Ali HassanColumn

ایک اور سیاسی جماعت

علی حسن

معروف سرمایہ دار جہانگیر ترین نے استحکام پاکستان پارٹی کے عہدیداران کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے ایک اور دولت مند عبد العلیم خان کو استحکام پاکستان پارٹی کا صدر مقرر کیا گیا ہے۔ ’ استحکام پاکستان پارٹی‘ کا قیام پاکستان تحریک انصاف سے لوگوں کی علیحدگی کے بعد عمل میں آیا ہے۔ پارٹی کے صدر اور رہنما بھی عمران خان کے ان ساتھیوں میں سے ہیں جنہوں نے 2018سے قبل پارٹی کھڑی کرنے میں کردار ادا کیا تھا۔ تحریک انصاف چھوڑ کر چلے جانے والے عامر کیانی استحکام پاکستان پارٹی کے سیکرٹری جنرل مقرر کئے گئے ہیں۔ عامر کیانی تحریک انصاف کے وزیر صحت بھی رہ چکے ہیں ۔ ان کے دور میں ادویات کی قیمتوں اور قلت اور مبینہ بدعنوانیوں کی شکایات پر عمران خان نے انہیں حکومت سے علیحدہ کر دیا تھا۔ تحریک انصاف سے علیحدگیوں سے قبل علیحدگی اختیار کرنے والے عون چودھری کو ایڈیشنل جنرل سیکرٹری اور استحکام پاکستان پارٹی کا ترجمان مقرر کیا گیا ہے۔ پارٹی کے مرکزی عہدیداروں کا تقرری کا اعلان کر نے کے بعد استحکام پاکستان پارٹی کے بانی جہانگیر ترین لندن چلے گئے جہاں اطلاعات کی مطابق لندن میں اپنا میڈیکل چیک اپ کروائیں گے، اپنے ایک ہفتہ متوقع قیام کے دوران ان کی لندن میں ن لیگی قیادت سے ملاقات کا بھی امکان ہے۔ ترین سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ان کے پاس وافر دولت موجود ہے اور اسی کے بل پر وہ سیاست کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پاکستان کے بڑے دولت مند افراد میں سے ایک ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کے قیام کے بعد جہانگیر ترین کا لندن کا پہلا دورہ پر چلے گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین لندن کے نواحی علاقے میں بہت ہی قیمتی اپنے فارم ہائوس میں قیام پذیر ہوں گے۔ ابھی پارٹی پوری طرح بنیادی تنظیم سازی نہیں کر سکی ہے اور تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کرنے والے ہی اس کا حصہ بنے ہیں لیکن ان کی اکثریت میں کسی سیاسی جماعت کو منظم کرنے یا تنظیم کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ ترین کی دولت کا کرشمہ ، تعلقات کا جادو اور پاکستانی سیاست کے جوڑ توڑ کو ناپنے تولنے اور پرکھنے والے ترین نے عمران خان کی تحریک انصاف کی صلاحیتوں میں اس وقت اضافے میں مدد کی تھی جب پارٹی اقتدار کے قریب تھی۔ لیکن پاکستان میں جب عمران حکومت میں شکر کا بحران پیدا ہوا اور عمران خان اور ان کی پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہا نگیر ترین کے راستے جدا ہوگئے۔ اسی دور میں انہیں سپریم کورٹ نے سیاست کے لئے نااہل قرار دے دیا تھا۔ کنگ میکر یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ نااہل بھی قرار دئے جا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ سے ان کی نا اہلی تا حال برقرار ہے لیکن وہ بھی نواز شریف کی طرح سیاست میں متحرک ہیں۔ پاکستان میں سیاسی جماعت کی کامیابی کا انحصار کرشماتی شخصیت کا ہونا، بہت متحرک سیاست دان یا عوام میں مقبول پارٹی ہونا ہوتا ہے۔ عمران خان تحریک انصاف کو گزشتہ 22سال سے سینچ رہے تھے تب کہیں جا کر انہیں یہ موقع ملا کہ وہ اقتدار میں آسکیں۔ پاکستان میں اقتدار میں آنے کے لئے کسی نہ کسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد چاہئے ہوتی ہے۔ کوئی بھی پارٹی دیر سے ہی مقبول ہوتی ہے اس سے کہیں پہلے سڑک پر ٹافی فروخت کرنے والے کی ٹافیاں فروخت ہو جاتی ہیں۔
پاکستان میں اس سے قبل بھی کئی بار نئی سیاسی جماعتیں قائم کی جاتی رہی ہیں لیکن ان پارٹیوں کے سوا کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار کے قریب نہیں پہنچی جسے ’’ الیکٹیبلز‘‘ اور اسٹیبلشمنٹ کے مدد حاصل نہیں رہی۔ اس کی سب سے بڑی مثال تحریک انصاف ہے۔ اس سے قبل 1968میں پاکستان پیپلز پارٹی سے اختلافات کی بناء پر پارٹی کے مرکزی رہنما غلام مصطفیٰ جتوئی کی ہے، جنہوں نے زور شور کے ساتھ لاہور میں ایک بڑا کنونشن کر کے نیشنل پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ ملک کے اکثر سیاسی مبصرین جتوئی کی پارٹی کی کامیابی کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پارٹی میں جتوئی سندھ اور پنجاب کے سیاسی طور پر مقبول اور طاقت ور سیاست دانوں کی اپنی پارٹی میں شمولیت میں کامیاب رہے تھے۔ غلام مصطفیٰ کھر، سابق وزیر قانون ایس ایم ظفر، حنیف رامے، حامد رضا گیلانی، ملک حامد سرفراز، نواب غوث بخش رئیسانی، کمال اظفر، میاں ساجد پرویز ، نفیس صدیقی، ران محمد حنیف خان ، اختر حسین شاہ، ربانی کھر ( حنا ربانی کے مرحوم والد) آفتاب شاہ گیلانی وغیرہ۔ پارٹی سیاسی میدان میں کامیاب نہیں ہو سکی اور جتوئی کے آبائی ضلع نو شہرو فیروز تک محدود ہو کر رہ گئی ۔ پارٹی کی عدم مقبولیت کی حالت یہ تھی کہ 1988کے عام انتخابات میں بی بی نے ایک عام سے غیر مقبول وکیل رحمت اللہ کو جتوئی کے مد مقابل امیدوار نامزد کر دیا تھا۔ جتوئی کے لئے رحمت اللہ سے شکست کھانا گہری ذہنی اذیت اور تکلیف کا سبب بنا تھا۔ 1988میں ان کے پرانے دوست کھر نے انہیں پنجاب میں اپنی خالی کردہ قومی اسمبلی کی ایک نشست سے ضمنی انتخاب میں کامیاب کرا کے قومی اسمبلی میں پہنچایا تھا، جہاں پیپلز پارٹی مخالفین نے انہیں قائد حزب اختلاف مقرر کر دیا تھا۔ پارٹی، اس میں بڑے ناموں کی شمولیت اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہوتی جب تک پارٹی عوام میں مقبول نہ ہو۔ جنرل مشرف نے ق لیگ قائم کرائی تھی، گجرات کے چودھری شجاعت اس کے سربراہ مقرر ہوئے تھے۔ طرح طرح کی بولیاں بولنے والے لوگ ق لیگ کا حصہ بن گئے تھے لیکن جیسے ہی مشرف کی صدارت کا خاتمہ ہوا، بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے نام نہاد سیاست دان منہدم ہو گئے تھے۔ ساری سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی دور میں ایسی ابتلاء سے گزری ہیں۔ اس تماش گاہ میں سیاسی جماعتوں کا ٹوٹنا بکھرنا ملک کے دولت مند افراد کو پسندیدہ کھیل ہے۔ الیکشن کمیشن میں نئی جماعت سے قبل 186سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں وہ جماعت بھی شامل ہے جو پاکستانی ایٹم بم کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے قائم کی تھی۔ تحریک انصاف کے اسد عمر نے درست ہی کہا ہے کہ’’ ملک کی طاقتور اشرافیہ آپس میں لڑ رہی ہے۔ بار بار وہی پرانی حکمت عملی استعمال کی جارہی ہے، جب کہ قوم باقی دنیا سے مزید پیچھے ہوتی جا رہی ہے۔ یہ ایک ڈرائونے خواب کی طرح ہے، دنیا ترقی کر رہی ہے، آگے بڑھ رہی ہے، ہم نیچے کی طرف لڑھکتے جارہے ہیں‘‘۔ ابھی تو نئی جماعت نے مکمل سانس ہی نہیں لی ہے کہ پارٹی کے رہنما عون چودھری کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت آئندہ عام انتخابات کے دوران مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر سکتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ آئندہ انتخابات میں ایک مرتبہ پھر ملکی سیاست میں نئی صف بندیاں ہوں گی لیکن عوام اونٹ کو کس کروٹ بٹھاتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ معروف شاعر حماعت علی شاعر نے ایسے ہی موقع کے لئے کہا تھا ’’ ہر قدم ہر نے نئے سانچوں میں ڈھل جاتے ہیں لوگ، دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ‘‘۔

جواب دیں

Back to top button