ہچکولے کھاتی معیشت کس سمت جا رہی ہے؟

وقار اسلم
پاکستان 368بلین ڈالر کی معیشت ہے جو کہ اس وقت نامساعد حالات سے دوچار ہے۔ ملک میں وفاداریاں بدلنے کا ایک بھونچال آیا ہے اور ان کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ جھٹکے کھا رہی ہے۔ انویسٹمنٹ کرنے والے مختلف اشکالات کا شکار ہیں کہ کب ملک کی مجموعی صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہوگی۔ جی ڈی پی 0.29پر آچکی ہے۔ آئی ایم ایف ڈیل دیگر قرض اتارنے کے لئے اس وقت ناگزیر ہوچکی ہے۔ ڈالر کو مصنوعی طور پر روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن بین الاقوامی ماہر اقتصادیات کہتے ہیں کہ یہ 410روپے تک جائے گا اور پاکستان کے لئے مسائل مزید بڑھیں گے۔ روپے کی قدر میں کمی اور درپیش چیلنجز مشکلات کے نہ رکنے والے بحر میں مبتلا کئے جارہے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نابلد قسم کی پریس کانفرنسز کر کے اعداد و شمار کی گھمن گھیری کر رہے ہیں جبکہ آئی ایم ایف اپنی جارحانہ پالیسیوں سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔
آئی ایم ایف کو زیر دام لانے کے لئے چین نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ڈٹ کر اپنا مدعا بیان کریں، یہ بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ چین کا اپنا 6.8بلین ڈالر قرض جو واجب الادا ہے حاصل کرنے کی بھی فکر لاحق ہے۔
حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی چاہئیں کہ جب آپ کو حقائق پتہ چلیں تو مبہوت ہو جائیں ایسا ہی کچھ اسحاق ڈار نے کیا ہے کہ پاکستان کے پاس ٹریلین ڈالرز کے اثاثے ہیں، مجھے لگتا موصوف سوئس بینکس کے پیسے کو ابھی بھی پاکستان کا اثاثہ گردان رہے ہیں۔ جس قدر شرم کا مقام ہے کہ پچھلے تین برس میں 164ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ہوئیں اور 170 ارب ڈالر کی امپورٹس کر لی گئیں یعنی ملک نقصان کی زد میں خود لایا گیا ہے۔ ایکسپورٹ اور امپورٹ ہمہ وقت ضروری ہیں مگر مناسب تناسب برقرار رکھنا بھی انتہائی ناگزیر ہے۔
معزز قارئین جس ملک نے 77ارب ڈالر کا قرض جلد از جلد اتارنا ہے اس کا آنے والا مالی سال کتنا خوشحال ہوگا اس کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔
ماہر معاشیات تو کہتے ہیں کہ نیا آنے والا مالی سال بہتری کی امید لائے گا، غریب کے سر سے بوجھ کم ہوگا اور اشرافیہ پر بڑھے گا لیکن کیا عوام اس مہنگائی کے دلدل سے نکل پائے گی یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔
ہر سال پچیس ارب ڈالر ادا کر کے ہی پاکستان 75ارب ڈالر کا بھاری قرض اتار پائے گا، اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ آنے والا وقت پستے ہوئے عوام کے لئے سبسڈی لے کر نہیں آرہا۔
ماہرین یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر سب ٹھیک چلتا ہے اور بیل آئوٹ ڈیل تکمیل کو پہنچتی ہے تو 2024میں معیشت بہتر ہوگی اور پاکستان کی مجموعی جی ڈی پی میں 3.61کی بہتری کی نوید سنائی جا سکتی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یہ کہنا کہ پاکستان کے پاس ٹریلین آف ڈالرز کے اثاثے ہیں، بڑا مضحکہ خیز ہے کیونکہ پاکستان کے فارن ریسورز صرف 4.6ارب ڈالر کے ہیں۔ اگر سوئس بینکس میں پڑی پاکستان کی دولت کی بات کی جائے تو وہ بھی ایک ہزار ارب ڈالر نہیں۔ حالیہ بجٹ بظاہر کچھ سکھ کا سانس لینے دے گا ہی کہ ہمیں ایک اور منی بجٹ کی جانب جانا پڑ سکتا ہے۔ حکمرانوں کی ترجیح سیاسی مخالفین کا سر نیچا کرنا، گرفتار کروانا یا ماضی کا کرب بیان کرنا ہی رہ گئی ہے۔ ہر وزارت کا قلمدان سنبھالنے والی شخصیات پوائنٹ سکورنگ کرتے ہیں اور سابق حکمران اعتزاز احسن کے ہمسائے اور بشریٰ بی بی کے ناراض شوہر کو ہر چیز کا مورد الزام ٹھہراتے نہیں تھکتے۔ میرا یہ خیال ہے کہ مسائل کا راگ الاپنے اور ارسطو بننے سے بہتر ہے کہ سب مل جل کر ملک کی حالت زار پر غور کریں۔ امید یہ ہی ہے کہ جلد آئینی بحران، اور پیچیدہ حالات سے چھٹکارا حاصل کرکے ملکی معیشت کو جو جمود لگا ہے اس کا حل تلاش کر کے فاسٹ ٹریک پر لایا جا سکے گا۔





