Column

بیپر جوائے اور موسمیاتی تبدیلی خطرے کی گھنٹی

وقار اسلم

لرزہ خیز موجوں والا سمندری طوفان بڑی تیزی سے اپنی منزل کی جانب گامزن ہیں۔ قرائن یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ کراچی سے490کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ فی الحال، سرخیوں کے مطابق بیپرجوائے نامی طوفان برصغیر میں بڑھ رہا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے ساحلی علاقوں کو اس طوفان کا خدشہ لاحق ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق یہ سمندری طوفان بہت تیز رفتار ہوائوں کے ساتھ ڈیڑھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کر رہا ہے، اس کے ساتھ35سے40فٹ کی لہریں ہیں جو ملک کی سمت بڑھ رہی ہیں۔ اس طوفان کے ذریعے ہونے والی تباہی کا خوف ہے اور دنیا میں اس کی تصاویر کا جلوہ دیکھنے کے لئے ساحل پر نظروں کے انبار لگے ہیں وہیں حکومت ضروری اقدامات اٹھا رہی ہیں۔
بیپرجوائے طوفان نام کا اصل ماخذ بنگلہ دیش سے ہے۔ یہ2020میں پیش آنے والے طوفانوں کی فہرست کے لحاظ سے14واں طوفان ہے اور بارش کے لحاظ سے بنگلہ دیش نے اس کو یہ نام دیا ہے۔ بنگالی زبان میں ’’بیپر جوائے‘‘ کا مطلب تباہی کا ہے۔ یہ طبیعی آفتیں ماضی سے آج تک لوگوں کے لئے شدید پریشانی کا باعث بنی ہیں کیونکہ جب جان و مال کا خطرہ ہو تو کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ سمندری طوفانوں کے جنم کا بنیادی عامل حرارتی تبادلہ ہے۔ گرم خطوں میں سطحی تاپمی تیز ہوتی ہے جو اوقات برمہ میں خلاف اصول ہوتی ہے۔ تکنیکی تبادلہ کی بنا پر بادلوں کی شکل میں آگے بڑھتی ہیں۔ جب سمندری طوفان کا بنیادی عامل حرارتی تبادلہ ہوتا ہے تو یہ گرم آبادیوں کے قریب بنتا ہے جہاں آب و ہوا کی ملاوٹ کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں گرم ہوا آبادیوں کی جانب رواں ہوتی ہے جہاں وہ سرد ہوائوں سے جا ملتی ہیں۔1999ء میں آنے والے سمندری طوفان نے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں اجیرن کیں اور ان کے پیاروں کو لقمہ اجل بنایا۔
موجودہ آنے والے سائیکلانک ٹراپیکل طوفان میں فرق یہ ہے کہ یہ35ڈگری تک درجہ حرارت رکھتا ہے جبکہ1999ء والا سمندری طوفان25ڈگری سیلسیس تک کی حرارت رکھتا تھا۔ موجودہ طوفان14ممالک کے موسم پر براہ راست اثر انداز ہوگا، کہیں تیز بارشوں کا دور دورا ہوگا تو کہیں خشک موسم سے دوچار ہونا پڑے گا۔ بحیرہ عرب سے شروع ہونے والے اس بیپر جوائے کے اثرات امریکا تک جا پہنچیں گے جہاں موسم مزید سرد ہوجائے گا۔ یہ نہ صرف خطے بلکہ عالمی منظر نامے پر براہ راست اثر ڈالنے والا طوفان ہوگا۔
پروردگار نے ہمارے لئے قرآن البرہان میں واضح پیغام دیئے ہیں اور ان آفات سے ہمیں خبردار کیا ہے جیسا کہ سورہ روم کی آیت نمبر41میں ارشاد ہوا: ’’ خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہو گیا لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے تاکہ اللہ ان کو ان کے کئے بعض کاموں کا مزہ چکھائے شاید کہ وہ واپس پلٹ جائیں‘‘۔۔۔ آج ہم اپنے گرد و پیش پر روشنی ڈالیں تو ہمارے برے اعمال، بد اعتقادی نے ہمارے ضمیر مردہ کر دیئے ہیں، ہم ایک ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیںکہ اس سب سے نکلنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔
طوفان گجرات اور جنوب مشرقی پاکستان کے درمیان زمین پر آنے اور یہ احتمال ہے کہ اس طوفان کے ساتھ انتہائی بارشیں، بلند لہریں اور مضبوط ہوائوں کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔ اس خطرناک صورتحال کے سامنے اس علاقے کی حکومتیں نگاہ رکھ رہی ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر انتظامی طور پر تشویش ناک حکمت عملی اپنائی جا سکے تاہم ماہی گیروں اور عوام کو ساحل کی حدود کے قریب جانے سے روکا گیا ہے۔ کراچی میں500برساتی نالوں کو کچرا کنڈی میں بدل دیا گیا ہے اور پچھلے25سال سے سندھ کا کوئی وارث نہیں نہ15سال سے قائم پیپلز پارٹی کی حکومت اور نہ ہی اس سے پچھلی حکومتیں۔ مراد علی شاہ ہنگامی دورے تو کر رہے ہیں لیکن اقدامات زبانی جمع خرچ۔
ترکیہ میں آنے والے حالیہ زلزلے کے متعلق بھی کچھ سمجھ داروں نے اسے امریکی ہارپ ٹیکنالوجی سے نتھی کر دیا تھا جبکہ ایسا کچھ نہیں نکلا تھا، اب ہمیں چاہیے کہ عالمی فورمز پر یکجا ہوں، یہ سب کو سوچنا ہوگا کہ عالمی موسمیاتی تبدیلی سمندر کی لہروں کو جس رفتار سے جوش دلا رہی ہے کیا یہ ترقی یافتہ ممالک کے لئے بھی تو تباہی کا شاخسانہ نہیں؟ اہم فیصلے کرنے ہونگے، انڈسٹریلائزیشن کے موسم پر اثر انداز ہوتے دھوئیں،fossil fuels پر قابو پانا ناگزیر ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ مصنوعی ٹیکنالوجی کا حالیہ طوفان سے کوئی تعلق نہیں، یہ قدرتی ہے جس سے بچنے کا حل اپنی پالیسیز پر غور کرنا ہے۔

جواب دیں

Back to top button