ColumnFayyaz Malik

کامیاب پولیس آپریشن ، کچے کا علاقہ واگزار

فیاض ملک
کچے کا علاقہ تین صوبوں کا سرحدی علاقہ بھی ہے، پنجاب کا آخری ضلع راجن پور ہے جس کے ساتھ ہی صوبہ سندھ کا ضلع کشمور شروع ہو جاتا ہے۔ راجن پور کے مغرب میں کوہ سلیمان ہے جس کے آگے بلوچستان کا ضلع ڈیرہ بگٹی شروع ہو جاتا ہے، یوں اس علاقے کو ساحلی پٹی بھی کہتے ہیں۔ اپنی مشترک جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے یہاں تینوں صوبوں کی روایات موجود ہیں۔ قبائلی سسٹم یہاں عرصے سے رائج ہے اور قبیلے کا سردار ہی بیشتر معاملات میں سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے، یوں تو راجن پور، رحیم یار خان اور گردونواح میں متعدد قبائل موجود ہیں لیکن حالیہ دو عشروں میں راجن پور کا مزاری قبیلہ تمام قبائل کا سردار قبیلہ کہلاتا ہے اور لوگ فخریہ طور پر کہتے ہیں کہ وہ مزاری ہیں۔ اس کی دیگر وجوہات میں سابق نگراں وزیر اعظم میر بلخ شیر مزاری، ڈپٹی سپیکر شوکت حسین مزاری جیسی قد آور سیاسی شخصیات بھی ہیں۔ مزاری قبیلے کے ذیلی متعدد بڑے قبائل ہیں جن میں لاکھانی، بالاچانی، سرگانی، سکھانی، گورچانی اور لاٹھانی شامل ہیں۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف میں کچے کے علاقے میں سے کئی بڑے زمینداروں کی ہزاروں ایکڑ زمین ہے جس کو مقامی زبان میں کیٹی کہا جاتا ہے۔ کچے کا علاقہ سال کے زیادہ تر عرصے میں خشک رہتا ہے لیکن سیلابی موسم میں یہ پانی سے بھر جاتا ہے۔ دریائی معدنیات کی وجہ سے یہ زمین سب سے زیادہ زرخیز تصور کی جاتی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق یہاں 10 لاکھ سے زائد آبادی ہے، جس میں 80 فیصد لوگوں کا تعلق کھیتی باڑی سے ہے جبکہ 20 فیصد مال مویشی رکھتے ہیں۔ دریائے سندھ جیسے جیسے جنوب کی جانب بڑھتا ہے اس کی موجوں کی روانی سست اور اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے قریب اس کی وسعت اسے ایک بڑے دریا سے کئی ندی نالوں میں تبدیل کر دیتی ہے جن کے درمیان کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے نمودار ہوتے ہیں جن تک رسائی ریتلی زمین اور سڑکوں کی عدم موجودگی میں مشکل ہوتی ہے۔ یہ ساحلی پٹی جنوبی پنجاب، بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے سنگم پر واقع ہے اور یہ علاقہ مختلف عملداریوں کے درمیان واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں تک قانون کی رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔ پولیس کیلئے کچے کے کچھ علاقے ’’ نوگوایریاز‘‘ بن جاتے ہیں جہاں پولیس کیلئے کارروائی کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ کچھ ماہ قبل کچے کے ڈاکوئوں کی جانب سے وارداتوں میں اضافے کے پیش نظر تینوں صوبوں سندھ ، پنجاب اور بلوچستان کی پولیس کی جانب سے ایک مشترکہ آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ کچے کے ڈاکو جو تین دہائیوں سے زائد عرصے سے اپنی الگ ریاست بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کیخلاف بھی مختلف ادوار میں آپریشن کیا گیا جس کا سلسلہ آج تک پوری آب و تاب سے جاری ہے۔ ان ڈاکوئوں کیخلاف سب سے پہلا آپریشن 28 مئی 1992 میں ہوا تھا جوکہ ناکام ہوا۔ اگر کچے میں ہونیوالے آپریشنز کا ذکر کیا جائے تو 1992 سے اب تک کچے میں 17 آپریشن ہوئے اور 17 واں آپریشن اب بھی جاری ہے۔ لیکن اب نیشنل سکیورٹی کونسل کے حکم پر پنجاب میں شروع ہونیوالے آپریشن کی قیادت آئی جی ڈاکٹر عثمان انور جبکہ سندھ میں ضلع کشمور کے درانی مہر کچے میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن کر رہے ہیں۔ اس آپریشن کی خصوصیت یہ ہے کہ اس بار پنجاب پولیس،سندھ پولیس اور بلوچستان پولیس بیک وقت بھاری مشینری کے ہمراہ کچے کے علاقے میں کومبنگ آپریشن کر رہی ہیں۔ کچے کے جس علاقے میں آپریشن ہورہا ہے وہ دریائے سندھ کا اندرونی حصہ ہے جو ایک جزیرے کی مانند ہے اسے کچہ جمال کہتے ہیں اور اس کی لمبائی 10 سے 11 کلو میٹر اور چوڑائی دو سے اڑھائی کلو میٹر ہے، کچہ جمال کے چاروں اطراف دریا بہتا ہے، اس کے علاوہ کچہ مورو اور کچہ کراچی کے علاقے بھی ہیں جو جزیرے کی مانند ہیں۔ تمام گینگز کچے کے ان تینوں علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ ماضی میں جب بھی یہاں آپریشن ہوتا تھا تو جرائم پیشہ لوگ دریا کے راستے سے صوبہ سندھ منتقل ہو جاتے تھے اور حالات موافق ہونے پر دوبارہ یہاں واپس آ جاتے تھے۔ اب حالیہ پولیس آپریشن کے دوران جو حکمت عملی تیار کی گئی ہے اس میں دریائے سندھ کے اندر کشتی پر پولیس پٹرولنگ کرنا بھی شامل ہے۔ راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کی پولیس نے دو اطراف سے کچے کے علاقے کو گھیر رکھا ہے۔ تیسرا راستہ دریا کا ہے جہاں آپریشن شروع ہوتے ہی کشتی پر پٹرولنگ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا تاکہ ملزمان یہاں سے فرار نہ ہونے پائیں۔ پنجاب میں ہونیوالے آپریشن کی قیادت آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور خود کر رہے ہے، جس کیلئے گیارہ ہزار پولیس افسر اور اہلکار جنوبی پنجاب پہنچائے گئے ہیں۔ پولیس کا یہ گرینڈ کچہ آپریشن 70 ویں روز میں داخل ہوچکا ہے جس میں 12 ڈاکو ہلاک، 8 زخمی ہوئے جبکہ 26 ڈاکو سرنڈر،51 ڈاکو اس آپریشن میں گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ جواں مردی سے ان ڈاکوئوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک پولیس اہلکار محمد قاسم شہید جبکہ 3 زخمی بھی ہوئے اگر اس آپریشن میں ہونیوالی اموات کی شرح اور مجموعی صورتحال کو دیکھا جائے تو اس آپریشن کی کامیابی کا تناسب 99 فیصد رہا۔ اس تازہ آپریشن میں نو گو ایریا سمجھا جانے والا 60 ہزار ایکڑ کے لگ بھگ علاقہ واگزار کروا لیا گیا ہے۔ جبکہ کلئیر کروائے گئے علاقوں میں 3 پولیس کمیونٹی سکول، 2 ڈسپنسریاں قائم کی گئیں ہیں، اگر ڈاکوئوں سے برآمد ہونیوالے اسلحہ کی بات کی جائے تو کئی مشین گنز( اینٹی ایئر کرافٹ)، راکٹ لانچرز، جی تھری، سیمی، لائیٹ مشین گنز، کلاشنکوف، رپیٹرز، ہینڈ گرنیڈ اور سیکڑوں گولیاں پولیس نے اپنے قبضے میں لے لی ہیں، پولیس نے آپریشن کے دوران کچہ کریمینلز کے درجنوں خفیہ ٹھکانے، کمین گاہیں اور مورچے تباہ و مسمار اور نذر آتش کر دیئے ہیں۔ کچہ مورو، کچہ جمال، کچہ عمرانی، چک کپڑا، چک چراغ شاہ، جونگو ٹھنڈی، خیر پور بمبلی، چک چانڈیہ، رکھ شاہوالی، کچہ راضی سے جرائم پیشہ عناصر کا صفایا کرکے یہاں حکومت کی رٹ کو قائم کر دیا گیا ہے۔ بنگیانی ، سکھانی، عمرانی، لُنڈ، دلانی، پٹ اور سادانی گینگ سمیت ہیڈ منی کے مجرمان بھاگنے پر مجبور ہیں۔ کمین گاہوں سمیت دیگر مقامات پر پولیس پکٹس قائم کرلی گئی ہیں۔ اب تک کچے کا تقریبا 85 فیصد ایریا واگزار کروالیا ہے، باقی 15 فیصد بھی واگزار کروالیا جائے گا۔ بہر حال یہ بھی حقیقت ہے کہ چور اور پولیس دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے میں ہمیشہ چور ہی ہارتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چور اور پولیس دونوں ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے ہوتے ہیں اور اگر پولیس چوروں کے پیچھے جنگلوں اور بیابانوں تک نہ جائے تو چور قصبوں اور شہروں تک آ جاتے ہیں لہٰذا یہ ضروری ہے کہ پولیس کچے کا آپریشن کرے۔

جواب دیں

Back to top button