ColumnTajamul Hussain Hashmi

ملک کا غم یا کچھ اور

تجمل حسین ہاشمی

مجھ سے کہنے لگا، کالم میں کس کو سپورٹ کرتے ہیں، میں نے کہا جناب جہاں تک میری سپورٹ کی بات ہے تو میری نظر میں جس حکومت کی معاشی پالیسی عوامی مفاد پر مبنی ہو اس کو ہائی لائٹ کرنا ذمہ داری ہے، پاکستان ہماری شناخت ہے، ہمارا تو سب کچھ یہی ہے، کیوں کہ ہمارے بڑوں نے لاکھوں قربانیوں دے کر حاصل کیا ہے، قیام پاکستان کے بعد سے ہی سیاسی، مذہبی جماعتوں میں تخت کے لیے کش مکش چلتی رہی، اس کش مکش میں ایک دوسرے کو غدار وطن کے نعرے لگے، اس کو جمہوریت کہتے رہے، جمہوری نظام میں جلسے جلوسوں کو جمہوری حق سمجھا جاتا رہا، یہاں تک سیاسی سربراہان نے ایک دوسروں پر الزامات کے ریکارڈ قائم کر دے، گھروں کی باتیں ، ذاتی معاملات کا جلسوں میں ذکر ہونے لگے، ہر دو سال بعد ایک دوسرے کی حکومت کو چلتا کیا، کردار کشی کو اقتدار میں آنے کا راستہ سمجھا جانے لگا، خرید و فروخت کا سلسلہ شروع ہوا، بازار گرم، سرے عام بولیوں کی آوازیں آنے لگی، جس نے جیسا سمجھا ویسا ہی کیا، ایک فیکٹری سے کئی فیکٹری بن گئیں، ایک دوسرے سے کوئی پیچھے نہیں رہا، کاروباری برادری اور سیاسی برادری نے بھر پور مال بنایا۔ ایک سے بڑھ کر ایک خود کو وفا دار ثابت کرتا رہا، قوم کا مخلص ثابت کرتا رہا، جمہوریت کے آقائوں نے اس وطن کے ساتھ وہ کچھ کیا جو جمہوریت میں نہیں ملتا، خود کے دو ٹکڑے ہوئے، تین جنگوں میں اپنے محافظ شہید ہوئے، عوام نے قربانیاں دیں لیکن پھر بھی ہم نہیں سمجھے، سیاسی انتقام کی آگ میں اضافہ ہوتا رہا، اداروں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے رہے، جھوٹے سچے مقدمات، کئی سال جیلوں میں گزارے، لیکن نہیں سمجھے، یہ جمہوریت سیاسی رہنمائوں کی زندگیوں کو موت کے گھاٹ تک لے گئی، پھر بھی آگ کم نہ ہو سکی، روزانہ لاکھوں گھروں میں افلاس، غربت ناچ رہی ہے، اگر یہ سب جمہوریت ہے تو پھر دنیا کے پاس کون سی جمہوریت ہے، جہاں عوام خوش حال، انصاف، صحت، عدل اور محب وطنی ہے۔ مفاہمت کا دور بھی آیا، دو تہائی اکثریت کا دور آیا، بھائی بھائی کا دور آیا، پارلیمنٹ کے تقدس کا دور آیا، ایک ساتھ چلنے کا دور آیا، ووٹ کو عزت کا دور آیا، پھر مدینے جیسی ریاست کا دور آیا، احتساب کے نعرے کا دور آیا، ایسا لگا سب کچھ بدل جائے گا ، پانامہ آنے کے بعد ملک معاشی اڑان بھر لے گا۔ وزیر اعظم ہائوس سائیکل پر جانے کے خوابوں کا دور آیا، یہ تمام دور عوام نے دیکھے اور برداشت کئے، قوم ماضی اور موجودہ معاشی صورتحال برداشت کر رہی ہے، ایک وفا دار قوم ہے، ماضی میں جس وزیر اعظم نے جو نعرہ لگایا قوم نے اس کو ووٹ دیا اور حکمران بنایا، قوم کو کیا ملا بے روزگاری، نا انصافی، کرپشن، لوٹ مار اور سب سے بری معاشی غلامی، اگر ہم بھٹو سے شروع کریں تو بھٹو جیسی شہرت آج تک کسی لیڈر کو نصیب نہ ہو سکی، لیکن روٹی کپڑا اور مکان سے قوم باہر نہ نکل سکی، آج 45سے پچاس ارب غریبوں کو دے رہے ہیں، روزگار نہیں دے رہے، صبح سے شام لائنوں میں کھڑے ہیں۔ میاں نواز شریف نے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد ملک کو ایشیا کا ٹائیگر بنانا تھا، اکثریت ملنے کے کے بعد انٹرنیشنل پانامہ سکینڈل سامنے آیا، نا اہل ہوئے، ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ چلا لیکن قوم کی حالت نہیں بدلی، پھر انصاف والوں نے نئے نعروں اور وعدوں سے نوجوان نسل کو مدینے جیسی ریاست کے خوابوں میں مبتلا کیا، کبھی حلف لیتے رہے تو کبھی ٹائیگر فورس بناتے رہے، قوم روزگار کے لیے پریشان مجبور ان کے کارنامے دیکھتی رہی، خان کچھ کرے گا، رتی بھر معاشی صورتحال نہیں بدلی، شہزاد اکبر اور فرح گوگی ملک کو اپنی جاگیر سمجھ کر لوٹ مار کرتے رہے، پھر حقیقی آزادی کے لیڈر کے پیروکاروں نے 9مئی کو ایسا کیا جس کی ہمت دشمن بھی نہ کر سکا، پنجاب میں عثمان بزدار جیسے بندے کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا جس کی قابلیت پر سوالات تھے، لیکن انصافی بھائی اس کو ویژن کا نام دیتے رہے اور عوام عثمان بزدار کو قسمت والا سمجھتے رہے، اپنی قسمت کو ایسے لیڈروں کے ہاتھوں میں دیتے رہے ، سینئر صحافی جناب رئوف کلاسرا صاحب نے اپنے پروگرام میں کیا خوب کہا ’’ انارکلی کو شہزادہ سلیم مرنے نہیں دے گا اور اکبر بادشاہ انار کلی کو جینے نہیں دے گا‘‘ ، ہم لوگوں کے لیے بھی ایسا ہی امتحان ہے ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے، خان دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتا ہے، کسی طرح بھی ، کچھ بھی کرو، ملنے کے لیے فریادیں جاری ہیں، ملک ڈوب رہا ہے، ملک کی فکر کھائے جا رہی ہے، 9مئی کے واقعات کے بعد بھی ملاقات کی خواہش، پاپولرٹی کا جن نے دنیا کے کئی لیڈروں کو موت کے گھاٹ تک لے گیا، ہر کوئی طیب اردگان نہیں بن سکتا، الزام اور بہانے بنانے، جھوٹے بیانیے کے سہارے سے اقتدار تو مل جاتا ہے لیکن قوم کمزور ہو جاتی ہے، قوم 1970کے بعد سے معاشی غلامی میں ڈوب چکی ہے، یہ کمزوری روکنے والی نہیں ہے جب تاکہ دس سالہ معاشی پروگرام ترتیب نہ دیا گیا، ملک میں سیاسی افراتفری کو مزید کم کرنے کی ضرورت ہے، اتحادی حکومت نے بہتر بجٹ پیش کیا ہے اس پر عملداری کی ضرورت ہے، قوم کو سیاسی نعروں سے آزادی کی ضرورت ہے، اس وقت تاجر برادری اور سیاسی حلقوں کو ملکی مفاد میں فیصلوں کی ضرورت ہے، کاروباری حلقوں کو آگے بڑھ کر خود معاشی پلان تیار کرنا چاہئے، زیادہ منافع نہیں ملکی معیشت کے لیے کام کرنا ہو گا، ذخیرہ اندوزی سے دور رہنا ہو گا، سرکاری اداروں کو مافیا کے خلاف کارروائی عمل میں لانی ہو گی۔ سرپرستی سے ملک کمزور ہو رہا ہے کیوں ملک میں 60فیصد لوگوں کمزور اور بے روزگار گھوم رہے ہیں، ایک سروے رپورٹ کے مطابق اس وقت ناخواندہ افراد سے زیادہ تعلیم یافتہ بے روزگار گھوم رہے ہیں۔ حکومت قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے ، غیر معاشی اور غیر قانونی فیصلے ملک ساکھ کے لیے نقصان دے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button