ColumnImtiaz Aasi

عام انتخابات

امتیاز عاصی

اگرچہ حکومت نے نئے بجٹ میںعام انتخابات کے انعقاد کے لئے رقم مختص کردی ہے اور الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیا ہے۔بظاہر الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے جسے حکومتی اثر ورسوخ سے باہر قرار دینے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے اراکین کا تقرر سیاست دان کرتے ہیںلہذا الیکشن کمیشن کو حکومت کے اثر ورسوخ سے باہر کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔پنجاب اور کے پی کے کے الیکشن کے انعقاد کے سلسلے میں الیکشن کمیشن نے جو کھلواڑ کیا جس کے بعد عوام کو الیکشن کمیشن سے غیر جانبداری کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔سانحہ نو مئی کی آڑ میں حکومت نے تحریک انصاف کے ساتھ جو کیا وہ عوام کے سامنے ہے ۔ہمیں عمران خان سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو دبائو میں لا کر ایک نئی جماعت میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا۔ اپنے تئیں پی ٹی آئی کا قلع قمع کرنے کے باوجود حکومت اور اتحادی عام انتخابات کے انعقاد بارے سنجیدہ نہیں ہیں۔ انتخابات آگے لے جانے کا عندیہ اس امر کا غماز ہے حکومت اور اس کے اتحادیوں کو کامیابی کا یقین نہیں اس سلسلے میں خودساختہ اپوزیشن لیڈر اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے بیانات کہ انتخابات کے التواء کا فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔ حیرت ہے پارلیمنٹ کسی کی ہے پارلیمنٹ میں کون ہیںلہذا الیکشن کو آگے لے جانے کی خبروں کو چلانے کا مقصد عوام کو ذہنی طور پر انتخابات کے التواء کے لئے تیارکرناہے۔سیاسی عدم استحکام سے کوئی ملک ہمارے ساتھ لین دین کو تیار نہیں ۔ہماری طرح سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہوں ملک نہ ترقی کرسکتے ہیں نہ عوام خوشحال رہ سکتے ہیں۔قارئین کو یاد ہو گا کئی ماہ پہلے پی ڈی ایم کے سربراہ نے اپنی جماعت کی شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب اور کے پی کے الیکشن نہ کرانے کا اعلان کیا تھا جس پر حکومت نے عمل درآمد کرکے مولانا کی بات کو سچ کر دکھایا ہے۔پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری کا بارہا اس بات کا اعلان آئندہ وزیراعظم بلاول بھٹو ہوگا اس بات کا واضح اشارہ ہے کسی سطح پر حکومتوں کی بندربانٹ کا فیصلہ ہو چکا ہے انتخابات کی رسم پوری کرنی ہے ۔مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ ہموار نہیں ہو سکی ہے ورنہ وہ وطن واپسی میں دیر نہیں کرتے اس سلسلے میں وفاقی وزیر جاوید لطیف کا بیان نواز شریف سے ظلم بند کرو اور اسے وطن واپس آنے دو اس امر کی دلیل ہے نواز شریف کو وطن واپسی کا گرین سگنل نہیں مل رہاہے ۔سانحہ نو مئی میں ملوث لوگوںکا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کی قرار داد ایون میں منظور ہو چکی ہے اور آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کا ٹرائل روکنے کی پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر ہو چکی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا موقف ہے حساس علاقوں میں گھیرائو جلائو کرنے والوں کو ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو سکتا ہے اس کے برعکس ایک سابق چیف جسٹس حمودالرحمان کا ایک فیصلہ ریکارڈ پر ہے ماسوائے اس ایریا میں جہاں جنگی حالات ہو ں ایسی صورت میں آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کا ٹرائل ہو سکتا ہے۔بہرکیف اس سلسلے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا عدالت عظمیٰ آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کا ٹرائل روکنے کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔نو مئی کے سانحہ میں ملوث لوگوں کو سزائیں دینے کو ایک طرف رکھتے ہوئے انتخابات کی بات کریں تو حکومت اور اس کے اتحادی عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔پی ٹی آئی میں توڑ پھوڑ کے باوجود پی ڈی ایم کی جماعتوں کوکامیابی کا یقین نہیں ہے اسی لئے انتخابات کوآگے لے جانے کا شوشہ ابھی سے چھوڑ جا رہا ہے ۔ عمران خان کے خلاف ابھی تک حکومت کو براہ راست کوئی شہادت نہیں ملی ہے ورنہ وہ کب کا گرفتار کر لیتے۔ ایک خوف یہ بھی ہے عمران خان کو دوبارہ گرفتار کیا گیا تو عوام پہلے کی طرح کہیں سڑکوں پر نہ نکل آئیں ۔سیاسی جماعتوں پر پابندی اتنا آسان نہیں۔ بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی تھی جو عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے سیاست میں متحرک ہے ۔جہاں تک مشکل وقت میں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی بات ہے وہ پہلے بھی عمران خان کے نام پر کامیاب ہوئے تھے ان کے نئی جماعت میں جانے سے عوام انہیں ووٹ نہیں دیں گے ۔جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کو توڑنے کی کوشش کی اور مولانا کوثر نیازی کی سربراہی میں پروگرسیو پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی جس کا کوئی نام لیوا نہیں ہے۔موجودہ حکومت کے دور میں عوام کو زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے لئے جس طرح دربدر ہونا پڑ رہا ہے عوام حکومت سے ناامید ہو چکے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے نو مئی کو پیش آنے والے سانحہ کی کوئی باشعور پاکستانی ستائش نہیں کر سکتا ۔ ملک اور قوم کے لئے آئے روز جانوں کی قربانیاں دینے والوں کی یادگاروں کی بے حرمتی نے تحریک انصاف جیسی مقبول سیاسی جماعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں پی ٹی آئی میں شامل لوگ مفاد پرست تھے، جنہوں نے آڑے وقت میں پارٹی چھوڑنے میں دیر نہیں کی۔ ہماری سیاسی تاریخ اس امر کی گواہ ہے ایسے سیاسی لوگوںکا کوئی مستقبل نہ کوئی ساکھ ہوتی ہے۔ رہی بات عام انتخابات کی حکومت کے پاس انتخابی اصلاحات کا بہانہ باقی ہے انتخابات کی بات ہوتی ہے حکومت اور اس کے اتحادی انتخابی اصلاحات کو شوشہ چھوڑ دیتے ہیں لہذا نہ انتخابی اصلاحات ہوں گی اور نہ انتخابات ہوں گے۔ مستقبل کے سیاسی منظر نامے بارے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا البتہ عام انتخابات کے انعقاد کا کوئی امکان نہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی بعد جن علاقائی جماعتوں کو وفاق میں اہم وزارتوں سے نواز ا گیا ہے وہ انتخابات نہیں ہونے دیں گے جیسا کہ انہوں نے پنجاب اور کے پی کے میں ضمنی الیکشن کا انعقاد نہ ہونے کی بات پوری کی ہے۔

جواب دیں

Back to top button