تحریک لبیک کا لانگ مارچ اور سیاسی حرکیات

قاسم آصف جامی
شیخوپورہ کے ایک نواحی دیہات میں فصلوں کے تنازعے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے اثرات اس قدر وسیع اور مثر ہو سکتے تھے اس کا اندازہ تب تک لگایا جانا ممکن نہ تھا جب تک گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل سے تحریک رہائی ممتاز حسین قادری کا آغاز نہ ہوا تھا۔ بعد از پھانسی لیاقت باغ سے ہی تحریک رہائی ممتاز قادری اور فدایانِ ختم نبوت پاکستان کے انضمام سے تحریک لبیک یارسول اللہ کی بنیاد پڑی۔ (اس وقت لیاقت باغ میں مفتی منیب الرحمان اور علامہ خادم رضوی کی حکمت اور دور اندیشی کی بدولت اتنے بڑے کرائوڈ کو ریاست مخالف استعمال ہونے سے بچانا ان کے پرامن اور محب وطن ہونے کی واضح مثال ہے جبکہ میری آنکھوں کے سامنے سٹیج پر بڑے جید اکابر کسی کے اشاروں پر اپنی دستاریں ان دو حضرات کے قدموں میں رکھتے رہے کہ میت والی ایمبولینس ریڈ زون کی طرف لے چلتے ہیں۔) بعد ازاں دو گروپس کی رنجش نے نورانی و نیازی صاحبان کی طرح رضوی و جلالی صاحبان کی اس تحریک کو بھی دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا اور ایک گروپ تحریک لبیک پاکستان جبکہ دوسرا حصہ تحریک لبیک اسلام کے نام سے الیکشن کمیشن میں رجسٹر قرار پایا۔ ملکی سطح پر منظم و مضبوط الیکشن مہم اور قلیل عرصے میں 23لاکھ کے قریب ووٹوں کے حصول نے تحریک لبیک پاکستان کی حیثیت منوانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ جماعت کے امیر اول علامہ خادم حسین رضوی کی ”پراسرار وفات” کے بعد اس کی امارت اور باگ ڈور کا کنٹرول ایک اہم مسئلہ تھا، (علامہ رضوی صاحب کی شخصیت، کردار اور راقم کے ساتھ انکی شفقت و تعلق ایک تفصیلی کالم میں لکھ کر فیس بک ایپ کی خود ساختہ اور جانبدار پالیسی کی زد میں آچکا ہوں۔) مینار پاکستان جنازے کے موقع پر ہی ان کے بڑے صاحبزادے سعد حسین رضوی کی امامت اور امارت کا اعلان کیا گیا۔ کافی عرصہ پہلے دورانِ ملاقات میرے ایک سخت سوال کے جواب میں انہوں نے اس امارت کے انتخاب کا ذمہ دار مرکزی شوریٰ کو ٹھہرایا۔ اس تحریک نے پابندیاں بھی برداشت کیں، ریاستی کریک ڈائون سے بھی متاثر ہوئے اور امیر سمیت دیگر قیادت اور کارکنوں نے جیلیں بھی دیکھیں۔ مختلف ادوار حکومت میں ان ”بے مسلح” افراد نے ریاست سے بہت کچھ منوایا۔ اب بھی 27فروری 2023کو ملک میں مہنگائی کیخلاف شٹر ڈائون ہڑتال اور 3مارچ کو احتجاجی مظاہروں کے بعد 16مئی کو مرکزی قیادت نے 22مئی کو ایک لانگ مارچ کے آغاز کا اعلان کیا۔ ”پاکستان بچائو مارچ” کے ٹائٹل کے ساتھ کراچی سے شروع ہونے والا یہ قافلہ حیدر آباد، سکھر، میرپور خاص، نواب شاہ، لاڑکانہ، صادق آباد سے ہوتا ہوا 30مئی کو بہاولپور سے پنجاب میں داخل ہوا۔ بیروزگاری کے خاتمے، مہنگائی پہ قابو، حالیہ گستاخیوں اور ختمِ نبوت پہ حملے کیخلاف ایکشن، عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے اقدامات کرانے، کراچی مردم شماری پر تحفظات، ان کیخلاف سوشل میڈیا پہ غیر آئینی پابندیوں اور سب سے بڑھ کر پٹرول کی قیمت میں 14فروری والی قیمت کی بحالی کے نعروں اور مطالبوں کے ساتھ یہ مارچ مرکزی قیادت سمیت 9جون کو لاہور سے ہوتا ہوا اپنی منزل اسلام آباد کی جانب چل دیا۔ رستے میں مختلف مقامات پر استقبال کارکنوں کے جذبے اور جز وقتی مقامی جلسوں کے انعقاد کے ساتھ یہ مارچ شہر اقتدار کے قریب تر ہوتا چلا جارہا ہے۔
اس شدت کے گرم موسم میں مذہبی جوش کی تپش کے حامل مارچ میں کچھ چیزیں کافی واءرل ہوئیں، جن میں امیر تحریک کا مختلف سواریوں بشمول کرین، سائیکل، موٹرسائیکل، ٹریکٹر، گھوڑے، فارچونر وغیرہ کی ڈرائیونگ کرتا یہ عوامی انداز کارکنوں کیلئے فخریہ اور خوشگوار پہلو بنا۔ جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ انکے کچھ جمہوری بیانات ہیں کہ موجودہ حکومت کا سیاسی انتقام میں خواتین کو گھسیٹنا ایک قابلِ مذمت عمل ہے، نیز9مئی کے واقعات کے بعد آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانا بھی کسی طور مناسب نہیں۔ (وہ الگ بات ہے کہ ہماری وفاقی کابینہ اور اپوزیشن کے بغیر قومی اسمبلی اس کی حمایت کرکے قائداعظم کی اس فکر کی خلاف ورزی کر چکی ہے۔ سعد رضوی کا استاذ گرامی علامہ حافظ عبدالستار سعیدی صاحب کو ہاتھ والے پنکھے سے ہوا دینا انکی عاجزی و ادب کی ایسی شاندار نظیر ہے جو مدارس کے طلبہ کے حصے میں تہذیبی طور پر ودیعت ہے۔
سعد رضوی سے رابطے اور ترجمان جماعت مفتی عمیر الازہری سے سوالات کے بعد مجھے بتایا گیا کہ مارچ کے اخراجات وغیرہ ضلعی و ذیلی کمیٹیاں برادشت کر رہی ہیں اور تاحال کسی ریاستی و حکومتی نمائندے یا اہلکار نے مذاکرات کیلئے کوئی پیش قدمی نہیں دکھائی۔ ایک ایسی جماعت جو بزورِ بازو اپنے مطالبات منوانے کی تاریخ اور قوت رکھتی ہے، انکے متعلق ایسا غیر سنجیدہ و سرد مہری والا حکومتی رویہ سمجھ سے باہر ہے۔ حالات جب اختیارات سے باہر ہو جاتے ہیں تو نقصان حکومتی ہو یا قیمتی جانوں کے ضیاع کا، ازالہ بہر صورت ملک عظیم کو ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بڑے نقصان سے قبل ریاست اور لبیک والوں کو چاہئے کہ طاقت کے بجائے، مفاہمت اور مذاکرات کا رستہ اختیار کریں اور قوم کو کسی نئی آزمائش میں ڈالنے سے اجتناب فرمائیں۔
وگرنہ کہنا پڑتا ہے کہ
حاکم نے تو خمار قوت میں اپنا زور آزمایا
اِدھر غریب شہر کے خون سے سیاست چمکی
تحریک سے قبل علامہ رضوی صاحب جامعہ نظامیہ رضویہ لوہاری گیٹ میں مدرس ہونے اور ملک بھر میں پھیلے ان کے شاگردوں جوکہ اکثر مساجد کے آئمہ ہیں، کے منبر و محراب اور لائوڈ سپیکر کے سیاسی استعمال سے یہ کچھ ہی لمحات میں ملک کی شاہراہوں پر نکلنے اور روڈ بلاک کرنے کی ایک ”اضافی صلاحیت”سے مزین ہیں۔ ن لیگ کے دور حکومت میں ”فیض صاحب کے فیض” سے فیض آباد دھرنے کے نتیجے میں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد سے استعفے کا معاملہ ہو یا تحریک انصاف کی مدت ملازمت میں جماعت پر لگی پابندی اور قیادت پر سے مقدموں کے اخراج کی بات ہو، یہ صاحبان مجبور کر ہی لیتے ہیں۔ ان کی اس غیر معمولی طاقت کو جانچنے کیلئے ضروری ہے کہ انکے خطابات سے اثر پکڑنے والے کارکنوں کی نفسیات اور تربیت کے عمل کو باریکی سے جانچا جائے۔ مذہبی وابستگی، ختمِ نبوت اور ناموس رسالت جیسے ہمہ گیر احساساتی بیانات سے مطالبات کا حصول دیگر نعروں کی بہ نسبت قدرے آسان ہے۔ یہ حضرات اپنی جگہ کس قدر اخلاص، دیانت اور یقین سے بات کرتے اور مرنے مرانے تک پہنچ آتے ہیں اس کی تحلیل مکالمے کی میز پر چائے کے کپ اور گپ شپ کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ آپ ان معاملات میں درست ہیں اور ان میں آپ ریاست اور حکومت کے مسائل اور مجبوریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ جذبہ حب الوطنی سے بھی سرشار ہیں اور عشق رسولؐ کے نور سے منور بھی، ضرورت ہے تو فقط میٹھی زبان کی اور حقائق پر مبنی ملکی معاشی حالات کی نزاکت اور عالمی مجبوریوں کا احساس کرانے کی۔
ہم اگر سعد رضوی صاحب کے دارالامان میں یتیم بچوں کے ساتھ ولیمے کے انعقاد کو توقیر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ان کی ایسی غیر منطقی و جذباتی پالیسیوں پر سوال کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ دورانِ سیلاب و زلزلہ تحریک لبیک کی فلاحی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں تو ان کٹھن معاشی حالات میں ان کے ایسے ریاست مخالف رویے سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ اگر ہم انکے مقاصد اور جذبات کی تحسین کرتے ہیں تو داتا دربار عرس والے واقعے اور ہمارے صحافی دوست اور بھائی سبوخ سید کے ساتھ ان کے کارکنوں کے رویے پر بھی تنقید کرنے میں ملامت نہیں کرتے۔ (سعد رضوی مجھے ایک اچھا نقاد بھی سمجھتے ہیں۔
ایسے بہت سے واقعات میں قیادت بالخصوص سعد رضوی صاحب کو اپنے ارد گرد حالاتِ حاضرہ سے حقیقی آگاہی کیلئے ایک مخلص اور سچی ٹیم اور بہترین مشورے اور اصلاح کیلئے ماڈرن ساتھیوں کی ضرورت ہے۔ اپنے تمام شعبوں کے نیٹ ورکس کو مضبوط و منظم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے کارکنوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے ہر معاملے پر جذبات اور شدت کے بجائے تحمل، بردباری اور دوسرے کی مختلف معلومات و نظریات کا احترام کرنے کی تلقین کی جانی چاہئے۔ آپ سیاسی قائد ہیں تو دل و دماغ بھی سیاست کے میدان کی طرح فراخ کریں اور دوسرے مسالک حتی کہ دوسرے مذاہب کے مناسب پروگرامز میں شریک ہوکر اقلیتوں کو اپنے متعلق محفوظ پوزیشن اور واضح کردار کا ثبوت دیں۔ ظاہر ہے اس طرح کے معاملات میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ سب سے زیادہ کارکنوں کی طرف سے آنے والا رد عمل اور دبائو ہے وگرنہ ایک ہی روڈ پر چند چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اقامتِ دین، نفاذِ شریعت اور نظام مصطفیٰ کے منشور کے دعویدار تین بڑے مراکز جماعت اسلامی منصورہ، تحریک لبیک یتیم خانہ اور مرکز القادسیہ چوبرجی چوک، اس اشتراکی ایجنڈے پر کام کرنے کیلئے سیاسی اعتبار سے متفق اور متحد کیوں نہیں ہوتے؟
امیر جماعت اسلامی مسلکی اعتبار سے مختلف کیلئے حامل ہیں باوجود اسکے انہوں نے علامہ رضوی صاحب کی وفات پر تعزیت کی اور قبر پہ حاضر ہوکے فاتحہ خوانی بھی کی، سراج الحق صاحب نے ایک نشست میں مجھے بتایا کہ وہ سعد رضوی کو رمضان المبارک میں دعوت افطار اور اس سے قبل مرکز جماعت اسلامی وزٹ کی دعوت دے چکے ہیں لیکن نجانے کس وجہ سے رضوی صاحب نے کوئی کان نہ دھرے۔
ایسے رویے نہ صرف انکے شخصی وقار کیخلاف ہیں بلکہ سیاسی مفاہمت اور ہماری تہذیبی معاشرت کے اعتبار سے بھی سوالیہ نشان ہیں! بصورت دیگر سہیل وڑائچ کی پریشر گروپ والی بات اور مجیب الرحمٰن شامی صاحب نی مجھے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ مین سٹریم پارٹی نہیں ہیں، اس لئے ہم انکے متعلق زیادہ بات نہیں کرتے اور اس سے بڑھ کر مولانا وحید الدین خان مرحوم نے دعوت اور تبلیغ کے میدان میں رکاوٹ مذہبی سیاسی جماعتوں کے متعلق جو پیش خیمہ اور منظر کشی فرمائی وہی درست معلوم ہوتی ہے۔





