پالیسی ہی زہر قاتل ہے .. تجمل حسین ہاشمی

تجمل حسین ہاشمی
بچے کی پیدائش حکم خداوندی ہے۔ پیدائش کے ساتھ ہی تقسیم کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ والدین اس کو اپنا مذہب اور مسلک سکھاتے ہیں، مکمل ضابط حیات اور سچا دین صرف اسلام ہے جو کامیابی کی ضمانت ہے ۔ جو منکر کو بھی زندگی، عبادت اور تحفظ کی ضمانت کا دیتا ہے ، ترازو کو برابر رکھنے کا سبق اسلامی تعلیمات سے ملتا ہے ، حضورؐ ٔ کی زندگی انسانوں کے لیے تا حیات مشعل راہ ہے۔ آخری نبی حضرت محمدؐ کی ساری زندگی محبت، ایثار، قربانی پر گزاری، حضور اکرمؐ آخری نبیؐ ہیں، جنہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللّہ ایک ہے، میں آخری نبیؐ ہوں۔ گواہی کا مطلب کہ وہ سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ، جو میں کہہ رہا ہوں ۔ حضورؐ نے اللّہ کا دیدار کیا، سبحان اللہ اور ہم نصیب والے ہیں کہ مسلمان خاندان میں پیدا ہوئے اور حضورؐ کے امتی ہیں ، اسلامی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل پیرا ہونے کے بعد ہی معاشی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ خراب صورتحال سے نجات تبھی ممکن ہو سکے گی جب حضورؐ کی تعلیمات پر عمل کیا جائے گا ، حقوق کی پامالی معاشرہ کی جڑوں میں بس چکی ہے ، آئین کی پامالی میں ادارے بھی برابر کے شریک جرم ہیں، موجودہ نظام میں بہت کمزوریاں پیدا ہو چکی ہیں ، جو معاشی بحالی میں بہت بری رکاوٹ ہیں ، وزیر اعظم خود کہتے ہیں میں مہنگائی کو کیسے کنٹرول کروں ، سمجھ نہیں آتی ۔ معاشرے کی بہتر نشوونما کے حوالے سے سول اداروں اور سیاسی جماعتوں کی کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی ، سیاسی جماعتوں کی اپنی پرورش بھی جمہوری نہیں رہی ، ٹکٹوں کی خرید و فروخت سے پارلیمانی نظام متاثر ہو چکا ہے۔ ہر دور میں ملک طاقت وار ہاتھوں کے زیر اثر رہا ، طاقتور وقت کے ساتھ مزید طاقتور ہوتے گئے ، حکومتی ایوانوں سے کاروباری حلقوں تک سرکل بن چکے ہیں۔ ملکی پالیسیوں پر طاقتور قوتوں کا ہاتھ مضبوط ہو چکا ہے ، حکمران جماعتوں نے بھی ملک میں وقتی پالیسیوں کو پروان چڑھا کر ان حلقوں کو سپورٹ کیا جن سے مفادات وابستہ رہے ، تاجر حضرات کو ایسے منصوبوں لگانے کی ترغیب دی گئی جن کی پیداوار وقتی ثابت ہوئی یا پھر حکمران جماعت کی پالیسی پر منحصر تھی ، سمجھنے کے لیے چند مثالیں، پاکستان کپاس کی پیداوار میں خود کفیل تھا ، کپاس ایک ویلیو ایڈڈ کاشت ہے ۔ جس کی پیداوار سے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملتا تھا ، ہزاروں کارخانے کپاس پر منحصر تھے۔ حکومتی پالیسی نے شوگر انڈسٹری کو پروان چڑھایا ، شوگر ایزی منی ہے ، مارکیٹ میں اس کی قیمت میں تبدیلی کا رجحان زیادہ ہے ، جس سے کاروباری لوگوں کے منافع ڈبل ہو جاتے ہیں، جو اپ روز مرہ دیکھ بھی رہے ہیں ۔ شوگر انڈسٹری کو کامیاب کرنے کے لیے گنا کی پیداوار میں اضافہ ضروری تھا ، جہاں کپاس پیدا ہوتی تھی وہاں گنا کی کاشت کو بڑھایا گیا تھا ، اس حوالے سے سرکار نے تبدیلیاں کی ، کپاس کی پیداوار میں کاشت کار کو محنت اور افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور گنا کی کاشت میں محنت اور افرادی قوت کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی اب جہاں کپاس کی پیداوار تھی وہاں گنا کاشت کیا جاتا ہے ، کپاس کے کارخانوں کے مالک چھوٹے تاجر تھے، جو نقصان کی وجہ سے کاروبار بند کر گئے، کسی دوسرے سیکٹر کی طرف چلے گے ۔ شوگر انڈسٹری لگانے کے لیے اربوں روپے درکار ہوتے ہیں اور چھوٹا تاجر یہ کام نہیں سکتا تھا لیکن کپاس کی انڈسٹری کا قیام اربوں نہیں لاکھوں سے ممکن تھا ۔ طاقتور حلقوں نے چھوٹے تاجر کو اس طرح کاروباری سیکٹر ، منڈیوں سے نکال باہر کیا کہ معاشی سرکل سکڑ کر چند ہاتھوں میں چلا گیا ۔ جس کی وجہ سے ملکی گروتھ پر بوجھ آنے لگا ، مارکیٹ میں قیمتیں غیر مستحکم رہنے لگیں، روزگار ختم ہونا شروع ہوا ، جس کا دبائو عام افراد کی زندگی پر پڑنا شروع ہو چکا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ بھی غیر مستحکم رہنے لگی۔ کئی پراجیکٹس پر حکومت نے اربوں روپے خرچ کئے لیکن وہ پراجیکٹ بند پڑے ہیں یا سیاسی بنیادوں کی نذر ہو گئے ہیں ، قیمتوں کے عدم استحکام سے پراجیکٹ کاسٹ میں اربوں روپے اضافہ ہوا جو عوام ٹیکسز کی مد میں برداشت کر رہی ہے ۔ حکومتوں کے فلاحی پراجیکٹ جیسے سستا تنور ، پانی پراجیکٹس ، لنگر خانوں ، سستا آٹا کا معاشی گروتھ میں کوئی شمار نہیں۔ کئی پراجیکٹس آج ملکی خزانہ پر بوجھ بنا دئیے گئے۔ جن میں سٹیل ملز،پی آئی اے ، کراچی واٹر سپلائی منصوبہ ، انٹر ریلوے سروس ، ریل ویز کے منصوبے شامل ہیں، آج کل پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی مدد سے شہریوں کی خدمات کا پرچار ہے ، کسی دن سستے آٹے کی طرح ان خدمات میں بھی لمبا چوڑا فراڈ نکل آئے گا ، حکومتوں کی طرف سے جتنے پراجیکٹ عوامی مفاد عامہ کے لیے تیار ہوئے ان سب پراجیکٹس میں اربوں روپے کی لوٹ مار ہوتی رہی ، حکومتوں نے معاشرہ میں کاروبار کے رجحانات پر کبھی توجہ نہیں دی ، مشرف دور میں پراپرٹی مہنگی ہوئی اور پورے پاکستان نے پراپرٹی پر پیسہ لگایا زرعی زمینوں پر سوسائٹیاں بنا کر بیچی گئیں اور اس کا نتیجہ آج ملک میں وہ اجناس بھی مہنگی ہیں جن میں ہم خود کفیل ہیں، پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر کو آزادی ملی تو ملک میں تعلیم تفریق پیدا ہوئی اور ملک ایک خاص ایلیٹ کلاس کے ہاتھوں میں چلا گیا ، سرکاری سکول میں صرف غریب ہی باقی ہے ۔ میڈیا انڈسٹری کو نئے چینل کھولنے کی آزادی ملی تو سارا پیسہ اس شعبہ میں لگایا گیا وہ کچھ ہوا اور جو ہو رہا ہے اس کی توقع نہیں تھی ۔ اب اخبار انڈسٹری کی حالت سب کے سامنے ہے ۔ اگر حکومت کاروباری قوانین میں میانہ روی کو مد نظر رکھتی تو آج ملکی معاشی صورتحال کافی بہتر ہوتی، نئے کاروبار پر پابندی نہیں بالکل تمام شعبہ کاروبار میں سرمایہ کاری میں میانہ روی کے اصول کو کارفرما کروانا حکومت کا کام تھا۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ سبسڈی اور فلاحی خدمات کے طریقہ کار کو تبدیل کریں، اس کا متبادل دیں، جس سے روزگار میسر ہو ملکی مالیاتی مشکلات میں کمی آئے گی ملک کسی ایک جماعت کی پالیسی یا کردار سے ٹھیک ہونے والا نہیں ہے ، فی حال جو ملکی صورت حال چل رہی ہے اس میں سب جماعتوں اکٹھی ہوں اور کم از کم دس سال کے معاشی پلان پر اتفاق کریں پھر کہیں معاشی صورتحال کنٹرول ہو گی۔ قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں معاشی بہتری کے لیے کئی طرح کے قوانین کا نفاذ کیا گیا
Public and representative of
fices (disqualification)act 1949
جن کا مقصد حکومتوں کے وزیر، نائب وزیر، سیکرٹری، جو جانبداری ، اقربا پروری ، دیدہ دانستہ بد انتظامی کے مرتکب ہوئے ان پر ایکشن لیا جائے تاکہ ملکی سمت درست رہے۔ یہ قانون ختم ہو گئے تھے ۔ اس وقت ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے، تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر دس سالہ معاشی مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کرنا چاہئے۔







