ہمیں اس قابل ہونا ہوگا

ندیم اختر ندیم
لبنان اور مصر کے درمیان واقع فلسطین اپنی کئی ہزار سالہ تاریخ رکھتا ہے کتنے ہی انبیاء کرامٌ اس مقدس سرزمین پر جلوہ افروز ہوئے بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول بھی ہے معراج کے سفر پر نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں نماز پڑھی اور انبیاء کرامٌ کی امامت کرائی، یعنی سفر معراج کی پہلی منزل بیت المقدس ہے، مسجد اقصیٰ میں بھی مسجد حرام کی طرح نماز کی ادائیگی کی فضیلت و مرتبہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ عبادت کی نیت سے کسی مسجد کا سفر کرنا درست نہیں ہے، سوائی تین مساجد کے، مسجد حرام، مسجد نبویؐ اور مسجد اقصیٰ، یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر بیت المقدس سے مسلمانوں کا رشتہ ایمانی اور مذہبی ہے، لیکن اب اس مقدس جگہ کے بیشتر علاقوں پر یہودی
قابض ہوچکے ہیں۔ 1947سے قبل تک حضرت عمر فاروقؓ کا فتح کیا یہ علاقہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور سے خلافت عثمانیہ میں چار سو سال تک رہا لیکن پھر یہودیوں نے اس طرف رخ کیا، 1918میں برطانیہ کی مداخلت پر یہودیوں کی آبادکاری کے عزائم کھل کر سامنے آگئے۔ یہودی تو دنیا کے ٹھکرائے ہوئے لوگ تھے، جنہیں کبھی کہیں اماں نہ ملی، دربدر پھرتے ہوئے یہودی 17صدی کے آخر میں فلسطین کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں اور اپنے مذموم عزائم کی تکمیل لئے وہ متحرک رہے۔ بیسویں صدی میں برطانیہ طاقت کے ذریعے یہاں اپنے ظلم کی شروعات کر چکا تھا اور پھر وہ سلسلہ دراز ہوتا یہاں تک آ پہنچا ہے، برطانیہ در اصل یہاں ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کر رہا تھا اور پھر آہستہ آہستہ ایک اسرائیلی ریاست تشکیل پا گئی۔
اب تو یہ عالم ہے کہ مغربی اور مشرقی یروشلم پر یہودی قبضہ مستحکم ہو چکا ہے اور اس استحکام کے بعد یہودی اب گریٹر اسرائیل کے خواب کی تعبیر کے لئے کوشاں ہیں۔ یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ اسرائیل نعوذ باللہ مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتا ہے۔
علامہ محمد اقبالؒ نے 1937میں رائل کمیشن کی رپورٹ کے خلاف ایک مفصل بیان جاری کیا جس میں انہوں نے فلسطین کی سرزمین پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کی برطانوی کوششوں کی کھل کر مذمت کی اور صاف طور پر واضح کیا کہ اس سازش کو روکنے کیلئے عرب اور ترک آپس میں متحد ہوجائیں۔ علامہ اقبالؒ نے 7اکتوبر 1937کو قائداعظم ؒکے نام اپنے خط میں مسئلہ فلسطین پر اپنے اضطراب کا اظہار کیا اور توقع ظاہر کی کہ آل انڈیا مسلم لیگ فلسطین پر صرف قراردادیں منظور نہیں کرے گی بلکہ کچھ ایسا بھی کرے کہ فلسطینی عربوں کو فائدہ بھی ہو۔ قائداعظمؒ نے بھی نہ صرف فلسطینیوں کیلئے فنڈ قائم کیا بلکہ 3دسمبر 1937کو پورے ہندوستان میں یومِ فلسطین منایا۔ 1938میں 8فروری اور پھر 26اگست کو یومِ فلسطین منایا گیا اور پھر 23مارچ 1940کو لاہور میں قرارداد پاکستان کے ساتھ ساتھ قرارداد فلسطین بھی منظور کی گئی۔ اسی سبب تو قائداعظم محمد علی جناح ؒنے 1948میں اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیاتھا۔
علامہ محمد اقبالؒ اور قائد اعظم ؒنے عملی طور فلسطین کے حق میں آوازیں اٹھائیں اور برطانیہ کے یہودیوں کی آبادکاری کے حوالے سے کھل کر مذمت کی اور اسے روکنے کے لئے موثر اقدامات پر زور دیا۔
فیض احمد فیض بھی یاسر عرفات کی درخواست پر ’’ لوٹس‘‘ کے ایڈیٹر بن کر بیروت گئے تو جب تک بیروت بلکہ وہ مکان جہاں فیض رہتے تھے بمباری سے تباہ نہیں ہو گیا فیض بیروت میں ہی رہے۔ فیض صاحب کی فلسطین اور فلسطینی تحریکِ آزادی سے وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فیض کے انتقال کے بعد یاسر عرفات نے ایک تعزیتی مضمون لکھا جس میں یاسر عرفات اپنا خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ فیض احمد فیض میرے اچھے دوست تھے اور بیروت کی جنگ میں ساتھی رہے، اس دہکتے ہوئے جہنم میں بھی ان کے چہرے کی لافانی مسکراہٹ ماند نہیں پڑی اور ان کی آنکھیں ناقابل شکست عزم و یقین سے چمکتی رہیں۔ بلا شبہ فیض احمد فیض ہمیں چھوڑ گئے لیکن ہمارے دلوں میں محبت کا اَن مِٹ نقش چھوڑ گئے۔ انہوں نے انقلابیوں، دانش وروں اور فن کاروں کی آنے والی نسلوں کے لیے بے نظیر اثاثہ چھوڑا ہے ‘‘۔
قارئین کرام! دنیا کی تاریخ کو دیکھئے تو آدھی سے زیادہ دنیا پر مسلمانوں نے طویل حکمرانی کی ہے اور یہود و ہنود مسلمانوں کے جذبہ ایمانی سے واقف ہیں اور مسلمانوں کے ہاتھوں اپنی شکست کا بدلہ لینے کو تڑپ بھی رہے ہیں اسی سبب اقوام عالم میں جہاں دیکھئے مسلمان زیر عتاب ہے لیکن افسوسناک امر تو یہ ہے کہ دنیا میں مفادات کے لیے سرگرداں آپس کی رنجشوں میں الجھے ہوئے مسلمان اس قابل بھی نہیں ہیں کہ آج یہود و ہنود کی سازشوں کا مقابلہ کر سکیں کہ کافر دنیا کی حیرت انگیز ترقی کا لامتناہی سفر طے کر چکا ہے اور ٹیکنالوجی میں وہ مسلمانوں کو کہیں پیچھے چھوڑ چکا ہے جس کی وجہ سے مسلمان انکی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا، آج بیت المقدس میں مسلمانوں کو عبادت کی اجازت نہیں وہاں نمازیوں پر سیدھے فائر کئے جارہے ہیں اسرائیل کے میزائل لبنان تک مار کر رہے ہیں اور مسلمان صرف مذمتوں تک محدود ہیں، چائنہ کی کوششوں سے ایران سعودیہ تعلقات بحال ہوچکے ہیں چائنہ کی ثالثی پر ان تعلقات کی بحالی امریکہ کو منظور نہ ہوگی اور پاکستان ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی معاشی طور پر اس پوزیشن میں نہیں کہ اسرائیل کو کوئی دوٹوک پیغام دے سکے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان دنیا کی غلامی ( آئی ایم ایف) سے نجات حاصل کرنے کی راہ تلاش کرے تاکہ ایٹم کی طرح معاشی استحکام بھی حاصل کر لے کہ بقول علامہ اقبالؒ: ہم سے تو دنیا کی امامت کا کام لیا جانا ہے اور ہمیں اس قابل ہونا ہوگا ۔







