Ali HassanColumn

سیاست اور خواتین

علی حسن

اخباری اطلاعات کے مطابق پولیس نے نو مئی کے واقعات کے بعد خواتین کی گرفتاریاں اور رہائی کے اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ نگران وزیراعلیٰ پنجاب کو جمع کروا دی ہے۔رپورٹ کے مطابق آٹھ شہروں سے 66خواتین کو گرفتار کیا گیا، لاہور سے 37، فیصل آباد سے 8اور راولپنڈی سے 12خواتین کو پکڑا گیا ہے۔ گجرات اور چکوال سے ایک ایک جبکہ پاکپتن سے 2خواتین کو گرفتار کیا گیا۔ ملتان سے 4خواتین کو حراست میں لیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ کو جمع کروائی گئی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 15خواتین کی شناخت پریڈ کروائی گئی جبکہ 38خواتین کو ضمانتوں پر رہائی مل گئی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ہنگامے میں ملوث ہونے کی پاداش میں حراست میں لیا گیا۔ خواتین کے ساتھ پنجاب پولس نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا اس سے بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ خواتین کی تذلیل کرنے کیے علاوہ انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔ اب تو ویڈیو کا دور ہے۔ خواتین کو مرد پولس والے جس انداز میں جانور کی طرح اٹھا اٹھا کر پولس کی گاڑیوں میں عملا پھینک رہے ہیں وہ تذلیل کرنے یا تشدد کرنے سے زیادہ ہی کچھ ہے۔ سیاست میں پہلی بار خواتین کی بہت بڑی تعداد نے حصہ لیا ہے۔ ان کا جھکائو عمران خان کی پارٹی کی طرف ہے۔ ایک سیاسی مبصر کے مطابق سیاست میں متحرک خواتین کو ان کے اسی رجحان کی سزا دینا مقصود ہے۔ یہ مبصر اس کی ذمہ داری عمران خان کے مخالف سیاسی عناصر پر ڈالتے ہیں۔
تحریک پاکستان اور اس کے بعد سیاست میں خواتین کی تعداد خال خال ہی تھی۔ حالانکہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے بھی انتخابات میں حصہ لینے کے وقت بھی نہیں تھا۔ 1970میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران بھی خواتین کی اتنی بڑی تعداد سامنے نہیں آئی تھی۔ ایک طرح سے وہ مردوں کا انتخاب تھا حالانکہ مادر ملت کو کراچی اور ڈھاکہ میں اپنے مخالف امیدوار جنرل ایوب خان پر برتری حاصل تھی اور حیدرآباد میں دونوں امیدواروں کے ووٹ برابر رہے تھے۔ سیاسی جماعتوں نے بھی خواتین کو ہمت افزائی نہیں کی ہے۔ پیپلز پارٹی کی سربراہ تو مرحومہ بے نظیر بھٹو تھیں انہیں چاہئے تھا کہ خواتین کی زیادہ تعداد کو براہ راست انتخابات میں امیدوار بناتی لیکن مردوں کے معاشرے میں وہ بھی خوف زدہ تھیں کہ لوگ ووٹ دیں گے بھی یا نہیں۔ حالانکہ ان کی نامزد امیدواروں کو تو ووٹ ملنا ہی ملنا تھا۔ بہر حال مردوں نے بھی خواتین کی کبھی بھی شعوری طور پر ہمت افزائی نہیں کی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے بہت مہربانی کی تو وہ یہ تھی کہ انہیں خواتین کی مخصوص نشستوں پر امیدوار نامزد کر دیا تھا۔ بیگم عابدہ حسین جیسی خواتین تو انگلیوں پر گننے جیسی بھی نہیں ہیں جنہوں نے انتخابات میں مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا ہو اور کامیابی حاصل کی ہو۔
راقم کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خواتین کی دانستہ اور شعوری طور پر ہمت شکنی کی جاتی ہو۔ خواتین کی بہت بڑی تعداد اپنی رضا مندی سے عمران خان اور تحریک انصاف کی حمایتی بنی ہیں۔ ان میں سے تو بعض سے اپنے والدین اور بعض سے اپنے شوہروں کو مجبور کیا کہ انہیں عمران خان کی پارٹی میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے۔ جوان بچوں کے سامنے والدین کا موقف اکثر ڈھیلا پڑ جاتا ہے۔ خواتین مختلف رویوں کی وجہ سے بھی سیاست سے بد ظن رہتی ہیں۔ آدھی رات کو ان کے گھروں پر جب ان کے مرد ساتھی تنظیم سازی کرنے پہنچ جائیں تو وہ سیاست سے فاصلہ برقرار رکھنا ہی بہتر سمجھتی ہیں۔ نا پسندیدہ حالات اور رویوں کے باجود بہت ساری خواتین نے تکالیف کے باوجود استقامت کا ثبوت دیا ہے۔ پنجاب سرکار کے کئی دفعہ سابق وزیر اعلیٰ اور سپیکر رہنے والی شخصیت چودھری پرویز الٰہی کی اہلیہ کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا وہ افسوس ناک ہے۔ پرویز الٰہی نے اپنی سیاسی زندگی میں مزاحمت کی سیاست سے گریز کیا لیکن اپنی اہلیہ قیصرہ الٰہی اور صاحبزادے مونس الٰہی کی تجویز پر انہوں نے تحریک انصاف میں باضابطہ شمولیت اختیار کی اور بھر ڈٹ گئے۔ انہیں کسی واضح مقدمہ کی غیر موجودگی میں جس طرح
رگیدہ جارہا ہے وہ صاف صاف نظر آتا ہے کہ انتقامی سیاست ہو رہی ہے۔ ان کی اہلیہ قیصرہ الٰہی نے کئی کوشش اور جتن کرنے کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کے بعد اپنے بیان پر مبنی جو ویڈیو جاری کی اسے سن کر دل لرزتا ہے کہ سیاسی مخالف ہونے کا خمیازہ اس طرح بھی بھگتا جاتا ہے۔ محترمہ قیصرہ اپنے وقت کے حزب اختلاف کے قد آور رہنما چودھری ظہور الٰہی کی صاحبزادی ہیں۔ انہیں یاد ہوگا کہ ظہور الٰہی مرحوم نے بھٹو دور میں سیاسی مخالفت کا بڑا خمیازہ بھگتا تھا اور اس کی بڑی قیمت چکائی تھی۔ نواب اکبر بگٹی مرحوم نے ایک انٹرویو میں راقم کو بتایا تھا کہ بھٹو تو ظہور الٰہی کو قتل کرانے کے در پے تھے۔ بھٹو نے اکبر بگٹی کو کہا تھا کہ ظہور الٰہی کو وہ قیدی کی حیثیت سے بلوچستان بھیج رہے ہیں ، میں ( اکبر بگٹی) انہیں دوران سفر قتل کرا دیں۔ اکبر بگٹی کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک موٹی سے گالی دے کر بھٹو کو کہا تھا کہ وہ بلوچستان میں ہمارا مہمان ہے اور ہم مہمان سے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتے ہیں۔ اکبر بگٹی اس وقت بلوچستان کے بھٹو کے نامزد کردہ گورنر تھے۔ اس واقعہ سے مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت ممکن ہے واقف ہوں کیوں کہ اکبر بگٹی کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم تھے۔ بہر حال بیگم پرویز الٰہی کو ایک رات فون آیا کہ ہسپتال آجائیں ان کے شوہر کی طبیعت ناساز ہے، وہ کہتی ہیں کہ وہ بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچیں تاکہ ملاقات کر سکیں۔ لیکن بقول ان کے انہیں کم از کم چار سے پانچ گھنٹے انتظار کرانے کے بعد ملاقات کرائے بغیر ہی واپس کر دیا گیا ۔ پھر انہوں نے ملاقات کی نئی سرے کوشش کا آغاز کیا اس میں بھی وہ کامیاب نہیں ہو سکیں۔ پھر تیسری کوشش میں وہ مختصر ملاقات کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ اپنی اب تک کی آخری ملاقات کے بعد ان کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے شوہر جسمانی طور پر بہت کمزور نظر آئے لیکن ان کا حوصلہ چٹان کی طرح مضبوط تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسی بات کی بہت خوشی ہے کہ ان کا شوہر مضبوط اعصاب کے ساتھ کھڑا ہے۔
عدالت میں اپنی ایک پیشی کے موقع پر پرویز الٰہی نے شکوہ کیا کہ انہوں نے دس دن سے ایک ہی شلوار قمیص پہنی ہوئی ہے۔ پرویز الٰہی کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جنہیں خوش لباس کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ 10دن سے ایک ہی شلوار قمیص پہنی ہوئی ہے۔ 6فٹ کا ایک سیل ہے میری ٹانگیں بھی اْس میں سیدھی نہیں ہو سکتیں۔ اس میں انہیں قید رکھا گیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ ان کی ادویات بھی ان تک نہیں پہنچ رہیں ہیں۔ انہوں نے شکایت کہ کہ اس کے پائوں سوج گئے ہیں، کارڈیالوجی میں ٹیسٹ بھی آدھے ہوئے ہیں۔ غرض بظاہر انہیں جسمانی اور ذہنی طور پر اذیت میں رکھنا مقصود ہے۔ پرویز الٰہی کے ساتھ ایسا اس صورت میں ہو رہا ہے جب کہ عدالت انہیں دو مقدمات میں بری کرنے کا حکم دے چکی ہے۔ سیاست کے موجودہ دور میں بہت ساری تکالیف کے باوجود بہت سارے لوگ استقامت کے ساتھ اپنی سیاسی سوچ کر ساتھ کسی سہارے کے بغیر کھڑے ہیں۔ ایسے ہی استقامت اور استقلال والے لوگ کسی معاشرے میں مستحکم سیاسی اصول متعارف کرا سکتے ہیں۔ پاکستان کو ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے۔ لوٹے یا ابھی میں ادھر ابھی میں ادھر ہوجانے والے لوگ تو اپنا نصب العین ہی نہیں پاتے ہیں۔ اس تماش گاہ میں سیاسی مخالف کے ساتھ انتقامی کارروائیوں کو سلسلہ رکنا چاہئے ۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستانی سیاست آلودہ ہی رہے گی۔

جواب دیں

Back to top button