بھی متبادل چیزوں کے حصول کے لئے کام آنے والی کارآمد ترین عالمی کرنسی ہے۔ اس کے بینکوں میں اکائونٹ سب سے زیادہ ہیں۔
امریکی ڈالر کو بین الاقوامی کرنسی کا درجہ 1944میں اس وقت ملا جب بریٹن ووڈز کانفرنس میں 44ملکوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک قائم کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے میں کرنسیوں کے تبادلے کے لئے ڈالر کو پیمانہ مقرر کیا گیا۔ امریکی ڈالر کو یہ حیثیت اس لئے دی گئی کیونکہ امریکہ کے پاس دنیا بھر میں سونے کے سب سے زیادہ ذخائر ہیں، جن کی موجودہ مقدار 8133ٹن ہے۔ یاد رہے کہ کرنسی نوٹ کے پیچھے سونے کی طاقت ہوتی ہے اور کرنسی جاری کرنے والا ملک اس کے بدلے میں سونا یا متبادل قیمت دینے کی ضمانت دیتا ہے۔ اگر ماضی میں جھانکیں تو ڈالر سے پہلے پچھلے 600سال میں پرتگال، سپین، ہالینڈ، فرانس اور برطانیہ کی کرنسیاں دنیا کی سب سے بڑی کرنسی ہونے کے اس مقام پر فائز رہ چکی ہیں جس پر اس وقت امریکی ڈالر ہے۔ آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق 2022کی چوتھی سہ ماہی میں امریکی سرکاری غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں ڈالر کا حصہ 20سال کی کم ترین سطح یعنی 58فیصد پر آ گیا، جو کہ 1995کے بعد مرکزی بینکوں کے غیر ملکی ذخائر میں ڈالر کے حصے کی کم ترین سطح ہے لیکن اس کے مقابلے میں کوئی بھی کرنسی ابھی تک اس قابل نہیں ہوئی کہ اس کے مجموعی حجم سے اوپر جا سکے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگیں صرف نقشے ہی تبدیل نہیں کرتیں بلکہ اور بھی بہت سی حقیقتیں بدل دیتی ہیں۔ اسی طرح روس یوکرین جنگ نے بھی دنیا کی بہت سی حقیقتوں کو تبدیل کر دیا ہے۔ جس کی ایک مثال جنگ کی وجہ سے روس پر لگنے والی اقتصادی پابندیاں اور ان کی وجہ سے اس ملک کے ساتھ امریکی ڈالر میں لین دین کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ان پابندیوں کے بعد چین روس کے ساتھ زیادہ تر تجارت اپنی کرنسی یوآن میں کر رہا ہے۔ اسی طرح مغربی ملکوں کی جانب سے روس پر عائد معاشی پابندیوں کے نتیجی میں روس کی بڑی کمپنیوں نے بھی ڈالر کی بجائے دیگر غیر ملکی کرنسیوں پر انحصار کرنا شروع کر دیا ہے جس میں چینی کرنسی یوآن کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔
روس پر عائد پابندیوں کی وجہ سے یہ قیاس آرائیاں بڑھ رہی ہیں کہ امریکہ کے کئی اتحادی ڈالر کے عالمی مالیاتی نظام سے دور ہو جائیں گے۔ جیسا کہ روس یوکرین جنگ کے بعد سے سعودی عرب، چین، بھارت اور ترکی جیسے ممالک دوسری کرنسیوں میں کاروبار کرنے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔ حال ہی میں بھارت نے انڈونیشیا کے ساتھ بھارتی روپے میں تجارتی لین دین کا معاہدہ کیا ہے۔ افریقی ممالک نے بھی ڈالر کو ترک کر دیا ہے۔ ادھر کینیا کے صدر ولیم روتو نے بھی افریقی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ افریقی ممالک کے درمیان تجارت میں امریکی ڈالر کے استعمال پر انحصار کم کر کے مقامی کرنسی کو فروغ دیں۔ جبوتی پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے دوران روتو نے جبوتی اور کینیا کے درمیان تجارتی لین دین کے لئے امریکی ڈالر پر انحصار ترک کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ’’ ہم امریکی ڈالر کے خلاف نہیں ہیں، ہم صرف زیادہ آزادانہ تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ جب ہم امریکہ سے کچھ خریدیں تو امریکی ڈالر میں ادائیگی کریں گے لیکن ہم جبوتی سے ہونے والی خریداری میں مقامی کرنسی استعمال کریں‘‘۔ صدر روتو نے اس بات پر بھی زور دیا کہ افریقی امپورٹ ایکسپورٹ بینک نے ایک ایسا طریقہ کار فراہم کیا ہے جو اس براعظم کے اندر تاجروں کو اپنی متعلقہ مقامی کرنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے تجارت کرنے کے قابل بناتا ہے۔ دوسری جانب مصر کے سپلائی کے وزیر علی موسلحی نے برکس ممالک ہندوستان، چین اور روس سے اپنی درآمدات کی ادائیگی کے لئے مقامی کرنسیوں کا استعمال کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اس سے قبل روس اور فرانس سمیت متعدد ممالک نے بھی ڈالر پر اپنا انحصار کم کر نے کا اعلان کیا ہے۔ ڈالر پر انحصار کم کرنے والے ممالک میں تاجکستان، کیوبا، لکسمبرگ، سوڈان، جنوبی کوریا، انڈونیشیا، سری لنکا اور ماریشس بھی شامل ہو چکے ہیں جنہوں نے بعض بین الاقوامی لین دین کے لئے مقامی کرنسیوں کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ دوسری طرف چونکہ عالمی جنوب کے اس بلاک پر پچھلے چند سالوں سے چین کا غلبہ رہا ہے۔ اس لئے یہ ممالک تجارتی معاملات میں ڈالر سے چینی کرنسی یا مقامی کرنسی کی طرف منتقل ہو رہے ہیں جبکہ حال ہی میں پاکستان نے بھی روسی تیل کی قیمت ادائیگی کے بعد پہلی مرتبہ چینی کرنسی میں تجارتی عمل شروع کر دیا ہی۔ امریکی ڈالر کے بعد اس وقت یورپی یونین کے یورو، جاپانی ین، برطانوی پائونڈ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے ڈالر کو مضبوط کرنسی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جبکہ اب چین بین الاقوامی مالیاتی لین دین میں اپنی کرنسی یوآن کا حصہ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اعداد و شمار کے مطابق 2022کی چوتھی سہ ماہی میں سرکاری غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں ڈالر کا حصہ 20سال کی کم ترین سطح یعنی 58فیصد پر آ گیا ہے جو کہ 1995کے بعد مرکزی بینکوں کے غیر ملکی ذخائر میں ڈالر کے حصے کی کم ترین سطح ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دنیا بھر میں تیل اور اجناس کی خرید و فروخت کے لئے سب سے زیادہ ڈالر کا استعمال ہوتا ہے اور یہ بھی کہ اب پابندیوں کے نتیجے میں ایران اور وینزویلا کے بعد روس کی مارکیٹ تک رسائی کے لئے بھی امریکی ڈالر استعمال نہیں کیا جا رہا۔ بھارت پہلے ہی روبل میں روس سے تیل خرید رہا ہے۔ چین نے روس سے 88ارب ڈالر کی مالیت کا تیل، کوئلہ اور دھاتیں چینی یوآن میں خریدی ہیں۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ 15سال پہلے چینی یوآن کا کرنسی کی عالمی منڈی میں لین دین نہ ہونے کے برابر تھا جو کہ اب سات فیصد تک آ گیا ہے۔ عالمی تجارتی کرنسی میں بھی نئے رجحانات سامنی آ رہے ہیں لیکن ان سب کے باوجود یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ امریکی منڈی جیسی وسعت، مدافعت اور فعالیت ابھی نہ کوئی دوسری منڈی حاصل کر سکی ہے اور نہ ہی ابھی تک دنیا کی کسی دوسری معاشی طاقت کے پاس اتنا سونا ہے کہ وہ ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کر سکے ۔ تیل کی قیمتوں کا تعین اب بھی امریکی منڈی کرتی ہے۔ لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ ابھی ڈالر کہیں نہیں جا رہا، کیونکہ ابھی بھی 66کھرب ڈالر کے عالمی تجارتی حجم کے ساتھ ڈالر عالمی منڈی میں موجود ہے اور 90فی صد عالمی تجارت امریکی ڈالر میں ہوتی ہے اور دنیا کے 60فی صد ممالک ریزرو کرنسی کے طور پر آج بھی ڈالر ہی پر انحصار کرتے ہیں۔ دنیا بھر کی کرنسیوں میں امریکی ڈالر کی قیادت کی ایک اہم وجہ ماہرین کے نزدیک یہ بھی ہے کہ امریکہ سپر پاور ہے اور جب تک امریکہ سپر پاور ہے، ڈالر دنیا کی سب سے بڑی کرنسی رہے گا۔

جواب دیں

Back to top button