Column

ٹرمپ کا ٹرمپٹ بچ گیا

سیدہ عنبرین

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میامی کے دورے پر تھے جہاں انہیں ایک مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔ مقدمے کی سنگینی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسی مقدمے میں ٹرائل کے بعد انہیں سزا سنا دی جائیگی اور انکا سیاسی کیریئر ختم ہوجائے گا۔ وہ بہت بے آبرو ہو کر مرغزار سیاست سے باہر ہوئے ہیں، انہیں انتخابات میں شکست ہوئی تو انہوں نے نتائج کو ابتدا میں تسلیم نہ کیا اور دھاندلی کا الزام لگایا پھر انکے ایما پر کیپٹل ہل میں انکے حامیوں نے تخریب کاری کی جس کے بعد وہ مسلسل مختلف اداروں اور شخصیات پر الزام عائد کرتے تھے کہ انہیں حکومت سے باہر رکھنے کی سازش ہوئی ہے، اس سے قبل جن انتخابات کے نتیجے میں وہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تھے وہ بھی متنازعہ تھے۔ ٹرمپ پر الزام لگا کر انہوں نے روس کی مدد سے انتخابی نتائج تبدیل کئے گویا وہ روز اول سے متنازعہ تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ امریکی سی آئی اے نے انہیں صدر بنانے میں اپنا خفیہ کردار ادا کیا اسکی وجہ صرف یہ تھی کہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ کلنٹن کے زمانے کی پالیسی کو مکمل ختم کر کے اب نئے دور کے تقاضوں کے مطابق چلنا ہے۔ ہیلری کلنٹن کی کامیابی کی صورت میں کہیں نہ کہیں سابق امریکی صدر کلنٹن کی پرچھائیں نظر آنے کا امکان تھا جبکہ کلنٹن انتظامیہ اور انکے منظور نظر افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کیا جا سکتا تھا، پس کلنٹن باقیات سے پیچھا چھڑانے کا طریقہ ڈھونڈا گیا اور ہیلری کلنٹن کو جیتا ہوا الیکشن ہرا کر ٹرمپ کو اقتدار دیا گیا۔ امریکی سی آئی اے کی پسند سابق صدر ٹرمپ کو جن الزامات کا سامنا ہے مہذب دنیا میں کوئی اسکا تصور تک نہیں کر سکتا، وہ ایوان صدر سے رخصت ہوتے ہوئے اپنے ہمراہ کچھ حساس دستاویزات بھی لے گئے جن کا وہ استحقاق نہ رکھتے تھے۔ یہ تین سو فائلوں پر مشتمل ریکارڈ ہے جس کی انکے جانے کے بعد ڈھنڈیا پڑی رہی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اس عرصہ میں مکمل طور پر یملے بنے رہے اور آئندہ امریکی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر امیدوار بننے کی تیاریاں کرتے نظر آئے۔ ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مرتبہ الیکشن خریدنے کا پروگرام بنا رکھا تھا، انکا عزم تھا کہ وہ یہ الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہوئے تو اسے ہر قیمت پر خریدیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس جس قدر ذاتی دولت ہے اور جتنے وسائل انکی دسترس میں ہیں وہ ان کی بنیاد پر ایسا کر سکتے تھے۔ امریکہ میں انتخابات کے موقع پر علی الاعلان فنڈ ریزنگ کی جاتی ہے۔ اپنی پسند کی سیاسی جماعت کیلئے افراد، کاروباری ادارے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اس فنڈ میں خوب خوب حصہ ڈالتے ہیں پھر پسند کی سیاسی جماعت کی جیت کی صورت میں کاروباری نمائندے اٹھائے جاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر عہد صدارت میں ایک الزام یہ بھی لگا کہ ملک بھر میں جاری تمام منافع بخش پراجیکٹس میں سے ستر فیصد پر انکی ذاتی کمپنیاں قابض ہیں، وہ ان الزامات کو کبھی خاطر میں نہ لائے لیکن اب جس الزام میں انہیں گرفتار کیا گیا ہے اس میں ان کا بچ نکلنا یوں مشکل ہے کہ وہ تین سو فائلیں جو وہ چوری کر کے وائٹ ہائوس سے لے گئے تھی وہ تمام فائلیں برآمد کی جاچکی ہیں۔ اس حوالے سے انکی ملکیتی عمارتوں پر چھاپے مارے گے جہاں سے یہ فائلیں برآمد ہو گئیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مال مسروقہ برآمد گی کیلئے چھاپوں سے قبل ان سے اس ریکارڈ کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ صاف مکر گئے بلکہ انہوں نے یہ سوالات اٹھانے والوں کو دھمکی دی کہ انکی کردار کشی کی مہم کے ذمہ داروں کیخلاف وہ عدالت جا سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی ملکیتی ایک رہائش گاہ پر چھاپہ مارا گیا تو اسکے ٹوائلٹ کی دیوار میں بنائے خفیہ سٹرانگ روم سے درجنوں فائلیں ملیں جبکہ ایک اور پرائیوٹ کلب میں چھاپہ مارا گیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی ملکیت ہے تو وہاں سے بھی خفیہ جگہوں سے کچھ فائلیں ملیں۔ ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وائٹ ہائوس سے چوری کی جانے والی فائلیں حساس نوعیت کی ہیں، ان فائلوں میں امریکی افواج، انکی تعیناتی، تعداد، انکے پاس موجود وسائل کی تمام تفصیلات موجود ہیں، اسکے علاوہ نیٹو ممالک میں امریکی نیو کلیئر تنصیبات، سٹاف اور ان سے متعلق ڈیٹا حد درجہ حساس نوعیت کا ہے، ان فائلوں میں یہ تفصیلات بھی موجود ہیں اگر کوئی ملک نیٹو ممالک یا امریکہ میں کوئی فوجی کارروائی کرتا ہے تو اسکا جواب کیا اور کہاں سے کس انداز میں دیا جائے گا جبکہ یہ فائلیں اس امر کا بھی احاطہ کرتی ہیں کہ کسی غیر ملکی حملے کے نتیجے میں امریکہ کے اندر اور اسکے حمایتی نیٹو ممالک میں کون کون سی جگہیں ایسی ہیں جو حملے کا آسان ٹارگٹ ہو نگی اور اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ دوسری طرف ان فائلوں میں ایسی تفصیلات بھی موجود ہیں جنہیں امریکی جنگی لائحہ عمل کہا جاسکتا ہے، ان کے مطابق امریکہ اپنے مخالفین کے بارے میں جو عزائم رکھتا ہے اور جس طرح انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، ان فائلوں کی ورق گردانی کرنے سے تمام راز طشت ازبام ہوتے ہیں۔
اس بات کے ثبوت بھی مل چکے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے آخری ایام میں تیس سے پینتس مختلف ڈبوں، تھیلوں میں یہ ریکارڈ رکھوایا اور نہایت رازداری سے اسے وائٹ ہائوس میں اپنے دفتر سے باہر منتقل کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بہت بڑی کاروباری شخصیت ہیں، انہیں اس میدان میں وسیع تجربہ حاصل ہے۔ وہ ہر کام میں نتائج دیکھنے کی آرزو رکھنے والے شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ اپنے مخالفین پروار کرنے سے نہیں چونکتے، انہیں اپنی راہ سے ہٹائے بغیر دم نہیں لیتے۔ وہ بے حد تند خو مشہور ہیں لیکن ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ انہیں ہمیشہ سے یہ دعویٰ رہا ہے کہ وہ سب جانتے ہیں، انہیں جب بھی کوئی نیا یا حیرت انگیز مشورہ دے تو وہ مشورہ دینے والے کو کبھی اسکا کریڈٹ نہیں دیتے بلکہ اسے جواب میں جو پہلا فقرہ کہتے ہیں وہ یہی ہوتا ہے کہ ہاں مجھے اسکا علم ہے۔ انکے دوست اور بعض ٹیم ممبرز کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ درحقیقت سطحی سی سوچ رکھنے والی شخصیت ہے لیکن انکے میڈیا منیجرز اور انکا تاثر ابھارنے کیلئے خدمات مہیا کرنے والی کمپنیوں نے انہیں سپر مین بنا رکھا ہے۔
مجھے سب معلوم ہے کا دعویٰ کرنے والا زندگی میں پہلی مرتبہ وائٹ ہائوس میں پہنچا تو ایک بہت بڑی حقیقت فراموش کر بیٹھا کہ جو لوگ اسے اقتدار میں لائے ہیں وہ سائے کی طرح اسکے ساتھ موجود ہیں کہیں وہ نظر آتے ہیں کہیں نظر نہیں آتے لیکن وہ اسکی ہر حرکت پر ہر وقت نظر رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کا کوئی کام انکی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا حتیٰ کہ انہیں بہ بھی معلوم ہوتا ہی کہ وہ اپنے بیڈ روم میں یا واش روم میں ہوتو وہ وہاں کب اور کیا کیا کرتا ہے۔ وہ یہ بھی جان لیتے ہیں کہ صدر امریکہ کب کیا سوچ رہا ہوتا ہے۔ دنیا کی ایک بہت بڑی طاقت کے سربراہ کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑا جا سکتا ہے نہ اسکی طرف سے ایک لمحے کیلئے بھی آنکھ بند کی جاسکتی ہے۔ چیزوں پر نظر رکھنے کے حیرت انگیز طریقے دریافت ہو چکے ہیں جن میں کچھ بہت پرانے ہیں مگر نتائج انہیں سے ملتے ہیں۔ ہر کابینہ میں چار سے زائد ایسے افراد ہوتے ہیں جو ہر فیصلے کی پہلے سے خبر دیتے ہیں۔ لوئر سٹاف میں موجود کم از کم چھ افراد جبکہ صدر امریکہ کی بہت قریب ترین شخصیات بھی خفیہ اداروں کو معلومات فراہم کرتی ہیں اور فوائد حاصل کرتی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہ وہ شاید سب جانتے ہوں لیکن اسے یہ خبر نہ تھی کہ خفیہ داروں کے ساتھ کون کون رابطے میں ہے، یہ کہانی صرف امریکی صدر کی نہیں، ہر ملک میں نظام اسی طرح چلتا ہے۔ ہم دور بجنے والے ڈھول کو سہانا سمجھ لیتے ہیں، ڈھول ڈونلڈ ٹرمپ تو گیا کام سے ٹرم کا ٹرمپٹ بج گیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button