نیا بجٹ، عوامی ریلیف کا علم بردار

محمد ارسلان بخش چانڈیو
حکومت کی طرف سے صنعتی شعبے پر مزید ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کر دیا گیا، اسی طرح عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں کمی کا امکان بھی ہے، ترقی یافتہ ممالک میں خام مال کے ذخیرے میں اضافہ اور اس ہی خام مال کی بہتر دستیابی کی وجہ سے ایل ایس ایم میں بہتری آنے کی امید ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل کرنے پر خدا کا شکر گزار ہوں، مالی سال 24۔2023کے بجٹ کے اعداد و شمار پیش کرنے سے پہلے 2017میں نواز شریف کی حکومت اور 2022میں پی ٹی آئی کی نااہل حکومت کے بجٹ کا تقابلی جائزہ پیش کروں ۔ انہوں نے کہا کہ مالی سال 17۔2016میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 6.1فیصد تک پہنچ چکی تھی، مہنگائی 4فیصد تھی، غذائی اشیا کی مہنگائی صرف 2فیصد تھی، پالیسی ریٹ ساڑھے 5فیصد، سٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں نمبر ون اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔ پاکستانی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن تھی اور پاکستان 2020تک جی20ممالک میں شامل ہونے والا تھا، پاکستانی کرنسی مستحکم اور زرمبادلہ کے ذخائر 24ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر تھے، بجلی کے نئے منصوبوں سے 12۔16گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ سے نجات مل چکی تھی، انفراسٹرکچر، روزگار کے مواقع اور آسان قرضوں جیسے عوام دوست منصوبوں کی تکمیل کی گئی تھی۔ دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا چکا تھا، ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام تھا، ان حالات میں آناً فاناً سازشوں کے جال بچھا دئیے گئے، اگست 2018میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی، اس سلیکٹڈ حکومت کی ناکام معاشی کارکردگی کے سبب پاکستان 24ویں بڑی معیشت کے درجے سے گر کر 47ویں نمبر پر آگیا۔ آج پاکستان تاریخ کے مشکل ترین مراحل سے گزر رہا ہے، خراب معاشی صورتحال کی ذمہ دار پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت ہے، اس لیے مالی سال 22۔2021تک کی معاشی صورتحال کا ایک جائزہ ایوان کے سامنے رکھوں گا۔ پی ٹی آئی کی غلط معاشی حکمت عملی کے باعث کرنٹ اکائونٹ خسارہ 17.5ڈالر تک پہنچ گیا اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے تھے، آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل پاکستان کے لیے اہم تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس صورتحال کو جان بوجھ کر خراب کیا۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی دی، ایسے اقدامات اٹھائے جو آئی ایم ایف شرائط کی صریحاً خلاف ورزی تھی، سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ نے 2صوبائی وزرائے خزانہ کو فون کر کے آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژ کروانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے نئی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھائی گئیں جس سے نہ صرف مالی خسارے میں اضافہ کیا بلکہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچایا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی معاشی حکمت عملی کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت مالی خسارے میں خطرناک حد تک اضافہ تھا، مالی سال 22۔2021کا خسارہ جی ڈی پی کے 7.89فیصد کے برابر ہے جبکہ پرائمری خسارہ جی ڈی پی کے 3.1فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ جون 2018میں پاکستان کا قرضہ تقریباً 250کھرب تھا، پی ٹی آئی کی معاشی بے انتظامی کے سبب یہ قرض مالی سال 22۔2021میں 490کھرب تک پہنچ گیا، 4سالہ دور میں اتنا قرض لیا گیا جو 1947سے 2018 تک لیے جانے والے قرض کا 96فیصد تھا۔ اسی طرح قرضے اور واجبات اسی عرصے میں 100فیصد سے بڑھ کر 300کھرب سے 600کھرب روپے تک پہنچ گیا، جون 2018میں غیر ملکی قرضے اور واجبات 95ارب ڈالر تھے جوکہ جون 2022 تک 130ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ( ن) کی حکومت کو 2013میں 503ارب روپے کا گردشی قرضہ ورثے میں ملا جو 208تک بڑھ کر 1148ارب روپے پر پہنچ گیا، پی ٹی آئی کے 4سالہ دور میں یہ 1319 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 2467ارب روپے پر پہنچ گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے خسارے کو کم کرنے کے لیے کفایت شعاری سے کام لیا اور اخراجات میں کمی گئی، ان اقدامات کے نتیجے میں بجٹ خسارہ پچھلے مالی سال میں جی ڈی پی کے 7.9فیصد سے کم ہوکر رواں مالی سال میں جی ڈی پی کا 7.0فیصد ہوگیا، بنیادی خسارے کو صرف ایک سال کی مدت کے دوران جی ڈی پی کے 3.1فیصد سے کم کرکے 0.5فیصد پر لایا گیا۔ ملکی معیشت کو ایک سال کے دوران کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، سیلاب کے سبب معاشی نقصانات کا تخمینہ 30ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او کے تخمینے کے مطابق سال 2021 کے برعکس سال 2022کے دوران عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 14.3 فیصد کا اضافہ ہوا، تیل، گندم، دالیں، خوردنی تیل اور کھاد کی ہمیں زرمبادلہ میں ادائیگی کرنا پڑی جو مہنگائی میں اضافے کا باعث بنا، یوکرین جنگ، عالمی سطح پر تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مغربی ممالک میں شرح سود میں اضافے نے ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کیا۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ جلد ہی ملک جنرل الیکشنز کی طرف جانے والا ہے۔، اس کے باوجود اگلے مال سال کے بجٹ کو ایک الیکشن بجٹ کی بجائے ایک ذمہ دارانہ بجٹ کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔ ہم نے بھرپور مشاورت کے بعد خاص طور پر معیشت کے ان چنیدہ نکات کو منتخب کیا ہے جن کی بدولت ملک کم سے کم مدت میں ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن ہوسکتا ہے، معیشت میں بہتری کی سمت کے باوجود ابھی بھی چیلنجز کا سامنا ہے، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف صرف 3.5فیصد رکھا ہے جوکہ ایک مناسب ہدف ہے۔ اتحادی حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار مالی سال 24۔2023کے لیے 144.5کھرب حجم کا بجٹ پیش کیا ہے ، بجٹ میں مالی مشکلات کے باوجود عوام کو بے پناہ ریلیف دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گرواٹ کو کم کیا گیا ہے، حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے، باقاعدگی سے مذاکرات جاری ہیں، ہماری ہر ممکن کوشش ہے کہ جلد ایس ایل اے پر دستخط ہوں اور نواں جائزہ مکمل ہوجائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مہنگائی کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے کچھ ماہ قبل بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دئیے جانے والے کیش ٹرانسفر میں 25فیصد تک اضافہ کر دیا ہے، بجٹ کو 260ارب سے بڑھا کر 400ارب کر دیا گیا ہے، اس کا اطلاق یکم جنوری 2023سے ہوچکا ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مفت آٹے کی تقسیم کی گئی، سستی اشیا کی فراہمی کے لیے 26ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، گزشتہ ایک ماہ میں حکومت نے 2مرتبہ پٹرولیم مصنوعات میں کمی کی، امید ہے اس کے نتیجے مہنگائی میں کمی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال اندرونی اور بیرونی مشکلات کے سبب بڑی صنعتوں کی پیداوار میں منفی گروتھ کا رجحان رہا، اس کی بڑی وجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا رجحان تھا، جس کے سبب خام مال کی دستیابی میں مشکلات پیدا ہوئیں، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خام مال کو ترجیحی بنیاد پر ایل سی کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے، حکومت اگلے مالی سال اس رجحان کو ریورس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ صحافیوں و فنکاروں کیلئے ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراء کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اقلیتوں، اسپورٹس پرسنز اور طالب علموں کی فلاح کے لیے فنڈز اس کے علاوہ ہیں۔ پنشن کے مستقبل کے اخراجات کی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے پنشن فنڈ کا قیام کیا جائے گا۔ جس میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 1150روپے کی تاریخی رقم مختص کی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ ، سرکاری ملازمین کی کم سے کم پنشن 10ہزار سے بڑھا کر 12ہزار، وفاقی حدود میں کم سے کم اجرت 32ہزار روپے، ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوٹ ( ای او بی آئی) کے ذریعے پنشن حاصل کرنے والے پنشنرز کی کم سے کم پنشن کو 8500روپے سے بڑھا کر 10ہزار روپے، قومی بچت کے شہداء اکائونٹ میں ڈپازٹ کی حد 50لاکھ روپے سے بڑھا کر 75لاکھ روپے ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ( بی آئی ایس پی) کے بجٹ کو 360ارب روپے سے بڑھا کر 400ارب ، مقروض افراد کی بیوائوں کے 10لاکھ روپے کے قرضے حکومت ادا کرے گی، ترسیلات زر کے ذریعے غیرمنقولہ جائیداد خریدنے پر 2فیصد ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے، ریمٹنس کارڈ کی کیٹگری میں ایک نئے ڈائمنڈ کارڈ کا اجراء ، سالانہ 50ہزار ڈالر سے زائد ترسیلات زر بھیجنے والوں کو ڈائمنڈ کارڈ جاری کیا جائے گا۔ بجٹ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ قانونی طریقے سے زرمبادلہ کو فروغ کے لیے مندرجہ ذیل مراعات دی جائیں گی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی زر مبادلہ کا اہم ترین ذریعہ ہیں اور ترسیلات زر ہماری برآمدات کے 90فیصد کے برابر ہیں۔ زرمبادلہ کارڈز کی کیٹگری میں ایک نئے ’’ ڈائمنڈ کارڈ‘‘ کا اجرا کیا جا رہا ہے جو کہ سالانہ 50ہزار ڈالر سے زائد زرمبادلہ بھیجنے والوں کو جاری کیا جائے گا۔ اس کیٹگری کے لیے مراعات میں ایک غیر ممنوعہ بور اسلحے کا لائسنس، گریٹس پاسپورٹ ،پاکستانی سفارتخانوں اور قونصل خانوں تک ترجیحی رسائی، پاکستانی ائیر پورٹس پر فاسٹ ٹریک امیگریشن کی سہولت، کارڈزوالوں کو قرعہ اندازی کے ذریعے بڑے انعامات دینے کے لیے سٹیٹ بینک کے ذریعے سکیم دی جائیں گی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم صوبائی ذمہ داری ہے لیکن وفاق اس کی ترویج میں اپنا بھر پور حصہ ڈالتا ہے، اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے موجودہ اخراجات کی مد میں 65ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت کے لیے پاکستان انڈومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس کے لیے بجٹ میں 5ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ یہ فنڈز میرٹ کی بنیاد پر ہائی سکول اور کالج کے طلبہ و طالبات کو وظائف فراہم کرے گا، اس فنڈ کے قیام کا مقصد ہے کہ کوئی بھی ہونہار طالبعلم وسائل میں کمی کی وجہ سے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ ہو۔ لیپ ٹاپ اسکیم کو جاری رکھنے کے لیے آئندہ مالی سال میں 10ارب روپے کی رقم مختص کی گئی۔ کھیل تعلیم کا ایک لازمی حصہ ہیں بجٹ میں اسکول، کالج اور پروفیشنل کھیلوں میں ترقی کے لیے 5ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ ان درآمدات کی قیمت میں اضافہ افراط زر کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس قیمت میں کمی کرنے کے لیے ہماری حکومت پاکستانی کوئلے کے استعمال اور شمسی توانائی کو فروغ دینے کے لیے پختہ ارادہ رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں کوئلے سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں کو ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ مقامی کوئلہ استعمال کریں۔ سولر پینلز ، انورٹرز اور بیٹری کے خام مال پر استثنیٰ دیا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت نے کراچی میں پینے کے پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے کیلئے K4گریٹر واٹر سپلائی اسکیم کیلئے بھی رقم مختص کی ہے۔ K4گریٹر واٹر سپلائی اسکیم کیلئے 17ارب 50کروڑ روپے کی رقم مہیا کی جائے گی۔ زرعی قرضوں کی حد کو رواں مالی سال میں 1800ارب سے بڑھا کر 2250ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ بجلی اور ڈیزل کے بل کسان کے سب سے بڑے اخراجات میں شامل ہیں لہٰذا اگلے مالی سال میں 50000زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ معیاری بیج ہی اچھی فصل کی بنیاد ہے ملک میں معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کی جا رہی ہیں۔ چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے ڈیوٹی و ٹیکسز سے استثنیٰ کی تجویز ہے۔ آئندہ مالی سال 24۔2023کے بجٹ میں فری لانسرز کیلئے ٹیکس سہولتوں کا اعلان کردیا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ٹی اور آئی ٹی خدمات معیشت کے سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے شعبے ہیں اور ان کا برآمدات میں نمایاں حصہ ہے، پاکستان اپنا کاروبار کرنے والے فری لانسرز کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، ان کو در پیش مسائل کا حل اور عمومی طور پر اس شعبے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ آئی ٹی برآمدات کو بڑھانے کے لیے انکم ٹیکس 0.25فیصد کی رعایتی شرح لاگو ہے اور یہ سہولت 30جون 2026 تک جاری رکھی جائے گی، فری لانسرز کو ماہانہ سیلز ٹیکس گوشوارے جمع کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا لہٰذا کاروباری ماحول میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے 24ہزار ڈالر تک سالانہ کی برآمدات پر فری لانسرز کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھاکہ اس کے علاوہ ان کے لیے ایک سادہ انکم ٹیکس ریٹرن کا اجرا کیا جارہا ہے، آئی ٹی خدمات فراہم کرنے والوں کو اجازت ہو گی کہ وہ اپنی برآمدات کے ایک فیصد کے برابر مالیت کے سافٹ وئیر اور ہارڈ وئیر بغیر کسی ٹیکس کے درآمد کر سکیں گے، ان درآمدات کی حد 50 ہزار ڈالرز سالانہ مقرر کی گئی ہے۔آئی ٹی خدمات اور ایکسپورٹرز کے لیے آٹومیٹڈ ایگزیمشن سرٹیفکیٹ جاری کرنے کو یقینی بنایا جائے گا اور ITشعبہ کو ایس ایم ایز کا درجہ دیا جارہا ہے جس سے اس شعبے کو انکم ٹیکس ریٹس کا فائدہ ملے گا۔ اسلام آباد کی حدود میں آئی ٹی سروسز پر سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح کو 15فیصد سے کم کر کے 5فیصد کی جارہی ہے، اس کے علاوہ ITکے شعبے میں قرضہ جات کی فراہمی کو ترغیب کے لیے بینکوں کو اس شعبے میں 20فیصد کے رعایتی ٹیکس کا استفادہ حاصل ہوگا، اگلے مالی سال میں 50ہزار آئی ٹی گریجویٹس کو فنی تربیت دی جائے گی۔ملکی دفاع کے لیے 18کھرب 4ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، گزشتہ مالی سال دفاعی بجٹ 15کھرب 23ارب روپے تھا جس میں اس سال اضافہ کیا گیا ہے۔ سول انتظامیہ کے اخراجات کیلئے 7کھرب 14ارب روپے مہیا کیے جائیں گے۔ پنشن کی مد میں 7کھرب 61ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بجلی، گیس اور دیگر شعبہ جات کے لیے 10کھرب 74 ارب روپے کی رقم بطور سبسڈی رکھی گئی ہے۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا میں ضم شدہ اضلاع، بے نظیر پروگرام، ہائیر ایجوکیشن کمیشن، ریلویز اور دیگر محکموں کیلئے 14کھرب 64ارب روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے۔ اگلے سال پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے 9کھرب 50ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے 2کھرب روپے کی اضافی رقم کے بعد مجموعی ترقیاتی بجٹ 11کھرب 50ارب روپے کی تاریخی بلند ترین سطح پر ہوگا۔ بجٹ دستاویز کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا ٹیکس وصولی کا ہدف 92 کھرب روپے مقرر کیا گیا ہے جس میں سے براہ راست ٹیکس وصولی کا حجم 37کھرب 59ارب روپے ہوگا جبکہ بلواسطہ ٹیکسز کا حجم 54کھرب 41ارب روپے ہوگا۔ اس کے علاوہ غیر ٹیکس شدہ آمدنی 29کھرب 63ارب روپے ہو گی۔ اگلے سال ایف بی آر محاصل کا تخمینہ 92کھرب روپے ہے جس میں صوبوں کا حصہ 52کھرب 76ارب روپے روپے ہوگا۔ وفاقی نان ٹیکس محصولات 29کھرب 63ارب روپے ہوں گے۔ وفاقی حکومت کی کل آمدن68 کھرب 87ارب روپے ہوگی۔ ان اقدامات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستانی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہو گی۔ اور مملکت پاکستان میں رہنے والے غریب عوام کے مشکل حالات میں بہتری آئے گی۔ ان شاء اللہ۔







