Column

نئے مالی سال2023۔24کا وفاقی بجٹ

ضیاء الحق سرحدی

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 9 جون کو مالی سال 2023۔24کے لئے 6924ارب روپے کے خسارے کے ساتھ 14ہزار 460روپے کا بجٹ پیش کیا۔ سالانہ بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش ہوا ہے جب وطن عزیز کو معیشت کے شعبے میں سخت ترین مشکلات کا سامنا ہے۔ ان مشکلات کا ذکر خود وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر میں بھی کیا۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کیلئے گریڈ 1سے 16کے ملازمین کیلئے 35جبکہ گریڈ 17سے 22کے ملازمین کیلئے 30فیصد، پنشن میں ساڑھے 17فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔ بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ قرضوں میں اضافے کی وجہ سے سود کی ادائیگی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا، گزشتہ دور میں گردشی قرضے میں سالانہ 129 ارب روپے اضافہ ہوا، موجودہ حکومت نے خسارے کو کم کرنے کیلئے کفایت شعاری پالیسی اپنائی ، حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر دیا ہے، ہماری کوشش ہے جلد سے جلد سٹاف لیول معاہدہ مکمل ہو جائے۔ بجٹ میں غریب کے ریلیف کے لئے اعدادوشمار میں تو بہت کچھ ہے لیکن آئندہ آنے والے وقت میں یہ عوام کی امنگوں ،خواہشوں اور بنیادی ضروریات کی تکمیل کا حقیقی معنوں میں مظہر ہو اور یہ بجٹ محض الفاظ کا ہیر پھیر یا گورکھ دہندہ ثابت نہ ہو۔ بجٹ میں گزشتہ حکومت کی معاشی بدنظمی اور اس کے نتیجے میں برپا ہونے والی مہنگائی کا ذکر کیا گیا، کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی بھی نئی آنے والی حکومت ملبہ کسی کی بھی گز شتہ حکومت پر ڈالنے کے بجائے ، اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے اور مثبت اور تعمیری منصوبے لے کر آئے اور نچلی سطح سے نظام کی تبدیلی کے لئے موثر اقدامات اٹھائے ۔ حکومت نے50000روپے کے چیک پرودہولڈنگ ٹیکس لگانے کے حوالے سے اپنی تجویز پر نظر ثانی کرے جبکہ آٹو انڈسٹری پر منفی اثرات مرتب کرنے کے لیے لگژری کاروں پر ٹیکس بڑھا دیں۔ خواتین SMEsکو مراعات فراہم کرنے سے انہیں کاروبار اور تجارت میں بہترین کارکردگی دکھانے میں بھی مدد ملے گی۔ حکومت نے اس بجٹ میں زراعت، آئی ٹی اور برآمدات کے حوالے سے اچھے اقدام اٹھائے جن میں زرعی مشینری اور اجناس پر اور آئی ٹی سے متعلقہ سامان کو ٹیکس سے مستثنی قرار دیا گیا ، زراعت ہمارے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لہٰذا زراعت کے شعبے میں قابل قدر ترقی کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ اس شے پر بالخصوص توجہ دی جائے، کسان کو بیج اور کھا د، بجلی میں سبسڈی کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے ماحول کو ساز گار بنایا جانا چاہیے جس میں یہ شعبہ پوری طرح سے پنپ سکے۔ امیر طبقے کی مراعات کو ختم کرنے اور غریب کی معاشی حالت میں بہتری لانے کا عندیہ بھی قابل تحسین ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امرا کی مراعات کے حوالے سے پرتعیش درآمدات کے بڑھنے سے سرمائے کا کثیر حصہ ان کے اللوں تللوں کی نذر ہوجاتا ہے ایسے رحجان کی حوصلہ شکنی جبکہ ان تمام پالیسیوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے جن پر عملدرآمد سے درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ ہو سکے، ملک کو قرضوں اور ان قرضوں پر بڑھتے ہوئے شرح سود سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس نیٹ کا دائرہ کار بڑھائے اور ساتھ ہی ساتھ ٹیکس وصولی کے طریقہ کار کو بھی آسان اور سہل کیا جائے۔ نئے وفاقی بجٹ کو حکومتی اراکین خوش آئند قرار دے رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت نے سخت ترین معاشی حالات میں ایک بہترین اور عوام دوست بجٹ پیش کیا ہے۔ دوسری جانب کاروباری حلقوں نے وفاقی بجٹ کو الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کاروباری طبقہ کو ریلیف دینے کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور نہ ہی ان کی تجاویز کو بجٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ عام لوگوں نے بھی بجٹ کو مایوس کن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں عام آدمی کی بہبود کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وفاقی حکومت سخت ترین معاشی مسائل سے دوچار ہے اور خیال کیا جا رہا تھا کہ موجودہ بجٹ سخت ترین ہوگا جبکہ بعض حلقے یہ بھی خیال کر رہے تھے کہ موجودہ حکومت کا یہ آخری بجٹ ہے تو یہ متعدد عوام دوست اقدامات کا اعلان کرے گی لیکن بجٹ میں خوردنی تیل پر سیلز ٹیکس ختم کرنے کے علاوہ کوئی خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آرہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام عوام دوست اقدامات جن کا حکومت عند ہی دے رہی ہے اور وہ تمام منصوبے جو معیشت میں استحکام کے لئے اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے لائے گئے ہیں، انہیں کرپشن فری بنیادوں پر پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے اور اپنے مہنگائی مکائو نعرے کی عملی تفسیر پیش کرتے ہوئے ، وطن عزیز کو تیسرے مہنگے ملک کی فہرست سے نکالا جاءے۔ مثبت امر یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ملک میں معاشی استحکام کے لئے پرعزم بھی ہیں اور متحرک بھی لہٰذا وہ معیشت کی ڈانواں ڈول نائو کنارے لگا لیں گے۔ ملک کے اندر اور عالمی سطح پر جس طرح کے حالات ہیں اس کے پیش نظر حالیہ بجٹ کو آئیڈیل اگرچہ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ برا بھی نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک متوازن بجٹ ہے، اگر اس پر عمل بھی اسی تندہی سے کیا جائے تو کافی بہتری آسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت ملکی معیشت کو توانائی کے بحران، آبی وسائل کی قلت، قرضوں کے بوجھ ، قومی اداروں پر سیکڑوں ارب خسارے، عام آدمی کو درپیش غربت، جہالت، پس ماندگی، بے روزگاری اور ناانصافی ایسے خوفناک مسائل کو مدنظر رکھ کر معاشی اصلاحات متعارف کرائے۔ ملکی معیشت کو ایسے خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی جائے، جس کے نتیجہ میں ترقی و خوشحالی کی اثرات عام آدمی تک پہنچ سکیں، بصورت دیگر قرض کی بنیادوں پر استوار میزانیے لفظی بازی گری اور اعداد کے گورکھ دھندے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوں گے۔

جواب دیں

Back to top button