ستم اِک اور ہوگیا

تحریر : سیدہ عنبرین
دردِ ذہ ہو یا دانت کا درد، دونوں ہی جان لیوا ہوتے ہیں، دونوں سے جان اسی وقت چھوٹتی ہے جب دانت منہ سے باہر نہیں آجاتا یا ایک اور انسان دنیا میں، مرد اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں انہیں ایک ہی درد سے واسطہ پڑتا ہے۔ دردِ ذہ مردوں کو بھی ہونا چاہئے تھا وہ بچہ نہ جنتے کچھ اور کرتے، یوں وہ عورتوں کے برابر آ جاتے، اب تک تو بہت پیچھے ہیں۔
ایک صاحب کے دانت میں شدید درد اُٹھا، ڈینٹل سرجن کے پاس گئے، بتایا گیا کہ دانت نکالے بغیر درد ختم نہ ہوگا، مریض نے فیس پوچھی، سستا زمانہ تھا، ڈاکٹر صاحب نے کہا سو روپے، مریض نے پوچھا جناب کچھ رعایت، جواب ملا یہ ڈاکٹر کا کلینک ہے کریانے کی دوکان نہیں، مریض درد سے بے حال ہوا جاتا تھا خواہش تھی کہ جلد از جلد درد سے نجات ملے، سو روپے فیس دینے پر راضی ہوگیا، دندان ساز کی کرسی پر بیٹھا، گردن پیچھے کی طرف جھکائی منہ کھولا اور ایک دانت پر انگلی رکھ کر بتایا کہ یہ دانت ہے جس میں درد ہے، ڈاکٹر صاحب نے دانت نکال دیا اور مریض سے کہا اب آپ پانی سے کلی کر لیجئے، مریض نے ایسا ہی کیا، ڈاکٹر صاحب نے چند لمحے انتظار کیا، مریض کرسی سے نہ اٹھا، اُس نے شکایت کی کہ دانت کا درد بڑھ گیا ہے، ڈاکٹر صاحب نے تسلی دی نیا نیا زخم ہے بھرنے میں کچھ روز لگیں گے، مریض نے ڈاکٹر صاحب سے آئینہ لیکر اپنا زخم دیکھا اور کہا کہ جناب میں نے جس دانت پر انگلی رکھی تھی آپ نے وہ نہیں بلکہ اس کے ساتھ والا دانت نکال دیا ہے جس کی وجہ سے میرا درد ختم نہیں ہوا بلکہ دو چند ہوگیا ہے، ڈاکٹر صاحب یہ سن کر پریشان ہوگئے، انہوں نے بحث و تکرار مناسب نہ سمجھی کہ مریض کی باتیں سن کر دیگر مریض انہیں نالائق نہ سمجھنا شروع کر دیں، اسی خیال کے پیش نظر انہوں نے مریض سے کہا کہ وہ دوسرا دانت نکالے دیتے ہیں، مریض نے واضح کر دیا کہ چونکہ غلطی آپ کی ہے لہٰذا میں دوسرے دانت کی نکلوائی کی فیس نہیں دوںگا، ڈاکٹر صاحب اس مریض سے جلد از جلد جان چھڑانا چاہ رہے تھے لہٰذا انہوں نے یہ شرط مان لی اور مریض کا دوسرا دانت نکال دیا۔ مریض نے ایک دانت نکلوانے کی فیس سو روپے ادا کی اور رخصت ہوا تو ڈاکٹر صاحب کی جان میں جان آئی۔ وہ دوسرے مریضوں کی طرف متوجہ ہوئے جو ان کے منتظر بیٹھے تھے۔ مریض گھر پہنچا تو بیگم نے کہا تم نے اتنی دیر لگادی کام تو فقط پندرہ بیس منٹ کا تھا، خاوند نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیا، ہاں کام تو اتنی ہی دیر کا تھا، بیگم نے پوچھا تو پھر آپ کہاں رہ گئے تھے، خاوند نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے اسے فی دانت نکلوائی سو روپے بتائی اور کسی طور کم کرنے پر رضا مند نہ ہوئے تو میں نے ایک ترکیب سوچی کہ ایک دانت نکلوانے کی فیس میں دو دانت نکلوائے جائیں پھر اُس نے اپنی بیگم کو اپنی ذہانت اور اس کے استعمال کا واقعہ سنایا جسے سن کر پہلے اس نے اپنا سر پیٹا پھر یہی کام خاوند کے سر کے ساتھ کیا۔
بجٹ کے معاملے میں کچھ ایسا ہی کیا گیا ہے، تنخواہ دار طبقہ مہنگائی کی چکی میں سب سے زیادہ پستا ہے، جاری برس تو چکی میں پسنے کی بجائے وہ مہنگائی کے بیلنے میں آگیا اور اس کا عرق نکل گیا، بجٹ آنے سے قبل تنخواہ دار طبقے کی طرف سے حکومت سے مطالبہ کیا جارہا تھا کہ تنخواہوں میں قابل قدر اضافہ کیا جائے، حکومت نے تنخواہوں میں تیس سے پنتیس فیصد اضافے کے ساتھ ساتھ پنشن میں بھی معقول اضافہ کیا ہے، سرکاری ملازمین خوش ہیں کہ انہوں نے ایک دانت کی فیس میں دو دانت نکلوا لئے ہیں لیکن بجٹ میں تفصیلات کو سمجھ کر اب ان کا درد دو چند نہیں بلکہ سو چند ہوگیا ہے، سرکار اپنے اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح اٹھارہ فیصد تک بتاتی ہے جبکہ درحقیقت اس میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے، دودھ، گھی، کوکنگ آئل، آٹا، چکن، مٹن، بیٹ، مرچ مصالحے، کپڑے، جوتے، کتابیں، سٹیشنری کی بڑھی ہوئی قیمتیں حکومتی اعداد و شمار کو منہ چڑھا رہی ہیں جبکہ پٹرول اور ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ اس کے علاوہ ہے، ایک طرف کہا گیا ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، اس کے ساتھ ہی ایف بی آر نے بجٹ میں اضافی ٹیکس لگانے کا اختیار مانگ لیا ہے، بینک چارجز اور خدمات پر ٹیکس کی شرح میں اضافے کے ساتھ ساتھ چمڑے کی مصنوعات اور کپڑوں کی ریٹیل پر پندرہ فیصد ٹیکس کی نوید سنائی گئی ہے۔ عام فہم کی بات ہے کہ دکاندار یہ ٹیکس گھر سے لاکر حکومت کے خزانے میں جمع نہیں کرائیں گے بلکہ اسے صارفین پر منتقل کریں گے، کیا اس سے ان پر اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔ غیر ملکی پرانی گاڑیوں پر ٹیکس ختم کیا گیا ہے، غیر ملکی ری کنڈیشنڈ گاڑی غریب آدمی کی سواری نہیں ہے، اس کا فائدہ مراعات یافتہ طبقہ کو ہوگا، اس کاروبار سے وابستہ مافیا کی لوٹ سیل ایک نئے عزم سے شروع ہو گی۔
ایچ بی ایف سی کی مقروض بیوائوں کو قرضوں میں ریلیف دیا گیا لیکن جن کے خاوند زندہ ہیں ان کے اس قصور کی بنا پر انہیں یہ ریلیف نہیں مل سکتا، پس اب ضروری ہوا کہ اگر کسی خاتون کو اپنے مسائل میں گھرے ہونے پر یہ ریلیف درکار ہے تو پہلے بیوہ ہو پھر اس سہولت سے فائدے کی حقدار قرار پائے۔ کاروباری خواتین کیلئے ٹیکس میں چھوٹ کا اعلان کیا گیا ہے ساتھ ہی اس کا میرٹ بیان کیا گیا ہے کہ نوجوانوں پر ٹیکس کی شرح نصف ہوگی، گویا جن کی جوانی بیت گئی جن کی عمریں ڈھل گئیں وہ اس ریلیف کے حق دار نہیں، ضروری ہوا کہ پہلے تو بیتی ہوئی جوانی کی واپسی کا راستہ ڈھونڈا جائے، بجٹ میں ریلیف کی اس شق سے گمان ہوتا ہے کہ بجٹ تیار کرنے والے بجٹ کی تیاری کے دوران ایران کا تیار کردہ پنتیس اقساط پر مشتمل ڈرامہ دیکھ رہے تھی جو حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت زلیخا کے بارے میں ہے جس میں تمام واقعات نہایت مہارت تاریخی سچائی اور دلکش انداز میں عکس بند کئے گئے ہیں، اس ڈرامہ سیریل میں حضرت زلیخا کو ضعیف ہوجانے کے بعد دوبارہ جوان ہوتا دکھایا گیا ہے جو عین تاریخی حقیقت ہے، عمر رسیدہ پاکستانی خواتین دوبارہ جوان ہونے سے تو رہیں۔ صحافیوں کیلئے ہیلتھ انشورنس کیلئے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں، یہ قدم تو بہت اچھا ہے لیکن اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کیلئے بیمار ہونا، حادثے میں زخمی ہونا ضروری ہے، اگر کسی کی صحت اچھی ہے تو اس کے لئے کوئی ریلیف نہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صحافی برادری کیلئے بھی اسی طرح کا کوئی الائونس جاری کیا جاتا جس طرح بعض دوسرے پیشوں سے منسلک افراد کیلئے ہوتا ہے، اسے کہیں رسک الائونس اور کہیں ہیٹ الائونس اور کہیں ہارڈ ایریا الائونس کا نام دیا گیا ہے۔
پوری قوم فی الحال ایک ان دیکھے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی ہے اسے روسی تیل کہتے ہیں۔ حکومت کی منصوبہ بندی کے مطابق جولائی کے آخری ایام یا ماہ اگست میں یہ عوام کو دستیاب ہوگا لیکن کسی قیمت پر اس کے بارے میں کسی نے کوئی اعداد و شمار یا اندازے اب تک جاری نہیں کئے لیکن یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ پٹرول ڈیڑھ سو روپے میں دستیاب نہیں ہوگا۔
کہنے کو تو حکومت پاکستان کے ذرائع آمدن سینکڑوں میں لیکن بڑی کمائی جس سے ملک کو چلایا جارہا ہے وہ پٹرول، بیکنگ سیکٹر ، ٹیلی کمیونیکیشن اور ریئل سٹیٹ سے آنے والے ٹیکسز ہیں، ایکسپورٹ توقع سے بہت کم ہیں یا پھر سمندر پار پاکستانیوں کے بھیجے ہوئے ڈالر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہیں۔
بجٹ کے اعداد و شمار خوفناک ہیں، 144کھرب روپے کا وفاقی بجٹ ہے، 69کھرب روپے کا خسارہ بتایا گیا ہے، اب آپ چاہیں تو یقین کر لیں کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، پیش ہیں ناصر شیرازی کے دو شعر۔۔
ہزاروں ہمیں تھے درد، ایک اور ہوگیا
ہزاروں ارب خسارے کا بجٹ پیش ہوگیا
اُمید تھی حکومت کرے گی علاج غم
لیکن عجب غضب، ستم اک اور ہوگیا





